تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے قانون (295-C) کا غلط استعمال
Article By Abdul Qadir Ashrafi
بات بالکل برحق کہ اس قانون کا غلط استعمال ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے!!!
لیکن! اس کو روکنے کا طریقہ یہ نہیں کہ مغربی اشاروں پر یہ مقدس قانون ختم کردیا جائے، کیونکہ پھانسی کی سزا ختم کر دینے کے باوجود بھی اگر معاذاللہ گستاخی ہوئی تو بھی ریاست پاکستان کو کوئی نا کوئی سزا تو منتخب کرنی ہی ہے جو اس کے مرتکب کو دینی ہوگی۔ جیسا کہ دیگر جرائم کی دفعات اور سزائیں منتخب کی گئیں، اور اگر وہ نئی سزا منتخب کر بھی لی جائے تو موجودہ سزائے موت کو ختم کردینے کے بعد پھر اس نئی منتخب کردہ سزا کے دینے پر بھی اعتراض تو رہے گا ۔۔۔۔۔ کیونکہ مغرب آزادیٔ اظہار رائے میں صرف پھانسی نہیں بلکہ ہر سزا کے خلاف ہے اور وہ اس آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر مکمل آزادی کی چاہتا ہے۔ جیسا کہ اسکی اصطلاح میں لفظ “آزادی” شامل ہے۔
پھر کیا کیا جائئے اور اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس مسئلے کا حل یہ نہیں کہ 295c کو ختم کرکے اپنی ریاست داؤ پر لگائی جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے والے عناصر کو سخت ترین سرعام سزائیں دی جائیں تاکہ پھر کبھی کوئی اس قانون کا غلط استعمال نہ کرسکے یا کسی پر اس کے اطلاق کا الزام نہ لگاسکے اور الزام لگانے سے قبل ہزار بار سوچے۔۔۔۔ اور مغرب پرست ٹولے بھی کہنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان میں اس قانون کا ہرگز غلط استعمال نہیں ہوتا۔
اگر قانون ختم کردیا تو کیا ہوگا؟
قانون ختم کردینے سے جرم رکے گا نہیں بلکہ مزید بڑھے گا کیونکہ قانون جو ختم ہوگیا۔۔۔۔ جبکہ قانون کے غلط استعمال پر سخت سزا دینے سے اس کا غلط استعمال بھی رک جائے گا اور اسکی اہمیت وفضیلت وافادیت بھی برقرار رہے گی۔ مزید اس سے قوم کی ہیجانی کیفیت وبےچینی بھی ختم ہوگی اور ریاستِ پاکستان اس قانون کی حفاظت کے تحت پوری قوم کو یکجا کرنے کے قابل ہوجائے گی۔۔۔
کیونکہ اس قانون 295c کو ختم کردینے میں قوم لازمًا سخت اختلاف کرے گی مگر اس قانون کو غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت سزا دینے پر پوری قوم متفق ہے کسی کا اس سے کوئی اختلاف نہیں۔
اب فیصلہ ریاستِ پاکستان اور مقتدر ادارے کریں کہ وہ قوم کا اعتماد جیت کر قوم کو یکجا کرنا چاہتے ہیں یا قوم کو منتشر کرکے پاکستان میں خطرناک ترین خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
راقم الحروف: ابوالممتاز عبدالقادر اشرفی