واقعہ معراج کی سائنسی تحقیق
Article by Eng. Zeeshan Jutt
ایمان تو یہ ہے کہ کوئی چیز کہہ دی جائے تو کوئی سوال کئے بغیر یقین کیا جائے۔ ہم واقعہ معراج پہ بغیر کسی ثبوت کے یقین رکھتے ہیں لیکن اللہ فرماتا ہے غور فکر کرو کیوں کہ اس نے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں۔۔
واقعہ معراج آج کی تحقیق کے مطابق سو فیصد ثابت ہوتا ہے علم کے لیے میں آپکے سامنے کچھ تحقیق رکھنے کی کوشش کرتا ہوں
واقعہ تو سب کو معلوم ہوگا کہ مسجد حرام(مکہ) سے
مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کی طرف سفر فرمایا، وہاں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انبیاء اکرام کی امامت فرمائی پھر آسمانوں کا سفر فرمایا راستے میں جنت اور دوزخ بھی دیکھی، اللہ پاک سے ملاقات فرمائی اور واپس تشریف فرما ہوئے تو سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا بستر گرم تھا اور پانی چل رہا تھا، جب کہ کچھ کے مطابق یہ سفر 27 سال کا تھا یعنی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ سفر 27 سال میں فرمایا تو ایک بار عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، تو آئیے سائنس کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کیسے ممکن ہے یہ سب۔۔!!
آئین سٹائین نے کہا تھا کہ دنیا میں کوئی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی اور کچھ پارٹیکلز کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز دریافت کی گئی جیسے کے ٹیکیون (Tachyon) ایک پارٹیکل ہے ۔
تھیوری آف ریلیٹیویٹی (Theory of Relativity) کے مطابق اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس چیز کا وقت آہستہ اور اس چیز کے گردونواح کا وقت تیز ہو جاتا ہے مثلاً اگر کوئی روشنی کی رفتار سے آسمان یا خلاء میں چلا جائے تو 50 سال بعد زمین پر واپس آئے گا تو زمین پہ رہنے والے بوڑھے ہو چکے ہوں گے لیکن سفر کرنے والا تقریباً ویسے کا ویسا ہی ہوگا لیکن واقعہ معراج اس کے برعکس ہے کیونکہ حضور صلوٰۃ و سلام سفر معراج پہ گئے تو زمین کا وقت رک چکا تھا، اس طرح یہ تھیوری بھی فیل ہو جاتی ہے۔
روایات کے مطابق جس براق پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر فرمایا اس کی رفتار روشنی سے دو گنا زیادہ تھی۔
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا فاصلہ تقریباً 1400 سے 2000 کلو میٹر ہے اگر براق روشنی کی رفتار(جو کہ 30 لاکھ کلو میٹر پر سیکنڈ 3×10^8 ہے) سے جائے تو 0.00004 سیکنڈ لگتے ہیں اگر براق کی رفتار روشنی کی رفتار سے دوگنا ہو تو 0.00002 سیکنڈ وقت لگتا ہے، اور پھر امامت فرمائی تو چلیں اسکے بھی 10 منٹ لگا لیں۔ اب آسمانوں کے سفر میں کتنا وقت لگ سکتا ہے اسکا اندازہ اس طرح لگاتے ہیں کہ سورج سے روشنی زمین پر آنے میں 8 منٹ لگتے ہیں(سائنس کے مطابق) اور اگر روشنی کی رفتار دو گنا کرلیں تو 4 منٹ لگیں گے تو پھر سوچیں سورج تو زمین کے قریب ہے سدرۃ المنتہیٰ کے مقابلے میں لیکن یہ سفر تو کھربوں میلوں دور کا ہے، زمین سے اور پھر سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے کا سفر ہے۔
قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے کہ قرآن ماضی حال اور مستقبل کا ذکر کرتا ہے۔
