“زندگی کا مقصد”

Article by Umm e Arbab
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“جو کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں ہے اور جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں وہ جیتے نہیں ہے
اگر آج کے لوگوں میں دیکھا جائے تو کثرتِ رائے سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ “انسان کا مقصد کیا ہے” جب انسان اس سوال کے بارے میں سوچتا ہے تو ایک اور سوال دماغ میں آتا ہے کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے کیا کام ہے جو اسے مکمل کرنا ہے جس کی وجہ سے رب العزت نے اس کی تخلیق فرمائی، جب بھی انسان سچے دل سے سوچتا ہے تو جواب ضرور ملتا ہے اور اب تک فہم و فراست والوں کو جو جواب ملا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے اپنی ذات کی بہتری کرنا پھر اپنی ذات کے ذریعے دوسروں کے کام آنا انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔
اپنی زندگی کے مقصد کو پہچاننے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال کرے کیا ہم خود کو جانتے ہیں یا نہیں؟کیونکہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی دریافت خود کی دریافت کرنا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کون ہیں ہم کیوں آئے ہیں ہمارا کام کیا ہے؟
کیونکہ اس دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کو بغیر مقصد کے گزار دیتے ہے یا مقصد تو جان لیتے ہیں مگر اس سمت آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے مقصد سے دور ہو جاتے ہے اور بغیر نام اور کام کے دنیا فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں
اپنے مقصد کو پہچاننے کا بہترین وقت نوجوانی ہے جب آپ نے جان لیا کہ رب العزت نے آپ کو کس منفرد کام کے لیے دنیا میں بھیجا ہے تو جان لیں کہ آپ نے اپنی زندگی کو غیر معمولی بنا لیا ہے جب آپ نے خوب غور و فکر کر کے اپنے آپ کو ٹٹول کر اپنے مقصد کو جان لیا تو اب مضبوط بنیے تاکہ اس مقصد کے درمیان آنے والی روکاوٹیں کا مقابلہ کر سکیں پھر اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کیجیے اس کی بعد جو سب سے اہم کام آتا ہے وہ ہے منصوبہ بندی جو اپنے مقصد تک پہنچنے کی بنیاد ہوتی ہے
جب آپ اپنی زندگی کے مقصد کو پالیتے ہیں تو اس کی تکمیل کے لیے مختلف ہدف طے کرے اور اس مقصد میں دوسروں کو بھی شامل کرے ورنہ آپ تھک جائیں گے جیسے کہ ایک مصنف اپنی کتاب کی تصنیف کے لیے قلم کا استعمال کرتا ہے اب وہی قلم بیچ راہ میں ساتھ چھوڑ دے اور دوسرے قلم بھی میسر نہ آئے تو مصنف کے کتاب کی تکمیل کا مقصد پورا نہ ہوگا
اسی طرح اپنے مقصد میں لوگوں کو شامل کرے تاکہ وہ آپ کو آپ کے مقصد تک پہنچا سکے. خوش نصیب ہوتا ہے وہ جو دنیا میں آتا ہے اور کچھ دے کر جاتا ہے جس طرح اس کی سب سے بڑی مثال آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے کہ آپ دنیا میں آئے لوگوں کی پریشانیوں کو مشکلوں، مصیبتوں کو دور کیا یتیموں اور مسکینوں کیساتھ کھڑے رہے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا۔
مگر جب ہم اپنے آپ کو دیکھے تو ہم نے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود لوگوں کے لیے کیا کیا؟
حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں “انسان کی دو پیدائیشیں ہے ایک جس دن وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا جس دن وہ ڈھونڈ لیتا ہے کہ وہ کیوں پیدا ہوا۔
غور کیجئے کہ آپ نے لوگوں کو کیا فایدہ دینا ہے ،خدمت کیسے کرنی ہے ،نام کیسے بنانا ہے، عزت کیسے کمانی ہے، لوگوں کے دلوں میں کیسے جگہ بنانی ہے، اپنی فیلڈ میں کیسے شناخت بنانی ہے۔ نام وہ نہیں جس سے آپ کو ندا دی جائے بلکہ نام وہ ہے جو مقصد تک پہنچنے کے بعد پہچان کا باعث بنے جیسے آزادی دلانے والے کے بارے میں بات ہو تو فوراً خیال میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آئیں گے، لوگوں کو دین کے حوالے سے شعور دلانے کی بات ہو تو فوراً علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ خیال میں آتے ہیں ان کے نام اس لیے ہیں کیونکہ ان کے مقصد تھے اور وہ اپنے مقصد تک پہنچے۔
قول روبرٹ برن
“•زندگی کا مقصد ، با مقصد زندگی ہے•”
تحریر: ام رباب موراج