“اُمیدِ سحر”

Article by Bint e Hassan
اے دلِ بیتاب! ٹھہر ذرا کچھ لمحے
ابھی اُمید کی سحر ہونے کو ہے
پاکستان دنیا کی واحد ایسی ریاست ہے جس کے باشندے ہر ماحول میں خوش رہتے ہیں۔ بات بات پر حوصلہ نہیں ہارتے، ہمت نہیں چھوڑتے، دل چھوٹا نہیں کرتے۔ جیسا بھی ماحول ہو، اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ اچھائی کی امید کا دامن پکڑے چلتے رہتے ہیں۔ اپنا جوش و جذبہ نہیں کھوتے، اپنا وقار بلند رکھتے ہیں۔ بیشک ہمیں سانحات ایک قوم بنا دیتے ہیں لیکن ایسا دوسری قوموں میں بہت کم دیکھا جاتا ہے۔
مجھے ہمیشہ اپنے لوگوں کے حوصلے اور ہمت سے محبت رہی ہے اور یہ اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے یہ قوم کبھی مشکلات سے گھبرانے والی نہیں اور نہ ہی اپنی امید ہارے گی، بلکہ آپ ان کو جتنا دبائیں گے یہ اتنے ہی اُبھر کر اور زیادہ نکھر جائیں گے۔
ان کے حوصلے توڑنے کی جس جس نے کوشش کی وہ ناکام و نامراد ہوا ہے۔ وقت کی کایا اس پر پلٹ دی گئی۔
مگر گزشتہ چند سالوں میں پہلے ہمارے مین اسٹریم میڈیا میں کچھ ایسے لوگ آئے جنہوں نے ہر وقت لوگوں کو مایوسی اور اندھیروں کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی اور بعد ازاں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی صرف کرسی اور اقتدار کے حصول کیلئے ملک کی عزت، حرمت نیز جو بن پڑا سب کچھ داؤ پر لگانا شروع کر دیا۔ ان جماعتوں نے اپنے سارا وقت میڈیا سیل تشکیل دیئے جو کہ ہر وقت ملک اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ خصوصاً پاکستان کے دو بڑے سیاسی خاندان اپنی دولت بچانے اور اقتدار کے حصول کیلئے جس حد تک گِر سکتے تھے گِر گئے۔ انہیں عوام کے جذبات اور خیالات کے مجروح ہونے سے کچھ نہیں، ان کا مقصد صرف اپنے عزائم کی تشکیل ہے مگر اس سب کے بعد ملک میں ان لوگوں نے ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے اور کچھ ایسے لوگ جو ان کی اندھا دھند تقلید کرتے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو کر سوشل میڈیا پر وہ ’’گُل کھلا’‘ رہے ہیں کہ کچھ نہ پوچھیں۔ یعنی ملک و ملت کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے، ملک کی بقا کو روند کر رکھ دیا گیا ہے۔
ملک ایک سیاہ دھند میں لپٹ چکا ہے، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے کونے کونے میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے، ملک کی اساس کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے چاروں صوبوں کو ہر طرح کے داخلی و خارجی راستوں سے گھیرا جا رہا ہے، عوام میں مایوسی اور بدامنی کی ہوا چلا دی گئی ہے۔ اسلامی ملک میں اسلام کا نام لینا جرم بنا دیا گیا ہے۔ ملک میں جوان طبقہ مایوسی کا شکار ہو چکا ہے ۔
ارضِ پاکستان جس کا مطلب ہی یہ ہے “پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ۔” اسے غلیظ اور ناپاک لوگوں کے رہنے کے لیے ہموار کیا جا رہا ہے۔ ملک و ملت کا مطلب بدلا جا رہا ہے۔ جو کہ ایک ناکام کوشش ہے، وقتی مصیبت یا آزمائش ہے، جہاں بے شمار ایسی کالی بھیڑیں اپنے کالے دھندے میں مصروف عمل تھیں۔ وہیں میرے اللّٰہ کی خفیہ تدبیر رنگ لا رہی تھی۔
پاکستان کے “زندہ دل شہر” داتا کی نگری میں ایک انسان حق و سچ کا عٙلم لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ دنیا کی نظر میں ایک عام انسان تھا، لیکن “وہ اپنے اللّٰہ کا خاص بندہ تھا وہ اللّٰہ کے حبیب مصطفیﷺ کا منظورِ نظر تھا”.
