لبیک کے کارکنان کو کیسا ہونا چاہئیے؟

Article by Abroo Rajpoot
سیاسی جماعتیں ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یہ سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو عوام میں سیاسی شعور بیدار بھی کر سکتی ہیں اور سیاسی شعور سلا بھی سکتی ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں سیاست کی تو سیاسی جماعتوں کا ایک خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے، ہر سیاسی جماعت مختلف منشور لے کر عوام کی بھلائی کا نعرہ بلند کرتی ہے،
سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان سے چلتی ہیں، ایک سیاسی جماعت کا کارکن اپنے عمل و کردار سے اس جماعت کا انفرادی سطح پر نمائندہ و عکس ہوتا ہے، اپنی سیاسی جماعت کا تعارف ہوتا ہے، جمہور کارکنان کے گفتار و کردار کو دیکھ کر کسی سیاسی جماعت کے بارے میں کسی نہ کسی حد تک ایک اچھی یا بری رائے قائم کی جاتی ہے، یعنی کارکنان کسی بھی جماعت کا PR پیکج ہوتے ہیں،
سیاسی جماعت کا مخلص کارکن وہی ہوتا ہے جو اس جماعت کی بنیادیات سے وفادار ہو، اگر ہم بات کریں تحریک لبیک پاکستان کی جو کہ بہت تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی و مذہبی جماعت ہے (بلاشبہ یہ آقا ﷺ کی نگاہ خاص کا فیضان ہے) تو سوال پیدا ہوتا کہ اس مذہبی اور سیاسی جماعت کے کارکنان کو کیسا ہونا چاہئیے؟ کیا کارکنان کو ایسا ہونا چاہئیے کہ جن کی زبان کے نشتر سے کوئی محفوظ نہ رہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کو سب سے پہلے اسلام سے وفادار ہونا چاہئیے اس کے بعد پاکستان سے وفاداری نبھانی ہو گی اور پھر ہمارے منشور کے مطابق عوام آتی ہے، جیسا کہ “اسلام، پاکستان اور عوام” یہ خوبصورت منشور ہمیں قبلہ بابا جان امیر المجاہدین علیہ الرحمہ دے کر گئے ہیں۔
تحریک لبیک کے کارکنان کو بابا جی کے بیانات اپنی مرضی کے مطابق توڑ موڑ کر اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرنا ہو گا، بابا جی کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا یہ تو ہمارے مخالفین کی ذمہ داری ہے آپ نے کب سے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی؟
تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کو چاہئیے کہ اپنا علم وسیع کرنے کی کوشش کریں، تحقیق کریں،اپنا علمی و عملی محاسبہ کریں ، امن و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو قریب کریں۔ کتنے دن کے بعد ہم قبلہ امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کا بیان سنتے ہیں، اپنے گفتار و کردار پر اس کا کتنا عملی نفاذ کرتے ہیں ۔ پہلے بھی کہا ہے کہ نظام مصطفیٰﷺ اور دین کو تخت پر لانے کی کلید بابا جان کی فلک شگاف تقریروں میں چھپی ہوئی ہے تو جب ہم اپنے قائد کو سننا، انکی باتوں پہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیں گے تو منشور خود بخود پس پشت چلا جائے گا۔
تحریکِ لبیک پاکستان کے تمام کارکنان کو اس بات پہ اپنی رائے نہیں دینی چاہئیے جس پہ مرکزی مؤقف نہ آئے، من مانی وہ کرے جس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو، اگر تو آپ مرکز کے تابع ہیں تو پھر مرکزی پالیسیوں اور احتیاط و حکمتِ عملی پہ عمل بھی کرنا ہو گا ورنہ زبانی کلامی دعوے تو ہر کوئی کر لیتا ہے، آپ بھی کریں اور اس بھیڑ چال کا حصہ بن جائیں مگر ہمیں اس بھیڑ چال کا حصہ نہیں بننا۔
