تحریک انصاف پاکستان بمقابلہ تحریک لبیک پاکستان
Article by Abrish Noor
حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی اپنی کھوئی ہوئی عزت اور سیاست اپنا کھویا ہوا اقتدار بچانے کے لیے نکلتی رہی وہی پی ٹی آئی جو احتجاج کو اپنے اقتدار میں درست نہیں سمجھتے تھے اب اپنا حق سمجھتے ہوئے نکلے اور معمولی سی شلیلنگ اور فائرنگ سے بھاگ جانا اور انکا رونا دیکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا کہ آخر کیا وجہ ہے ہم ۲۰۱۷ء سے ناموس رسالت دھرنا دیتے آرہے ہیں اور ہر طرح کا ظلم و جبر برداشت کیا اب تک سینکڑوں زخمی شہید ہوچکے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے جو میدان سے بھاگنے نہیں دیتی آخر وہ کونسی چیز کی تکلیف تھی جو شیخ الحدیث والتفسیر قبلہ امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ کو تڑپا دیتی تھی؟
آخر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو کس نے مجبور کیا؟
بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو کس چیز نے مجبور کیا؟
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو کس چیز نے مجبور کیا؟
غزوہ احد میں جب آپ صلی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلّم کے بارے میں شہید ہونے کی افواہ اڑی تو صحابہ کا ردعمل جو رہا کمال کا عشق تھا، جب آپ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم کے حیات ہونے کی بشارت دی جاتی ہے پھر صحابہ کا آپ کے لیے ڈھال بننا ایک بے مثالی تھا، آخر وہ کونسی چیز تھی جس نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے وہ کثرت سے تیر کو روکتے روکتے ہاتھ شل ہوگیا۔
جو ابو دجانہ رضی اللہ تعالی عنہ مشہور پہلوان تھے جنکی چال سے کفار خوف کھاتے تھے انکی پشت پر کئی تیر لگے،
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ جو تیربھی چلاتے اور آپﷺ کے چہرہ انور کو دیکھ کر کہتے میرے ماں باپ آپ پر فدا یارسول ﷲﷺ آپ کبھی سر اٹھاتے تو ابو طلحہٰ رضی اللہ تعالی عنہ تڑپ کر کہتے یارسول ﷲﷺ سر نا اٹھائیے ایسا نا ہو کوئی تیر لگ جائے میرا سینہ آپکے لیے ڈھال ہے۔
حضرت شماس قرشی مخزومی رضی اللہ تعالی عنہ دائیں بائیں آپکی حفاظت کرتے کرتے آپ پر فدا ہوگئے۔
حضرت قتادہ بن نعمان انصاری رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کے چہرہ انور کی طرف تھے حفاظت کرتے کرتے آپکی آنکھ میں ایسا تیر لگا کہ آنکھ کا ڈیلا رخسار پر آگر، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بازؤں کے ساتھ اپنی جان بھی آپ پر فدا کرگئے، عمر بن جموح رضی اللہ تعالی عنہ جو حالت معذوری میں تھے وہ بھی آپ پر فدا ہونے کے لیے میدان میں شامل ہوگئے۔
آخر کیا وجہ ہے یہ امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ سردیوں میں گرم بستر چھوڑ کر اپنا قافلہ لیکر نکل پڑتے ہیں اور جاکر ٹھنڈی ہوؤاں میں میدان لگاتے ہیں اتنا ظلم اتنا ستم ہونے کے باوجود بھی کہتے ہیں
ستمگر ادھر آ تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
وہ کون سا جذبہ اور ولولہ تھا ایک ستائیس سالہ نوجوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے آٹھ ماہ رہے کر بھی انکو مشکالات اور صعوبتیں نا ہرا سکی۔
امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللّہ علیہ اور امیر محترم سعد رضوی صاحب اور فیض آباد کے یتیم خانہ چوک وزیر آباد کے شہدا اس لیے شہید ہوئے کہ انکا دل مدینے والے پر فدا ہے یہ دل نواز، عمران، زرداری، بلاول پر نہیں مدینےﷺ والے پر فدا ہے اور جب دل مدینےﷺ والے پر فدا ہوجاتا ہے تو وہ صحابہ کی سنت ادا کرنے کے لیے ایک مرد قلندر کو گرم بستر سے اٹھا کر فیض آباد لے جاتا ہے جب عشق مصطفیﷺ آواز دیتا ہے تو ایک دولھے کو گھر سے اٹھا کر جیل میں بٹھا دیا جاتاہے اور آج اگر کوئی اٹھ کر تحریک لبیک پر فتویٰ دیتا ہے تو شاید وہ عشق کی منزلوں سے واقف ہی نہیں
اور آج دشمنوں نے مانا کہ یہ صرف تحریک لبیک کا لیڈر اور اسکے کارکنوں کا جو جذبہ ہے وہ کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔
سیاسی لیڈر سے محبت کرنےوالوں کا یہ حال ہے ایک ڈنڈا تک برداشت نا ہوا ایک دن کی جیل برداشت تک نا کرسکے کیوں کہ دنیا کی محبت آپکو بزدل بنا دیتی ہے اور دین سے محبت آپکو دلیر بناتی ہے۔
ہر دور میں غزوہ احد کے صحابہ کی سنت ادا کرنے والے آتے رہیں گے ہر دور میں خادم حسین رضوی رحمتہ اللّہ علیہ اور سعد رضوی جیسے عاشق رسولﷺْ آتے رہیں گے انکے نام رہتی دنیا تک لیے جاتے رہیں گے۔
تیرے نام پر جو فدا ہوں
انہی کیا غرض نشان سے
یہ تمام سیاستدان بلاول، زرداری، نواز، شہباز، عمران مٹ جائیں گے لیکن فیض آباد کا ہر شہید ہمیشہ یاد رہے گا ان شہدا کا ذکر ہوتا رہے گا۔
کیوں کہ انکی بولی بازار مصطفی صلی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلّم میں لگ چکی ہے اور جنکی بولی بازار مصطفی صلی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلّم میں لگ جائے انہیں پھر اسلامی ٹچ کی ضرورت نہیں پڑتی انہیں شخصیت میں اسلام نظر آتا ہے انکے اخلاق اور کردار میں اسلام جھلکتا ہے۔
ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب میرے کانوں میں آوازیں گونجیں گی ہمارے پیارے پاکستان میں نظام مصطفی قائم ہوگیا ہے
تحریر: ابرش نور