اُمت مسلمہ کا حقیقی لیڈر کون؟
Article by Umm-e-Abeer
الحمد للہ کل ایک بار پھر حافظ سعد حسین رضوی صاحب نے امت مسلمہ کے حقیقی قائد ہونے کا ثبوت دیا ۔ امت مسلمہ کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرکے انہوں نے اس بات پر مہر ثبت کردی کہ وہی ہیں جو مسلمانان پاکستان کی بالخصوص اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کی بالعموم قیادت کرنے کے اہل ہیں۔
سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی پر جس طرح امت کے دل چھلنی ہوئے اس تکلیف کا اظہار اور پھر اسکے سدباب کا جو طریقہ امیر محترم نے بتایا اسکی امید تو دنیائے اسلام کے حکمرانوں سے تھی مگر ان میں سے کوئی شاید امت کا ترجمان بننے کا اہل ہی نہ تھا اور نہ اتنا غیرتمند کہ اعلان جہاد کرتا ۔
ایسے میں ایک ایسی تحریک کے امیر جسے بناء سے اب تک کئی طرح کی مشکلات درپیش رہیں، مین اسٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا پر پابندیاں، بائیں بازو کی جماعتوں اور دیگر مسالک کی تنظیمات کی مخالفت سے لے قومی اور بین الاقوامی حکومتوں کی ناراضگی تک سبھی کچھ شامل ہیں کا اتنا جراتمندانہ موقف پیش کرنا یقینا کوئی عام بات نہیں ۔ پھر ہر موقع پر اس شیر دلیر جوان کی آواز پر جسطرح عوام جوق در جوق لبیک کہتی ہوئی نکل کھڑی ہوتی ہے یہ تائید خداوندی کے سوا کچھ نہیں۔
اگر بحیثیت قوم عوام پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو پچھلی کچھ دہائیوں سے ہجوم کے سوا کچھ نہیں شاید اسکی بڑی وجہ غیرت ایمانی کا ناپید ہونا ہے اور اسکا سبب یقینا حکمران اور دین فروش مُلا ہیں جنہوں نے پورے اسلام سے صرف انہیں امن کا درس ہی سکھایا مگر قربان جائیے حضور امیر المجاہدین علیہ الرحمہ پر کہ آن کی آن میں اغیار کی سالوں کی محنت یہ کہتے ہوئے برباد کردی کہ
“اسلام امن کے ساتھ غیرت کا درس بھی دیتا ہے”
اور پھر واضح بھی کردیا کہ جب مقدسات اسلام کی بات آئے تو وہاں غیرت ایمانی کا تقاضہ جہاد کا اعلان ہے ناکہ زبانی مذمت۔
یہ بابا جی علیہ الرحمہ کی تربیت ہی ہے کہ تحفظ قرآن ریلی کے موقع پر انکے صاحبزادے نے بھی حکومت وقت سے غیرتمندانہ اقدام اٹھاتے ہوئے مذمت کے بجائے مرمت کرنے کا مطالبہ کردیا۔
حافظ سعد حسین رضوی کے مطابق اگر ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان قرآن کے محافظ بننے سے قاصر ہیں تو ساری امت کو مرجانا چاہئے کیونکہ جس قرآن کی نسبت سے ساری عزتیں ملیں اسی کی ناموس کے مسئلہ کے بارے میں امت کی خاموشی جرم ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کردیا کہ اللہ عنقریب اپنی قدرت سے اسلام کے محافظوں کو غالب کرے گا ۔ ان شاء اللہ
تحریر: اُم عَبیر