مناقب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین

Article by Shehla Noor
صحابہ کرام یعنی وہ ہستیاں جو آپﷺ کی بابرکت صحبت سے فیض یاب ہوئیں اور اس عظیم مرتبہ پر پہنچیں کہ ان کے بعد کوئی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ آپﷺ خاتم الانبیاء ہیں، نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور نبی سے ملے بغیر کوئی صحابی نہیں ہوسکتا۔ یہ شخصیات عالی مرتبت اس دور میں گزری ہیں جنھیں آپﷺ نے “خیر القرون” فرمایا
جیساکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے
خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ
ترجمہ:میرے زمانے کے لوگ بہترین ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں گے۔
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب فَضْلِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ،ر: 4599
یہ وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے اپنے جان و مال، اپنی آل اولاد اسلام کی راہ میں وقف کردی اور ہر طرح مصائب کو برداشت کیا، حرف شکایت زباں پر لائے بغیر، اور جب میدان جنگ میں آئے تو ایسے دیوانہ وار لڑے کہ اپنی جان اور دشمنان دین چاہے وہ رشتہ دار کیوں نا ہوں پرواہ نا کی۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے سورہ التوبہ آیت نمبر۱۰۰ میں ان کے لیے اپنی رضا کا پروانہ جاری کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ترجمہ:وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اور ان کے لیے تیار کررکھے ہیں باغات جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔
آپﷺ کے ان صحابہ کرام کی بدولت ہی قرآن مجید اور اس کی عملی تفسیر یعنی آپﷺ کی سیرت و سنت ہم تک پہنچی اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا، اس لیے ان سے محبت رکھنا اور ادب و احترام کرنا ہم پر لازم ہے، اور کسی بھی صحابی کی شان گھٹانے سے باز رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جن سے اللہ پاک خوش ہے۔ تو ان کی بے ادبی کرنا گویا کہ اللہ پاک کو نا خوش کرنا ہے۔ صحابہ کرام کی اتباع کرنا ہمیں دنیا و آخرت میں فلاح سے ہم کنارکرسکتا ہے
آپﷺ نے فرمایا
النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتْ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ
تارے بچاؤ ہیں آسمان کے لیے۔ جب تارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر آجائے گی جس بات کا وعدہ ہے اور میں بچاؤ ہوں اپنے اصحاب کے لیے جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے اور میرے اصحاب بچاؤ ہیں میری امت کے لیے جب اصحاب چلے جائیں گے تو امت پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے
(مسلم شریف: ۴۵۹۶)
چنانچہ صحابہ کرام کی پاک جماعت سے محبت کرنا لازمی اور ان سے عداوت و دشمنی یا بے ادبی و گستاخی بہت بڑا گناہ ہے۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا
میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو! انھیں (اپنے اعتراضات) کا نشانہ نا بنانا، جو ان سےمحبت رکھے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ہی ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض کرے گا، جس نے انھیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور مجھے ایذاء رسانی گویا کہ اللہ کو ایذاء رسانی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائے گا عن قریب اللہ اس کی پکڑ فرمائے گا۔
(ترمذی ، کتاب المناقب، ر:۳۸۶۲)
امام بوصیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
ان قوما رضی اللہ عنھم
مالنا نلقی علیھم غضابا
یہ قوم وہ ہے کہ جس سے اللہ راضی ہوا ہمارلے لیے درست نہیں ، ہم ان کی مخالفت کریں
اننی فی حبھم لا احابی
احداً قط ومن ذا یحابی
میں تو صحابہ کی محبت سے سرشار ہوں نہ میں کسی ایک صحابی کی کبھی بھی توہین کروں گا ، نہ ہی ان سے محبت رکھنے والوں کی
(دیوان امام بوصیری ،ص: ۱۴۶، بک کارنر شو روم جہلم)
صحابہ کرام کی تعظیم کا رواج اگرچہ ان کی ملاقات آپﷺ سے مختصر ہی کیوں نا ہو خلفائے راشدین اور دیگر لوگوں میں رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دیہاتی لایا گیا اس نے انصار کی ہجو کی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا “اگر اس شخص کو نبیﷺ کی صحبت حاصل نا ہوتی تو نا معلوم میں اس کا وہ حال کرتا جو تم لوگوں کے لیے کافی ہوتا لیکن اسے رسول اللہﷺ کی صحبت حاصل ہے”
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ، حافظ ابن حجرعسقلانی، مقدمہ فصل ثالث)
تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اسے ڈانٹنے سے باز رہے چہ جائیکہ اسے سزا دیتے، اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگو ں کا اعتقاد تھا کہ صحابیت کے برابر کوئی چیز نہیں۔ جیساکہ صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
“اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے جتنا سونا بھی خرچ کرے تو بھی وہ ان کے ایک مُد یا نصف مُد تک نا پہنچے گا”(متفق علیہ)
اسی طرح وکیع بیان کرتے ہیں: میں سفیان کو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد
قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى
کے بارے میں فرماتے سنا: وہ اصحاب محمدﷺ ہیں
صحابہ کرام علیھم الرضوان کے مناقب و فضائل بے شمار ہیں اللہ کریم ان کی محبت سے ہمارے دلوں کو آباد رکھے۔
عترت ہے باصفا تو ہیں اصحاب باوفا
نسبت نبی سے جس کی ہوئی پاک باز ہے
تحریر: شہلہ نور



