ظالم کی حمایت نہ کریں گے
Article by Bint e Sajjad
ظلم و زیادتی وہ تاریکی ہے کہ جس کے اندھیرے کسی بھی معاشرے کی اخلاقی ساکھ کو کھوکھلا کر دیتے ہیں اور بنا اخلاقی قدروں کے کوئی بھی معاشرہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ظلم کی ابتداء تو ظالم ہی سے ہوتی ہے لیکن اسکو تقویت دینے میں ہر وہ شخص ذمہ دار ہے جو ظالم کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور ہر وہ مظلوم ہے جو خاموشی کی غفلت بھری چادر اوڑھ کر ظالم کی حمایت کا باعث بنے کیوں کہ بقول ایک معروف شاعرہ کے،
“ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خاموشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح”
پروین شاکر )
خطہٕ پاک میں ظلم کی تاریخ بہت پرانی ہے کہ جب یہاں انگریز ہندو گٹھ جوڑ نے برصغیر کے مسلمانوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا، جب اس خطہ کے مسلمانوں پر ہر طرف سے مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اور انکے بنیادی سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ انکی شناخت تک ان سے چھین لی گئی، تب اس دھرتی میں ایک مردِ قلندر اٹھا جس نے اپنے کلام با کمال سے غفلت کی نیند سوۓ ہوئے مسلمانوں کو پھر سے جگایا اقبال کے فلسفہ خودی نے اس دور کے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو پھر سے بیدار کیا۔ یہ جذبہ خودی ہی تھا کہ برصغیر کے مسلمان ایک بار پھر سے ظلم کے خلاف اٹھے اور ایک عظیم قائد کی رہنمائی میں اپنی الگ آزاد ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ ایک ایسی ریاست جس کی بنیاد اسلام ہے اور جسے دنیا اسلام کا قلعہ کہتی ہے، اس پاک ریاست کے قیام کا مقصد ہی مسلمانوں کے اسلامی تشخص اور اسلامی روایات کی پاسبانی تھا،
لیکن قیام پاکستان کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے آزاد خطہ تو حاصل کر لیا لیکن ذہنی غلامی سے آزاد نہ ہو سکے اور نتیجتاً قائد کے جاتے ہی یہاں مغرب کے ذہنی غلام قابض ہو گئے جنہوں نے اپنی اندھی تقلید اور غلامی میں اسلامی نظریہ کو فراموش کر دیا، مغرب کے فرسودہ نظام کو ترویج دی اور اس پاک خطہ کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، جس قوم نے پورے عالم میں اسلام کا پرچم بلند کرنا تھا وہ مادّی سرو سامانی کی تگ و دو میں مصروف ہو گئی۔
قیام پاکستان کے بعد ہی ایک بعد پھر سے قادیانیت لابی سرگرم ہو گئی جس کا مقصد نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان سے دور کرنا تھا، تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد انجام دیں سکیں، لیکن وقت کے مجاہدین ختم نبوت نے نعرہ حق بلند کیا اور ظالموں کے خلاف کھڑے ہوئے۔ 1953 میں سید عطا ﷲ شاہ بخاری مولانا ابو الحسنات، عبدالستار خان نیازی نے دیگر تمام مجاہدین سمیت اپنی زندگیاں اس عظیم الشان تحریک کے نام کر دیں۔ 1953ء تحریک ختم نبوت کے نتیجے میں مغربی غلاموں نے دور برصغیر کے مجاہدین کی قائم کردہ عظیم جماعت احرار السلام پر پابندی لگا دی لیکن اسلام کے مرد مجاہد عطاﷲ شاہ بخاری نے 1954/میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت قائم کر کے تحریکی فرائض جاری رکھے اور دشمنوں کی نیند مسلسل حرام کے رکھیں، ان مجاہدین نے قید و بند کی صعوبتیں اور ہر طرح کے مظالم تو برداشت کے لیکن ظلم کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے ۔ عبدالستار خان نیازی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی مولانا ابوالحسنات کو قید کر دیا گیا۔ اس دوران ہزاروں مجاہدین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کے اور لاکھوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا گیا لیکن ظلم کی رات کتنی ہی تاریک کیوں نا ہو اسکا خاتمہ بالآخر روشن سویرا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔
اور پھر آتا ہے 7 ستمبر 1974 کا وہ روز روشن جب مجاہدین ختم نبوت کے وارثوں نے احمد شاہ نورانی کی قیادت میں تحفظ کاحتم نبوت بل قومی اسسمبلی سے منظور کروایا اور یوں ظلمت کے خلاف 90 سالہ طویل جدو جہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