آج سائنس کہتی ہے کہ ماضی حال اور مستقبل ایک ہی وقت میں موجود ہے یعنی اس وقت آپ کا ماضی بھی یہی ہے حال بھی اور آپ کا مستقبل بھی، اس نظریہ پہ ٹائم ٹریول کی سوچ بھی رکھی گئی اور اس پر مزید کام کیا جا رہا ہے۔
سائنس دانوں نے دیافت کیا ہے کہ یہاں اور آسمانوں میں ایسے راستے ہیں جن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا جا سکتا ہے (یوں کہہ لیں ایک آسمان سے کسی دوسرے آسمان پر) یا حال سے ماضی یا مستقبل میں جایا جا سکتا ہے ان راستوں کو سائنس وارم ہول (wormwholes) کہتی ہے، اسکی مثال آسان کر دیتا ہوں جیسے کہ آپ نے ڈورے مون (Doraemon ) کارٹون دیکھے ہوں گے اس میں ایک بچہ ایک دروازہ کھولتا ہے تو کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے، ایک اور مثال کہ انگلش فلم (Captain America) میں ایک شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو آسمان کی طرف ایک دائرہ بنا دیتا ہے اس میں داخل ہو کہ وہ کسی اور ملک یا جگہ پہنچ جاتا ہے، امید ہے وارم ہولز (wormwhole) کی سمجھ آ گئی ہوگی۔
چلیں اب قرآن میں دیکھتے ہیں اس بارے میں کیا ذکر ہوا ہے
سورۃ ذاریات آیت نمبر 7 : آسمان کی قسم جس میں کئی راستے ہیں
سورۃ حجر آیت نمبر 14-16 : اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پہ کھول دیں اور وہ اس میں سے چڑھنے بھی لگیں تو وہ یہی کہیں ہماری آنکھیں باندھ دی گئی ہیں بلکہ ہم پہ جادو کر دیا گیا ہے اور ہم نے آسمان پہ برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا ہے.
قرآن میں آسمان میں راستوں اور دروازوں کا ذکر ہوا ہے اور آج سائنس نے بھی یہی خیال پیش کیا ہے کہ آسمان میں راستے یا دروازے ہے جس کا نام وارم ہول(wormwhole) رکھا ہے۔
اگر حضور صلوٰۃ و سلام نے ان ہی راستوں اور دروازوں سے آسمانوں کی سیر فرمائی ہے تو جیسا کہ پہلے بتایا کہ ان آسمانی دروازوں سے ماضی مستقبل یا حال کسی بھی وقت میں جایا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں حضور صلوٰۃ و سلام نے وہاں جنت بھی دیکھی اور دوزخ بھی دیکھی، ابھی تو قیامت نہیں آئی ابھی تو حساب کا دن آئے گا اس کے بعد لوگوں کو جنت یا دوزخ میں بھیجا جائے گا، اس کا مطلب ہوا کہ پیارے آقا صلوٰۃ و سلام نے مستقبل بھی دیکھ لیا، اسی لیے تو کہتے ہیں کہ “ہر اک غلام کا چہرہ حضور صلوٰۃ و سلام جانتے ہیں” ۔
آقا صلوٰۃ و سلام نے انبیاء اکرام سے ملاقات، پھر اللّٰہ پاک سے ملاقات فرمائی اور پھر واپس کسی آسمانی راستے سے وہاں پر تشریف فرما ہوئے جہاں سے سفر مبارک شروع فرمایا تھا یعنی مسجد اقصیٰ میں، یعنی آسمانوں کے حساب سے آپ ماضی میں آ گئے جو کہ زمین کا حال(موجودہ وقت) تھا، آپ نے براق کو یہاں باندھ دیا تھا تو واپس مسجد حرام تک پھر سے 0.00002 سیکنڈ لگے جو کہ جاتے ہوئے بھی لگے تھے اس طرح کل وقت لگا بھی ہوا تو زیادہ سے زیادہ 0.00004 سیکنڈ لگا ہوگا جو کہ آنکھ جھپکنے سے بھی بہت بہت کم ہے اور ایک بار آنکھ جھپکے میں 0.2 سیکنڈ لگتے ہیں. اس تحقیق کے مطابق یہ سفر ہر اعتبار سے اتنے کم وقت میں ممکن ہے.
بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدقے سے ہمیں علم و بصیرت عطاء فرمائے آمین
تحریر: انجنئیر ذیشان جٹ