تحریک لبیک کے کارکنان اگر فکر رضا سے واقف ہیں تو پھر یہ بات معلوم ہونی چاہئیے کہ علمائے اہلسنّت کے متعلق طعن و تشنیع سے پرہیز رکھنا کیوں ضروری ہے۔ مشاجراتِ علماء اہلسنت رحمت ہیں۔معتقدین کو انفرادی طور پر کردار کشی اور تضحیک سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور اسکی ترغیب بھی دینی چاہیے۔ ہم نے امیرالمجاہدین کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ ہر کوئی مفتی نا بنے اور پیر عنایت الحق شاہ صاحب نے بھی بہترین بات کرتے ہوئے ہماری تربیت فرمائی کہ ہم نے اپنے موبائلز کو مرکز کے تابع کردینا ہے اور انفرادی طور پر خود سے کوئی بھی بیان بازی نہیں کرنی تاکہ ہمارے مشن کو کوئی نقصان نا پہنچے ۔ مرکز کی اطاعت کرنی ہے اور تربیت حاصل کرنی ہے تاکہ ہمارے کارکنان پہلے سے زیادہ منظم اور خلوص سے مالا مال شخصیت کے مالک بنیں۔
جو جماعت و تنظیم اپنے انداز میں دین کا کام کرنا چاہتی ہے اسے کرنے دیجیے اور جو ہمارے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے اسے خوش آمدید کہئیے۔ ہمیں آپس میں شفیق و داعی محبت ہونا ہے اسکے ساتھ مخالفین کا انکاؤنٹر بھی کرنا ہے، انکی نیندیں بھی اڑانی ہیں ان کے لیے فولاد بھی بننا ہے، لیکن ہمیں مرکز کے تابع رہتے ہوئے اپنی تنظیمات اہلسنّت کے لیے ریشم بننا ہو گا۔
(اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات)
تحریک لبیک پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہیں، اسکا مقصد عظیم ہے، اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ نظام مصطفیٰﷺ جیسا عظیم مقصد ہمیں مقدم ہونا چاہئیے یا پھر اپنی ذاتی انا؟ کسی نے ہمیں کچھ کہہ دیا، ہماری جماعت کو کچھ کہہ دیا تو کیا جواباً برا بھلا کہنا ہم پہ فرض ہے؟ درگزر کرنا بھی کوئی چیز ہوتی ہے، درگزر سے کام لیجیے۔
فیک نیوز ہمارے کارکنان کے لیے درد سر بنا رہا ہے خاص طور پہ ریلیوں اور دھرنے کے دنوں میں، جب حالات معمول پہ نہ ہوں۔ اپنی واہ واہ اور لائکس کی تعداد بڑھانے کے چکر میں ایسی ایسی باتیں پھیلا دی جاتی ہیں جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر، ابھی پچھلے دنوں ایک خبر چلتی رہی جنرل فیض حمید اور امیر محترم کے حوالے سے جو کہ سراسر جھوٹ کا پلندہ تھی، اپنی ذات سے باہر نکل کر تحریک کے مشن کو مقدم رکھنا ہو گا۔ ہماری جماعت سب سے زیادہ فیک نیوز کا شکار رہی ہے، وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کو تیار نہیں مگر جب ہم اپنی ذمہ داری سمجھ لیں گے اور بخوبی نبھانا شروع کر دیں گے تو فیک نیوز کا شکار کم ہوں گے بلکہ شاید یہ ناممکن ہو جائے تو کارکنان میں ہیجان کم پھیلے گا اور ایک مخصوص اتفاق کی فضا قائم رہے گی۔
ایک مذہبی اور سیاسی جماعت کے کارکن کی ڈکشنری میں گالم گلوچ کا لفظ ہونا ہی نہیں چاہئیے، بات دلیل سے ہو سکتی ہے، دلائل کا انبار لگائیے، سامنے والے کو اپنے دلائل سے عاجز کر دیجیے لیکن گالم گلوچ سے سو فیصد بچیں کیونکہ پھر آپ پہ نہیں آپ کی پوری تحریک پہ انگلی اٹھائی جاتی ہے۔
آخر میں عرض اتنی ہے کہ
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
تحریر: آبرو راجپوت
بہت خوب بہنا
یہ تحریر ایک کھلا سبق ہے اور اس سے ہر تحریک لبیک کے کارکن کو استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور جن بہن نے یہ لکھا اللہ پاک ان کے علم عمل میں مزید اضافہ فرمایے امین
ماشاءاللہ بہت اعلی بہت زبردست پیاری بہن
بھت اعلیٰ
بہت خوبصورت کالم ہے ہر کارکن کو اس کالم کو پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے تبھی ہم اچھے کارکن بن سکے گے
بہت اعلیٰ بہن اس پوسٹ کے بعد اب لوگوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم نے مرکز کے تابع رہنا ہے