آج بھی یہ ظالم لابی اس عرض پاک کی نظریاتی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی مکروہ سازشوں میں سر گرم ہے اور انہیں لبرلز کی پوری حمایت حاصل ہے۔ ان ظالموں نے جب یہ سمجھ لیا کہ وہ حق کے پیرو کاروں سے براہِ راست نہیں لڑ سکتے تو انہوں نے نہایت مکاری سے ایسا طرز ِ عمل اپنایا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اپنی جڑیں گاڑھنا شروع کر دیں اور ہماری نوجوان نسل کو فحاشی اور بے راہ روی جیسے مرض میں مبتلا کر کے گمراہ کرنے کوششیں شروع کر دیں۔ ہم نے مغرب کی غلامی میں فسلفہ اقبال کو پسِ پشت ڈال دیا ہم نے معشیت میں سود جیسی لعنت کو فروغ دیا اور نتیجتاً ہمارے قومی خزانے خالی ہونے لگے، برکت تو گویا پورے معاشرے سے ختم ہو گئی بے، بے حیائی اور فحاشی کے فروغ سے ہم نے بحثیت قوم اپنی اخلاقی قدریں کھو دیں ایک طرف لحاظِ آدم ختم ہوا تو دوسری طرف عدم برداشت نے معاشرتی و خاندانی نظام کمزور کیا اور یوں خود کو زوال پذیر کرنے کے لئے ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہ رہی ،ظلم کیا زیادتی کی ہم نے خود اپنے ساتھ اس قوم کے ساتھ اور اس عرضِ وطن کے ساتھ۔۔ ۔
لیکن جہاں ظلم کا اندھیر پھیلانے والے ہیں تو دوسری طرف عرض وطن میں حق کا پرچم بلند کرنے والوں کی کمی بھی نہیں رہی۔
نومبر 2017 میں حلف نامے میں تبدیلی کی کوششیں کی گئیں تو ایک مردِ مجاہد اٹھا اور ظالموں کو باور کروایا کہ محافظِ ختم نبوت آج بھی جاگ رہے ہیں۔ آپ نے سخت سردی میں فیض آباد کی سڑکوں پر دھرنا دیا جو تقریباً 23 دن جاری رہا اور اس دوران دھرنے کو شدید شیلنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا، 8 مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا اور درجنوں زخمی ہوئے لیکن بالآخر ذمہ دران کو انکے انجام تک پہنچا کر کامیاب لوٹے۔
ان مردِ مجاہد علامہ خادم حسین رضوی نے تحریک لبّیک پاکستان کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اس قوم کے نوجوانوں کے دلوں میں ایک بار پھر سے فلسفہ اقبال کو جگایا اور عرض پاک کو اسکی بنیاد نظریہ اسلامی کی طرف لوٹانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ امیرالمجاہدین کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا کہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک لبّیک 22 لاکھ ووٹ حاصل کر کے ملک کی 5ویں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ حق و باطل کی جنگ بہرحال جاری رہے گی۔
ہمیں امید ہے کہ یہ عرض پاک ایک دن ضرور اپنی نظریاتی بنیادی کی طرف مکمل لوٹ جائے گا اور یہاں بہت جلد دین حق کا نظام قائم ہوگا کہ جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور جسکی تلقین قائداعظم کر کے گئے تھے.
قائد اعظم نے فرمایا!
ہمیں ایک ایسی ریاست چاہیے جہاں ہم آزادی سے رہ سکیں، اور جہاں ہم اپنی مرضی سے اسلامی تہذیب اور اصولوں کے مطابق جی سکیں ۔۔
ظلم کی تاریکی پھیلانے والے لاکھ کوششیں کرتے رہیں لیکن کامیاب ہرگز نہ ہوں گے کیوں کہ اس عرضِ پاک کی بنیاد کلمہ توحید ہے اور یہاں کے باسی اس مٹی کا اناج کھا کے پلتے ہیں کہ جس میں شہیدوں کا لہو شامل ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب اور انکے غلام سالوں سے مکروہ چالوں سے یہاں کے لوگوں کو بھٹکانے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ہر دور میں انھیں شکست فاش کا سامنا رہا ہے، آج بھی اس دھرتی میں اقبال کے شاہین موجود ہیں جو ظلم کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ آج بھی ہمارے جوانوں میں فلسفہ اقبال اجاگر کرنے والے لوگ موجود ہیں دشمن ہمیں اپنی نظریاتی بنیاد سے دور کرنے کی لاکھ کوششیں کرتا رہے وہ ناکام تھا ناکام رہے گا کیوں کہ اسے شکست سے دو چار کرنے والے مردِ مجاہد ہر دور میں ابھر کے سامنے آئیں گے، کبھی عبدالستار خان نیازی کے روپ میں، تو کبھی احمد شاہ نورانی علیہ الرحمہ کے روپ میں، تو کبھی خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ جیسے مجاہدِ ملّت کے روپ میں کہ جن کی امامت میں کھڑے ہونے والے نوجوان ظالم کو للکار کر کہتے ہیں کہ:
“مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
احرار کبھی ترک روایت نہ کریں گے”
تحریر: بنت سجاد