اندھیروں سے اُجالوں تک کا سفر

Article By Bint Hussan Rizvia
فکرِ خودی کی تلاش کر
خودی کی تعمیر لازم ہے
یہی آج کل کے دور میں گمراہی کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ’’باطن‘‘ کو فراموش کر دیا ہے اور صرف ظاہر کی طرف متوجہ ہیں آج کا انسان آفاق میں گم ہے اور اگر وہ اپنی ہستی کو پہچان لے تو ’’آفاق‘‘ اس کو اپنے اندر دکھائی دے گا.
خودی ہے کیا؟
کس بَلا کا نام خودی ہے؟
“خودی” تلاش اور کھوج کا دوسرا نام ہے جس کو آج کی دنیا میں انتھروپولوجی کہا جاتا ہے جو “انسانیات” کا علم ہے انسانی رویوں, احساسات و جذبات اور اس کی چھان بین اور تلاش کا علم ہے جس پر انسان کے ماضی, حال اور مستقبل کا دار و مدار ہے یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ “انسان” سوچتا کیوں ہے, انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کے دل میں یہ خیال اُبھرتا ہے کہ میں کون ہوں اور مجھے جانا کدھر ہے,
دراصل انسان کی ساری تلاش اسی ایک سوال کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے دنیا کے وہ تمام لوگ جنہوں نے کامیابیاں حاصل کیں, نام کمایا اور تاریخ کا حصہ بنے یہ وہ سارے لوگ تھے جن کا سفر میں کون ہوں سے شروع ہوا, علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک ایسے ہی مرد قلندر تھے جنہوں نے یورپ کی رنگین فضاؤں میں رہ کر اپنے آپ کو پہچانا.
زندگی آزمائش اور امتحانات کا مجموعہ ہے انہی سے گزر کر انسان منزل کو پا لیتا ہے بحیثیت انسان اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری اصل منزل تو قبر ہے لیکن کچھ منزلیں اور خواب دنیا میں بھی نصیب ہو جاتے ہیں ایسا ہی ایک خواب بچپن سے دیکھا تھا جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا.
وقت گزرتا گیا خواب جنون بنتا گیا, خاموشی سے دن رات میں ڈھلتا اور راتیں سالوں کا سفر طے کر کے گزرتی گئیں جوانی کی دہلیز پر آتے آتے میرا خواب فشار بن کر میری رگوں میں دوڑنے لگا لیکن کہیں بھی پورا ہوتا دکھائی نہ دیتا رات کو بستر پر لیٹتے ہی ٹوٹے خواب کی کِرچیوں کی چُبھن مزید بڑھ جاتی, دل بے ترتیب ہوتا اور دھڑکنیں خاموش سمندر میں لہروں کی مانند شور مچانے لگتیں.