چشمِ فلک نے دیکھا ہر وہ منظر، جہاں لوگ ڈر کر بیٹھ گئے وہ وہیں خوف ناک حربوں کو آزمانے نکل پڑا، وہ بینائی والے اندھوں کے لیے چشمِ داشت بن کر میدان میں اترا۔”
چند سالوں میں یورپ کے اندھیروں میں بہکتے ہوئے جوانوں کو نکال کر انکی اصل بنیاد کی طرف لا کھڑا کیا۔ چشمِ دل و چشمِ بینا رکھنے والا وہ عظیم انسان ایک دن امید قطع کرتا ہوا ہم سے بچھڑ گیا۔ چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا وہ جب میدان میں ہوتا تو کفر کی صفوں میں تھرتھری مچا دیتا ؛ جب اس کا جنازہ اٹھا تو صفوں میں منتشر قوم کو پھر ایک کر گیا۔
اُن کے جانے کے بعد ملکی لٹیروں کو لگا اب راستہ صاف ہو چکا ہے لیکن وہیں سیاہ رات میں ایک روشن چمکتا ستارہ ابھرا جس نے ملکی چوروں کی امید پر پانی پھیر دیا۔ شاہین ابن شاہین نے دکھ میں سسکتی جماعت کا حلف اٹھا کر لاکھوں کروڑوں افسردہ دِلوں کو نئی امید کا دامن تھما دیا، جنہیں لگا کشتی ڈانواڈول ہونے لگی ہے وہیں صفِ اول کے مرد مجاہد کے لختِ جگر نے کشتی کو کنارے لگانے کا بیڑا اٹھا لیا۔
“نہیں ہے اقبال ناامید اپنی کشتِ ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی”
٢٠ نومبر ٢٠٢٠ تک میرے سمیت اور بہت سے لوگ اس شاہین کو جانتے بھی نہیں تھے۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں اگلے امیر کو لے کر شکوک و شبہات جنم لے رہے تھے کہ نجانے اب کیا ہو گا؟ کئی لوگوں کو تو لگا جماعت ختم ہو جائے گی، کچھ لمحوں کے لیے مجھے بھی لگا، بعد میں بھی یہی لگتا رہا، لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا اور سنتے کانوں نے سنا، بولتی زبانوں نے اقرار کیا شیر کا بیٹا شیر ہی ہوتا ہے۔ شیر نے اپنی کچھار میں شیر پال رکھا تھا۔ جس کی اُڑان شاہین جیسی، جس کی منزل چٹانوں سے ٹکرا کر اسلام کا جھنڈا، امن کا جھنڈا گھر گھر لہرانا ہے۔
پاکستان کی اُمید پاکستان کا حقیقی وارث، اسلاف کی یادیں تازہ کرنے والا، جو اک نئی سحر بن کر طلوع ہوا وہ صرف اور صرف “صاحبزادہ والا مرتبت علامہ حافظ محمد سعد حیسن رضوی دامت برکاتہم العالیہ” ہیں ۔
ایک باوقار لیڈر عظیم کردار کا مالک، بلند مرتبہ حوصلگی اور غضب کی گٙوہٙر فِشانی کرنے والا عظیم ہیرا، ملتِ اسلامیہ کا صاف و شفاف چمکتا نگینہ، جوان جوش و جذبہ اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اسلامی احساسات و جذبات، خونِ حیدرِکرار ، پہرے دار رسالتِ مآبﷺ ،عفتِ مآب ماں کا شیر، غیرت و جرأت و دلیری کا مالک، خونِ حق جیسے حسِین امتزاج نے آپ کے مزاج پر چار چاند لگا رکھے ہیں۔ وہ جس کا لہجہ شیر کی دھاڑ جیسا صاف و شفاف، نگاہوں میں والد سے چرایا ہوا جلال، لفظوں کا تسلسل، کلام کی سلاست، موقعہ محل کی مناسبت سے اقبال کے اشعار، اسے دیکھ کر یوں گمان گزرتا ہے کہ گویا الفاظ الہام ہو رہے ہوں۔ وہ خطاب کرے تو کفر و غدار کے دلوں پر ہیبت بٹھائے، یہ وہ ہے کہ!
زنداں میں بھی نہ گئی شورش اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
رضوی غیرت کا نشان، کفار اور گستاخ کے لیے شمشیرِ برہنہ، غیرت و حمیّت کا پیکر رضوی شیر اُمیدِ سحر بن کر ابھرے گا۔
یوں تو نام لیوا عاشق ہیں زمانے میں بہت
لیکن راہِ عشق میں گھر بار لُٹایا رضوی نے
ان شاءاللّٰہ “وہ سحر اب دور نہیں، جس سحر کا سورج اسلام کے پرچم کو نئی روشنی سے منور کرے گا، عنقریب ظلم و سفاک کی سیاہ راتیں تمام ہو جائیں گی اور اک حسین صبح کا سورج بامِ فلک پر جگمگا اٹھے گا، وہ نیا زمانہ نئی صبح ہو گی اور وہ نیا پاکستان ہو گا، جہاں ظلمت کے اندھیروں سے نکل کر حق کا عٙلم بلند ہو گا، جہاں عزتیں محفوظ ہوں گی، سود نہیں ہو گا ،جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ہم نہ دیکھ سکے وہ صبح ہم نہیں تو ہماری نسلیں ضرور دیکھیں گی”
“ان شاءاللّٰہ تعالی عزوجل”
جبر کے اندھیروں میں زندگی گزاری ہے
اب جو سحر آئے گی وہ سحر ہماری ہے
تحریر: بنتِ حسن رضویہ