ستاون ملکوں کا تڑپتا فلسطین
Article by Abrish Noor
تجھ سے فریاد ہے اے گنبدِ خضرا والے
کعبے والوں کو ستاتے ہیں کلیسا والے
پچھلے کئی مہینوں سے مظلوم فلسطینیوں کا لہو بہہ رہا ہے مگر وہ بہتا لہو 57 اسلامی ممالک کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام ٹھہرا ہے۔ہمارے بے حس حکمرانوں نے خود کو امن کی اوٹ میں چھپا لیا۔ دختران فلسطین کی عصمتیں خاک بسر ہو رہی ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ہم کس منہ سے خود کو مسلمان کہتے ہیں، ہم کس طرح خود کو بہادر قوم کہتے ہیں، جب کہ ہم نے اپنے اسلاف کی بہادری اور وقار کو فراموش کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کی آمد ہوگئی مگر یہ ظلم وبربریت اسی روز اول کی طرح جاری ہے اور پھر رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی ہمیں ہر طرف خوشیاں رونقیں نظر آنے لگیں۔ من پسند پکوانوں سے دستر خوان سجنے لگے، ابھی میں ان پر مسرت گھڑیوں پر خوشی سے جھوم ہی رہی تھی کہ مجھے مسلمانوں کے قبلۂ اول بيت المقدس کے نام پر کٹ مرنے والے شہدائے اسلام کی چیخیں سنائی دینے لگیں، بھوک سے بلکتے بچے جو چاولوں کے چند دانوں کی خاطر موت کی آغوش میں چلے گئے، ان نونہالوں کے رونے کی آوازیں، وہ خون سے لتھڑے، معصوم بچوں کی چیخوں سے فضا گونجنے لگی مگر امت کے حکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف رہے۔
ابھی وہ صدائیں مدھم نہیں ہوئی تھیں کہ فلسطین کی ان بہنوں کی سسکیوں نے مجھ سے سماعت کا بھرم چھین لیا جن کے بھائی، جن کی غیرتوں کے محافظ اس ارض پر قربان ہو گئے۔ فلسطین کی سرزمین جو امانت تھی انبیاء کی اب اس کا ذرہ ذرہ سلگتا دیکھ رہی ہوں۔ غزہ کی سرزمین جسکا ہر گھر مورچہ ہے تو ہر گلی میدان جنگ۔ شہداء کی لاشوں کا وہ انبار دیکھ کر میں اس امت کی بے حسی پر صرف آنکھیں نم کر سکتی ہوں اس ٹوٹے دل سے سوال کرتی ہوں آخر تمہاری بے حسی کب ختم ہوگی؟ دہشتگرد اسرائیل نسل کشی کررہا ہے، اب بھی عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے وہ
فلسطینی مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے، اور ہم تماش بینوں میں کھڑے آخری بچے کے بھی شہید ہونے کے منتظر ہیں۔
سحر و افطار کے مزے لوٹنے والے یہ بھول گئے ارض انبیاء پر خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ روزانہ سینکڑوں مائیں، بہنیں، دودھ پیتے بچے سرزمین انبیاء کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا رہے ہیں۔ ہم اپنی خوشیوں میں مگن ہیں، فلسطین کے بلکتے، سسکتے اور مدد کو پکارتے بچوں کی آہ و بکا سن تو رہے ہیں مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہمارے ہاتھ شمشیر کے لیے نہیں پی ایس ایل میچز کے لیے تالیاں بجانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ اے فلسطین کی معصوم کلیو! ہمیں نہ پکارو۔ ہمارے پاس اب صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد جیسے بہادر سپوت نہیں کیوں کہ جس امت کی ماؤں نے ان سپوتوں کو جنم دینا تھا وہ ٹک ٹاک سوشل میڈیا کی نذر ہوگئیں۔
اے امت مسلمہ!
اے ضمیر فروش لوگو! تم سے تمہاری خاموشی پر حساب لیا جائے گا۔ فلسطین کا ہر بچہ تمہارے گریبان کو پکڑے گا۔
لمحہ فکریہ ہے اس امت کے لیے کہ
57اسلامی ممالک ہوں جو ہر قسم کے وسائل ،قدرتی ذخائر اور معدنیات سے مالال ہوں اور ان 57 اسلامی ممالک کی افواج کی تعداد لاکھوں پر مشتمل ہو، یہ افواج ہر قسم کے جدید ترین اسلحہ سے مالامال ہوں صرف یہی نہیں بلکہ ان میں سے پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بھی شامل ہو، اس کے باوجود عالم اسلام ضعف واضمحلال، بے عملی کاشکار اور خاک کا ڈھیر ہو جائے تو یہ ستاون مردوں کے لیے شرم کا مقام ہے۔ خواب غفلت میں مبتلا جو قبلہ اول کی پکار کو بھی سُن نہیں پا رہے، پاکستان ایٹمی قوت ہے، پاکستان کے پاس میزائل ٹیکنالوجی ہے، یہ اگر اسرائیل کو روکے تو وہ ظلم سے رک سکتا ہے مگر ہمارے حکمران تو طاغوتی قوتوں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال غلامی کا حق ادا کررہے ہیں۔ قانون قدرت ہے ہر رات کی سحر ہے، گو یہ رات بہت طویل اور رنج و غم سے لبریز ہوگئی ہے مگر اسے طلوع تو ہونا ہے اور فلسطینیوں کی بھی سحر طلوع ہوگی۔
اے بےکسوں کے آقا ﷺ! اپنی امت کی مدد فرمائیے
دعا ہے کہ جلد ربّ کریم مسلمانوں کو ایسی قوت و صلاحیت کے ساتھ دین اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی توفیق عطا فرمائے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عطا فرمائی، ایسی توفیق بخشے جیسی اصحاب خیبر کو بخشی۔
آمین ثم آمین۔
تحریر: ابرش نور
ہمارے حکمران بے حس ہوچکے ہیں اور بے بسی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں انہیں غیرت نہیں آنی