سوچتے سوچتے نہ جانے کب نیند کی دیوی ان پر مہربان ہو جاتی اور صبح جب آنکھ کھلتی تو پھر سے وہی منظر ہوتا کچھ بھی بدلا نہ ہوتا, کالج کا زمانہ بڑا لااُبالی کا ہوتا ہے اِسی لااُبالی نے میرے ٹوٹے خوابوں کو جوڑنا شروع کیا شہر کے مشہور پرائیویٹ کالج میں داخلہ مل گیا, اداس دل اور خشک آنکھوں سمیت جانا شروع کیا,
پہلا دن ہی مبارک ثابت ہوا اور میرے خواب کو جیسے راستہ سا مل گیا خزاں کی خشک کونپلوں پر بہار سی آ گئی آخری پیریڈ چل رہا تھا خزاں رسیدہ دل کو بہار کی کونپل مل گئی,
کلاس روم میں افسردہ سی بیٹھی کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی جب جماعت میں شور اُٹھا کہ “سر اعجاز” آ چکے ہیں
نئی کلاس نئے لوگ اور نیا استاد شور نے متوجہ کیا اور بے دلی سے “سر” کو دیکھا جو کافی وجیہہ اور خوش شکل سے لگے مسکراتا چہرہ اب بھی آنکھوں میں گھوم رہا ہے دو پیریڈ اکھٹے ہوتے تھے ایسے ہی دو کلاسز اکھٹی تھیں,
یعنی F.sc اور I.Com کی کلاسز تین دن اسلامیات کا اور تین دن اردو کا پیریڈ ہوتا پہلے تین دن اردو کا طے پایا اور آخری تین دن اسلامیات کا,
اسی طرح باتوں باتوں میں پریڈ ختم ہونے کا وقت قریب آگیا میری اُکتاہٹ میں بدستور اضافہ ہوتا گیا کہ شاید بس باتیں ہی کرنی ہیں سر جھٹک کر پھر سے اپنے رجسٹر پر قلم سے نجانے کیا لکھنے لگی جو کچھ یوں تھا,
“ٹوٹے خوابوں کی کِرچیاں بڑی بے دردی سے چبھتی ہیں” اسی دوران سر نے ایک شعر بولا,
ایک دم سے میرا جھکا سر اُوپر اُٹھا اور غیر ارادی طور پر پھیکے لب ڈھیلی مسکراہٹ میں ڈھل گئے,
“طائِر زیرِ دام کے نالے تو سُن چکے ہو تم
یہ بھی سُنو! کہ نالہ طائرِ بام اور ہے”
یہ شعر سر نے پڑھا اور میرے دل سے صدا آئی کہ منزل قریب ہے اس کے بعد کلاس ختم ہو گئی لیکن روز صرف اردو کی کلاس کا انتظار رہتا روز اسی خوشی میں گھر سے کالج تک کا سفر بخوشی طے ہونے لگا.
آہستہ آہستہ کلاس کی دوستوں کو جاننے کا دور شروع ہوا اور یوں سلسلہ بڑھتا گیا بزم سجائے جانے لگی اور سر نے ہر لڑکی میں یہ شوق پروان چڑھا دیا کہ اقبال کو سمجھو ان کے تصور کو سمجھو اور فکر کو جانو.”
آخری دس منٹ لازمی اس پر بحث ہوتی اور پھر مقابلے ہونے لگے یوں خواب کو منزل ملتی دکھائی دینے لگی کہ اس ملک کا حقیقی تصور اُجاگر ہو کر رہے گا.
زمانہ طالبِ علمی میں مقابلے کے لیے ڈاکٹر محمد علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظمیں اور اشعار اس قدر یاد کیے کہ جنون سر چڑھ کر بولنے لگا یوں سر سے بیت بازی ہونے لگی اور دوسروں سے جیت ہوتی ہوئی منزل قریب آتی گئی لکھنے کا جنون اور بڑھ گیا.
کیسے دو سال گزر گئے پتا ہی نہ چلا, خواب جب جنون کا روپ دھار لیں تو منزل واضح ہو جاتی ہے,
اقبال کو پڑھ پڑھ کر میرا ذہن لوہے کی طرح تپ چکا تھا وہی جنون وہی جذبہ بیدار ہو چکا تھا جو پاکستان بنتے وقت جوانوں میں تھا تب پاکستان بنا تھا لیکن اب بچانا تھا.
خیر F.sc کے بعد شہر کے سب سے مشہور کالج یعنی “پنجاب کالج” میں B.sc میں داخلہ ہو گیا لیکن ایک مرتبہ پھر سے خواب چکنا چور ہوتے دکھائی دیئے اُردو جیسا عظیم مضمون چھِن گیا.
زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن آزمائش سمجھ کر پار کرتی گئی جب لڑکیاں بننے سنورنے کا شوق پالتی ہیں میں گھنٹوں گھر بیٹھ کر اقبال پڑھتی اور لکھتی یعنی بننے سنورنے کے زمانہ سے ہی ہم حق کی تلاش میں تھے, آنکھیں کسی ایسے انسان کی تلاش کرتی رہتیں جو اقبال جیسا ہو جو وہ جذبہ وہ ایمان و افکار پھر سے گرما سکے سیاہ راتوں میں زندگی گزار کر دن کی روشنی میں گم ہوتی رہی اور تلاش جاری رہی.
کالج کے زمانہ سے آگے یونیورسٹی کا دور شروع ہو گیا لیکن اُداسی دل کو بدستور کاٹ رہی تھی اکثر لوگ میری اُداس اور ویران آنکھوں کو دیکھ کر وجہ پوچھے بغیر نہ رہ پاتے لیکن وجہ وہ درد وہ خودی کا گم ہو جانا کسی کوسمجھ نہیں آتا تھا.
یوں تو مشکل تھی بہت تلاش
خود کو تلاشنا اور بھی دشوار تھا
اس لیے خاموشی اور ایک پھیکی سی مسکراہٹ میرا جواب ہوتی ہر دن کے ساتھ درد بڑھتا جاتا کہ وہ غیور قوم کہاں سو گئی ہے؟
وہ بے تیغ سپاہی کہاں رہ گے ہیں؟
وہ خودی کہاں کھو گئی ہے؟
دانش کدہ میں سرِ عام لڑکوں لڑکیوں کو لباس کے ہوتے ہوئے یوں برہنہ دیکھ کر ایک ہول سا اُٹھتا کہ ہمارے اسلاف نے کیا سبق پڑھائے اور ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں؟
میں نے چشمِ نم سے دیکھا کہ فیشن میں اُلجھ کر اکثر تم نے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دئیے ان کی خودی کو بِیچ چوارہے لا کھڑا کر دیا نئی تہذیب وتمدن کی بے روح بہاروں کے عِوض اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیئے.
دن رات گزرتے رہے بلآخر دوہزار چودہ کا سال آ گیا میرا شناختی کارڈ بن گیا اور اوپر سے الیکشن کی مہم زور و شور سے شروع ہو گئی چونکہ میرا پہلا ووٹ تھا خوشی بھی تھی اور میں کچھ کشمکش کا شکار بھی تھی.
آخر کس کو ووٹ دیا جائے جو اس ملک کو ویسا بنا سکے جو اس کی اصل ہے پھر دن رات ریاستِ مدینہ کا نعرہ چار سُو گونجے لگا.
عوام بھر پور انداز سے پرانی سیاست سے چھٹکارا پا کر نئی سیاست کو آزمانے کے درپے تھی,
اک عمر وہ تھی اوپر سے چوٹ اور عزم بھر پور تھا دیکھ دیکھ کر اور سُن سُن کر دل آمادہ ہو گیا کہ تبدیلی آ جائے گی, یونیورسٹی میں باقاعدہ مہم کا آغاز شروع ہو گیا طالبعلم بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے سوچ کو نیا رُخ ملنے لگا لیکن وہیں دل میں کچھ باتیں کلٹی مارنے لگتیں.
ذہن سازی اسطرح کی جانے لگی کہ معلم بھی کھل کر طرف داری کرنے لگے اور یوں آہستہ آہستہ تبدیلی دماغ میں بیٹھتی گئی, قوم کو بنانے اور بگاڑنے میں ایک معلم کا فرض بہت ضروری ہوتا ہے.
بہرحال وقت گزرنے لگا اور امتحان کے دن سر پر آ پہنچے,
“میرے بابا” نے بہت سمجھایا رات گئے تک سمجھاتے رہے کہ بیٹا ووٹ تبدیلی کو نہیں دینا لیکن میں اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی اور اب دیکھیں اصل آزمائش یا اشارہ تھا تب تحریک لبیک نہیں تھی لیکن ووٹ “ن لیگ” کو دینے کا کہا جا رہا تھا بقول بڑوں کے ووٹ ضائع نہیں کرتے لیکن میں ان سب سے منتشر تھی بہت سوچا کہ کیا کروں کیا نہیں؟ ووٹ دینا اور صحیح دینا کیسے پتا چلے گا؟ اسی کشمکش میں دن سے رات ہو گئی.
اللہ کی کرنی ہوئی کہ زندگی میں پہلی مرتبہ رات گئے تین بجے کے قریب مجھے “ہیضہ” ہو گیا سمجھ سے بالاتر بات تھی کہ نا کچھ اُلٹا سیدھا کھایا پھر ہیضہ کیسے ہو سکتا ہے؟
صبح سات بجے ہسپتال لے جایا گیا لیکن قے رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں بابا جان پریشان ہو گئے تھے,
یوں دن گزر گیا اور شام ہو گئی اگلے دن ہسپتال سے چھٹی مل گئی اور الیکشن ہو چکے تھے تین, چار دن بعد رزلٹ بھی آ گیا الیکشن رزلٹ سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا انہی دنوں میں رات کو سوئے ہوئے عجیب و غریب واقعات دیکھنےلگی عجیب خواب آنے لگے, سفید لباس اور سفید داڑھی والا کوئی بابا جس کا چہرہ نہیں دیکھ پاتی تھی کبھی کبھار تو یونہی دن میں سوئے بھی سفید لباس والا کوئی بزرگ نظر آتا ایسے کئی واقعات میرے ساتھ ہوئے, ایک دن رات کو لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے آنکھ لگ گئی, تقریباً رات دو بجے کا وقت ہو چکا تھا میرے بابا کے پیر و مرشد جن کے ہاتھ پر بابا بیعت تھے وہ سر پر سرخ رومال باندھتے تھے اور کپڑے ہمیشہ سفید پہنتے تھے,
میرا لاشعور کا سفر یوں شروع ہوا, کیا دیکھتی ہوں یونیورسٹی کیفے کے سامنے کھڑی ہوں اور سامنے لگے پودے کو ہاتھ سے چھونے لگی ہوں لیکن میرے چھونے سے پہلے ہی وہاں ایک سانپ ہے اور اس پہلے میں اس پودے کو پکڑتی فوراٙٙ سے “پیر سید منظور حسین شاہ صاحب” (بابا کے مرشد) نے ہاتھ بڑھا کر سانپ کو روکا اور کہا بیٹا آپ ٹھیک ہو؟
یہ سب چند لمحوں کا لاشعوری سفر تھا,
ڈر کر لاشعور سے شعور کا سفر طے ہوا تو دل خشک پتے کی مانند کانپ رہا تھا اردگرد دیکھا تو میں وہی تھی لیپ ٹاپ بستر پر اُلٹا پڑا ہوا تھا,
ایسے بے شمار واقعات میرے ساتھ ہوتے رہے لیکن مؤقف وہی رہا کہ ریاست مدینہ بنا کر رہیں گے, یوں وقت گزرتا گیا زندگی کی کشتی ہچکولے کھاتی ہوئی کنارہ ڈھونڈتی رہی اور حق کی تلاش جاری رہی.
“ہر انسان کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ حق کی تلاش کرے”
تبدیلی سرکار ایک بار پھر ناکام ہو گئی اور “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ میدان مار گیا وقت کا ایک خاصہ ہے یہ گزر جاتا ہے کوئی جیسا بھی ہو کسی کا انتظار نہیں کرتا یہ کسی کے لیے رُکتا نہیں ہے,
دل میں افسوس, غصہ اور نفرت لیے زندگی اپنی ڈِگر پر جاری و ساری رہی تعلیمی دور اپنے عروج پر تھا جب اندھیروں نے کروٹ بدلی اور اُمید کی کرنیں نمودار ہونے لگیں.
“دوہزار سولہ” کی ایک روشن صبح کرن بن کر اُبھری, تب یونیورسٹی میں کمپیوٹر لیب میں بیٹھی کام میں مگن تھی جب موبائل پر بیپ ہوئی اور پیغام موصول ہوا,
مبارک ہو تمہارے خوابوں کو منزل مل چکی ہے اور ساتھ ہی ایک ویڈیو کلپ تھا جس میں ایک خوش شکل نوارنی چہرے والے بزرگ بڑے غصہ سے کفار اور غداروں کو للکا رہے تھے لیب میں ویڈیو نہیں سُن سکتی تھی اُٹھ کر باہر آگئی ویڈیو کلپ چلایا.”
جس میں بڑی دیدہ دلیری اور سختی واضح تھی بیان سنا دل مطمئن ہوا لیکن پھر سے کچّے ذہن کو راہ نہ مل پائی انہی دنوں اسلامو مافیا پراپیگنڈہ عروج پر تھا.
یوں دو ہزار سترہ تعلیمی آخری سال اور سکالرشپ کے ڈر کی وجہ سے دن رات بس پراجیکٹ اور پڑھائی کے ہو کر رہ گئے.
دوہزار سترہ اور اٹھارہ تھیسیز ریسرچ پر بیت گئے یوں سال کے آخر میں ایک مشہور پرائیویٹ کالج میں بطورِ لیکچرار نوکری مل گئی اور فارغ وقت تھیسیز ریسرچ اور کالج میں گزرنے لگا لیکن وہیں ایک دن میرے کوآرڈینیٹ آف تھیسیز سے بات چیت کے دوران بحث ہو گئی انہوں نے علماءِکرام کو گھسیٹ لیا میں علماءِ حق کے خلاف نہیں تھی.
لیکن کسی حق والے کی تلاش میں تھی “احمد شاہ نوارنی رحمۃ اللہ علیہ” جیسے دبنگ انسان”
سر نے عجیب منطق بیان کر دی کہ ممبرِ رسول ﷺ کا آجکل مولوی ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں کسی حد تک بات درست تھی کچھ علماء ایسا کرتے ہیں لیکن میرے کانوں سے دھواں تب نکلا جب انہوں نے احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو گھسیٹا اور اس کی وجہ انھیں بنا ڈالا.
“الحمدللہ بارہا اس پاک ذات کا شکر ہے کہ اہلسنت حنفی بریلوی گھرانے میں آنکھ کھلی”
بات سے بات نکلتی گئی اور یوں “علامہ حافظ خادم حسین حفظہ رحمتہ اللہ علیہ” پر بات آ کر رُک گئی کیونکہ آپ اعلٰی حضرت کے مؤقف پر کام کر رہے تھے.
سر نے مجھے ڈاکٹر اسرار الحق کی ویڈیوز بھیجیں کہ یہ سنیں اپنے علماءِ کرام کے بارے میں میں ڈاکٹر صاحب سے متاثر تھی لیکن صرف فکری حد تک.
اسکے بعد سر نے گروپ میں علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ویڈیوز بھیجیں
میں نے صرف وہی ویڈیوز دیکھی اور سُنیں جن میں کچھ تھا بھی اور نہیں بھی, زیادہ کچّے ذہنوں کی ذہن سازی تھی جو دوسرے لوگ بطورِ ہربہ تحریک کے خلاف استعمال کر رہے تھے انہی دِنوں میں ملک میں امن کا پرچار ہو رہا تھا خیر میں نے ایک بار پھر سے علماءِ کرام کو سُننا بند کر دیا.
“علامہ رضا ثاقب مصطفائی صاحب” کو سن لیتی جب دل پریشان ہوتا ورنہ سب کو سننا بند کر دیا دن رات اپنے مقرر کردہ وقت سے چل رہے تھے اور یوں ملک میں سیاسی دور کا بول بالا ہو رہا تھا اسمبلیاں توڑ کر الیکشنز یعنی بڑی گمیز کی منصوبہ بندی کی گئی اور پھر سے تبدیلی سرکار کے لیے ذہن سازی کی جانے لگی.
ایک تحقیق کے مطابق بائیس سال کی عمر تک ذہن کو جس طرف موڑا جائے وہ باتیں پکی ہو جاتی ہیں یعنی اس عمر میں دل و دماغ کو مولڈ کیا جا سکتا ہے.
ہمارے ذہنوں میں تبدیلی کا کیڑا بڑے سہانے خواب بن کر اُبھارا جا رہا تھا میں سارے گھر والوں سے ایک بار پھر اُلٹ سمت میں سفر کر رہی تھی
ایک رات جب بابا سے سیاست پر بحث زیادہ ہو گئی اور انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کچھ مانگا کہ ووٹ کرین کو دینا تو میں نے پَکا ارداہ کر لیا کہ ووٹ کسی کو بھی نہیں دینا,
بابا نے دلائل ایسے دیئے کہ سب سے دل اُچاٹ ہو گیا لیکن کسی زاویے پر سوچ ٹھہری ہوئی تھی بابا کے سامنے ہاں کر دی.
مختصراٙٙ یوں وہ دن آ گیا لیکن میں بہانے بناتی رہی اور بابا نے وعدہ یاد دلایا کچھ اپنا دل بھی کیا کہ اس مرتبہ فوج کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے بس یہی شوق پولنگ اسٹیشن تک لے گیا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا.
ہر کام بڑا منظم تھا اللہ اللہ کر کے نمبر آیا تو میں نے سوچا ہوا تھا ووٹ ضائع کرنا ہے یہی پّکا ارداہ کر کے گئی تھی,
میں تو بس فوجیوں کو دیکھنے گئی تھی باقی پاکستانیوں کی طرح فوج کا جنون رگوں میں دوڑتا تھا.
بیلٹ پیپر لے کر اندر گئی تو پہلے سارے نشان دیکھے لیکن دل و دماغ کی دنیا بدل رہی تھی نہ جانے کیوں لیکن احساسات و جذبات کچھ اور کہہ رہے تھے کیا کروں کیا نہیں, فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا دو سے تین منٹ تو یہی سوچ بچار کرتے گزر گئے پھر عملے نے آواز دی محترمہ جلدی کریں.
یہ امتحان تھا آزمائش یا حق کی تلاش ختم ہو چکی تھی.
“حق کے لغوی معنی سچائی، صداقت کے ہیں’’حق‘‘ اللہ کی ذات پاک ہے, یہ وہ واحد حقیقت ہے جس کو بقاء ہے یہی وہ ذات ہے جو خلق میں مخفی ہے نفسی حجابات میں اللہ ربّ العزت کی ذات پوشیدہ ہے
تلاشِ حق اصل میں اللہ کی ذات کی جستجو ہے اور یہ وہ عنایت ہے جو گنتی کی چند ارواح کو بخشی گئی ہے.
اللہ پاک خود فرماتا ہے,
ترجمہ: “اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے‘‘
(سورۃ الذٰریٰت 21)
میرے دل کی دھڑکن اُس وقت نا قابلِ یقین حد تک تیز ہو چکی تھی دماغ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا منتشر دھڑکنوں کے ساتھ میں نے آنکھیں بند کر لیں لمبا سانس لیا لیکن تب تک ہاتھ کے دباؤ سے ووٹ کی مہر لگ چکی تھی.
“اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں.”
سانس ہموار کر کے میں نے آنکھیں کھولیں تو دنگ رہ گئی یہ کیا ہو گیا تھا؟
میں وہ کیفیت وہ لمحے بیان کرنے سے قاصر ہوں میرا قلم اتنی سکت نہیں رکھتا کہ وہ واقعہ قلم بند کر سکے,
جب میرے ساتھ ایسا ہوا میری آنکھیں حیرت سے چھلک پڑی تھیں مہر “کرین” پر لگی تھی.
لڑکھڑاتے قدموں اور بوجھل دل سے بیلٹ پیپر ڈبے میں رکھ کر کمرے سے باہر نکل آئی گھر تک آتے ہوئے ایک سو دو بخار ہو چکا تھا.
ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے نیم بیہوشی کی حالت میں وہی سفید کپڑوں اور سفید داڑھی والے بابا جان میرے سر کی طرف کھڑے دکھائی دیئے.
وہ لاشعوری سفر تھا یا شعور کا سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن اس دن صرف داڑھی نہیں مکمل چہرہ دکھائی دیا اور یہاں وقت ایسے تھم سا گیا تھا وہ وقت کا سفر تھا یا کیامیرا شعور, سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن وہ بابا جی کون تھے وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ حق کی تلاش یہی تھی.
وہ صرف مسکرائے جا رہے تھے تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو اردگرد کوئی بھی نہیں تھا بخار کی تپش سے سارا جسم جھلس رہا تھا اوپر سے عجیب و غریب واقعات نے مت ماری ہوئی تھی یوں گھر آکر میں نے سب سے پہلے اپنا موبائل اُٹھایا اور بابا جان خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کو سرچ کیا آپکی تقریریں سُننا شروع کیں.
اندھیروں سے اُجالوں تک کا سفر طے ہونے لگا دن بہ دن دل کی کیفیت بدلنے لگی جس اقبال کی فکری کو مسلمان کھو چکے تھے آپ بے دریغ وہ فکر وہ افکار جوانوں کے دل و دماغ میں انڈیل رہے تھے.
بابا جی علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات ایسے مدلل اور سحر انگیر ہوتے کہ دل میں گھر کرتے جاتے ایسے با رُعب اور با اثر لہجے میں, نہایت روانی اور دل سے بولنے والے بندے شاز و نادر ہی ہوتے ہیں, ان کے بیان دل کے آر پار ہوتے اور یوں میری زندگی کے اندھیرے ختم ہوتے گئے.
بابا جان سے جُڑنے کا ایک راستہ اقبال کی فکری و خودی سے لگاؤ تھا, دوسری طرف اہلسنت حنفی بریلوی ہونے کا فائدہ,
“نعرہ لبیک یا رسولﷺ “دل و دماغ کو سرور بخشتا اور سکون سا محسوس ہوتا.
یوں سب چھوڑ کر صرف لبیک یا رسولﷺ کے پرچم تلے آکر جس طرح ٹھنڈی چھاؤں کا احساس ہوا دل نے وہ احساس کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا.
یوں بابا جی میرے حق سچ مرشد کی صورت میں میرا خواب شرمندہ تعبیر بن کر بامِ فلک پر جگمگا اُٹھے, میری دنیا بدل کر رہ گئی کہ یوں بھی تو خواب پورے ہوتے ہیں یوں بھی راہوں میں جُگنو راستہ دکھاتے ہیں.
اِس چُپ کے چمن میں وہ بولتی تصویر سی صورت بتا گئی سوئے ضمیر جگا گئی ہے کہ
ہمیں خود کو تعمیر کرنا ہے ہمیں یہ اقرار کرنا ہے بھول کر اسلاف ہم مٹ گئے, چھوڑ کر اپنی روایات ہم جل گئے,
دامنِ اسلام چھوڑ کر ہم رُسوا ہو گئے, ہمیں عہدِ تجدیدِ وفا کرنا ہے, ہمیں خود کو تعمیر کرنا ہے, ہمیں ظلم کی زنجیر کو توڑنا ہے, ہمیں غلامی کا طوق اُتارنا ہے, ہمیں دین کو تخت نشین کرنا ہے ان شاءاللہ.
بقولِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی
اللہ پاک ہمیں خودی کی تعمیر کرنے کی صلاحیت دے اللہ پاک ملتِ اسلامیہ کو اقبال کی فکر و خودی کا جذبہ عطا فرمائے. آمین
تحریر: بنت حسن رضویہ