آج اپنے پانی کی فکر کریں
Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر اللہ پاک نے ہر نعمت عطا فرمائی ہے جن میں پہاڑ، صحرا، گلیشیر، زرخیز زمین اور چراگاہوں کے ساتھ ہر قسم کے موسم بھی عطا کیے ہیں۔ ان سب میں سب سے بڑھ کر ایک نعمت پانی بھی ہے جو انسان کے پینے کے ساتھ ساتھ ہماری فصلوں کے لئے بھی اہم ہے کیونکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور ہماری زرعت کی بنیاد زمینی پانی یا پھر بارش پر منحصر ہوتا ہے۔ اپنے پانی کے حالات کی جانب ماضی کی طرف چلتے ہیں اور حقائق جانتے ہیں ہیں کہ ماضی اور مستقبل میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
واچ واش آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق جب پاکستان بنا تو اس وقت پانی فی صد مقدار 5 ہزار 600 کیوبک تھی لیکن اب اس وقت فی صد پانی 1 ہزار 17 کیوبک سے بھی کم ہے۔
اس رپورٹ سے واضح ظاہر ہورہا ہے کہ ہم اپنے پانی کے ذخائر ضائع کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ پانی کو گندہ بھی کر رہے ہیں۔ بی ایس آر ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد بیماریاں گندے پانی کے سبب ہیں جس کی بڑی وجہ فیکٹریوں کے کیمیکل اور فضلاء جات کو پانی کی تہہ میں منتقل کرنا اور آلودگی کا باعث بننا ہے۔
پاکستان کے 24 بڑے شہروں میں صاف پانی کی رسائی حاصل نہیں ہے اور تقریباً کراچی کی ایک کروڑ 60 لاکھ کچی آبادی میں پانی آتا ہی نہیں ہے اور پاکستان کے 3کروڑ لوگ صاف پانی پیتے ہی نہیں ہیں۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں پر پانی ذخیرہ بھی ہے لیکن وہ ضائع بھی کررہا اس طرح ہم سالانہ 21 ارب مالیت کا پانی بحیرہ ہند میں ڈال کر ضائع کر دیتے ہیں۔ اور یہ تقریباً 90 فیصد یا 92 فیصد پانی بغیر کسی استعمال آئے چلا جاتا ہے اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہم 2025 میں ہم ان 30 سنگین ممالک میں شامل ہو جائیں گے جو پانی کی صفائی اور اسے سٹور کرنے میں کم ترین سطح پر ہوں گے۔
یہ وہ وہ تمام حقائق ہیں جو ہماری آبی طور پر تنزلی کا شکار کر رہے ہیں اب ہم ان کے حل اور حفاظت کی طرف آتے ہیں ہمیں سب سے پہلے تربیلا اور منگلا ڈیم کی طرح فل فور ایسے تین بڑے ڈیم بنانے پڑیں گے جو ہمارے پانی کو ذخیرہ کر سکیں اور انہی ڈیم کی بدولت ہم بجلی کے بحران پر بھی قابو بھی پا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم پن بجلی کے ذریعے 1 لاکھ 20 ہزار میگا واٹ بجلی بنانے کے ذخائر رکھتے ہیں لیکن اگر اسکو کسی منظم اور ذمہ دار کے طور پر کام کیا جائے تو ہم حیران کن نتائج دے سکتے ہیں۔ اس کے علاؤہ ہم دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھتے ہیں۔ جو صرف انتظامیہ کی ناہلی کی وجہ سے کسی کام کا نہیں ہے۔ اس وقت پانی کی اس حالت پر کھڑے ہیں کہ نہ ہم اس کو محفوظ کر سکتے اور اگر مون سون بارشیں آجائیں یا پھر شمالی علاقہ جات کی طرف سے گلیشئر کا پانی آ جائے تو وہ بھی ہمارے لیے مصیبت بن جاتا ہے جن سے بستیوں کی بستیاں ، فصلیں اور انسانی زندگی بھی سیلابی ریلا بہا کر لے جاتا ہے جس کی تلافی کئی سالوں تک نہیں ہوتی لیکن چند سال گزرنے کے بعد پھر ہم وہی آکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ مسئلہ آج تک نہ کسی حکمران کی توجہ کا مرکز بنا ہے اور نہ ہی انتظامیہ نے توجہ دی ہے آج ہم حکمرانوں کی نا اہلیوں کی وجہ سے اس سطح پر آ چکے ہیں جو کہ بذات قوم زلیل و خوار ہو رہے ہیں اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی تو آنے والی نسلیں پانی کے قطرے قطرے کو ترسیں گی۔
تحریر:یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی