درسگاہیں یا معاشرے کی اقدار کا قبرستان
Article by Bint-e-Sajjad
حال ہی میں بہاولپور یونیورسٹی میں عزت سوز واقعہ کی خبر نظروں سے گزری۔ جسکے مطابق بہاولپور یونیورسٹی کے ایک چیف سیکورٹی افسر کو مخبری پر رات گئے پولیس ناکہ پر روکا گیا اور تلاشی لینے پر تہلکہ انگیز انکشافات پولیس کے سامنے آۓ۔ اس شخص سے موصول ہونے چیزوں میں آئس، منشیات اور جنسی استحصال کی گولیوں کے علاوہ ایک موبائل تھا جس میں اخباری رپورٹ کے مطابق 400 سے زائد جبکہ پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق 5200 سے زائد خواتین کی نا زیبا ویڈیوز موجود تھیں۔ پولیس نے اس شخص کو فوراً حراست میں لے لیا۔ بعد ازاں معاملہ کی تحقیقات کرنے پر پتا چلا کہ وہ درندہ صفت شخص اکیلا نہیں بلکہ یونورسٹی کے ایک بہت بڑے گینگ کا حصہ ہے جس میں دیگر ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ اور با اثر طلباء بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ نا جانے کتنے عرصہ سے وہاں منشیات کی خرید و فروخت اور خواتین اساتذہ و طلبات کے جنسی استحصال جیسے گھناؤنے فعل میں ملوث تھے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے دلخراش اور انسانیت سوز واقعات اگرچہ معمول کا حصہ بن گئے ہیں لیکن اتنے بڑے پیمانے پر ہراسگی کا یہ واقعہ اپنی نوعیت میں ملکی تعلیمی اداروں کا سب سے بڑا سکینڈل ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیوں ہمارے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی کے قابلِ افسوس واقعات بڑھتے چلے جا رہی ہیں۔ آۓ روز سننےمیں آ رہا ہوتا کہ فلاں یونورسٹی، کالج میں طلبات کی فحش ویڈیوز بنا کر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اسکی ایک وجہ گھریلو دباؤ اور معاشی پریشانیاں ہیں جسکے باعث طالبات اچھے گریڈز اور ایک بہترنوکری کی تگ و دو میں رہتی ہیں۔ ہرسال ہزاروں طالبات کسی بھی یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات میں اس غرض سے داخلہ لیتی ہیں کہ اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگی بنا سکیں۔ ان میں سے بہت سی طالبات آس پاس کے دیہی علاقوں سے بھی آتی ہوں گی جنہیں اپنے اہل خانہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے یونورسٹی داخلہ لینے کے لئے با مشکل اجازت ملی ہوگی ۔ بہت سی طلبات غریب گھرانوں سے ہوں گی جنکے والدین سمسٹر فیس بھرنے کے لئے قرضہ کے بوجھ تلے دبے ہوں گے اور بہت سی طالبات ایسی بھی ہوں گی جنکا کوئی بھائی نہیں ہوگا اور وہ اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بننے کی کوشش میں ہوںگی۔
استاد کے روپ میں بھیڑیا صفت ہوس کے دَرندے اسی تاک میں رہتے کہ کب کسے شکار بنائیں۔ مجبور گھرانوں سے آنے والی طالبات جو زندگی کے تجربات اور ذہنی لحاظ سے ابھی اتنی پختہ نہیں ہوتیں ایسے ذہنی بیمار لوگوں کو ایک آسان شکار لگتی ہیں۔ جنکی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی انھیں اچھے گریڈز اور سمسٹر فیس معاف کرنے کی تسلی دی جاتی ہے، کبھی اچھی نوکری کے خواب، تو کبھی سمسٹر میں فیل کرنے پر خوف زدہ کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کچھ سماجی رویے ہیں جو ان واقعات کی ایک طرح سے پشت پناہی کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی کے بہت سے واقعات منظرِعام پر نہیں آتے۔ جسکی ایک بڑی وجہ وکٹم بلیمنگ اور سماجی دباؤ کے باعث بدنامی کا خوف ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین ایسے واقعات کی شکایت درج نہیں کروا پاتیں بلکہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ ایسے موقع پر عموماً متاثرہ خاتون اور اسکے اہل خانہ کو ہی حالات کا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف اگر کوئی خاتون ہمت کر کے شکایت درج کروا بھی دے تو یونیورسٹی انتظامیہ ادارے کی بدنامی کے ڈرسے نا صرف ایسے واقعات چھپانے کی کوشش کرتی ہے بلکہ طالبات اور انکے اہل خانہ پر بھی دباؤ ڈالنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ یونیوسٹی انتظامیہ کی اس غیر سنجیدگی کے باعث ایسے بہت سے مجرمان نہ صرف سزا سے بچے رہتے ہیں بلکہ انکی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس سے جرائم کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
تعلیمی درسگاہوں میں بڑھتے ہوئے ہراسگی کے واقعات کی ایک بہت بڑی وجہ مغربی کلچر کا فروغ ہے۔ مخلوط نظام تعلیم بہت سی خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔ رات گئے منعقد ہونے والے میوزیکل کنسرٹس، ماڈلنگ شوز، ہولی، ہالووین اور طلباء کی نقلی شادی کے ڈرامہ وغیرہ میں مغربی لباس زیب تن کیے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک ساتھ شمولیت، رقص اور دیگر کئی غیر اخلاقی باتیں ان پروگرامز کا حصہ ہوتی ہیں اور قابل افسوس بات ہے یہ ہے کہ مرد و خواتین پروفیسرز بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی ملک میں نظام تعلیم اور تعلیمی ادارے اگر شریعت کے متعین کردہ اعلی اخلاقی اقدار و روایات کی پاسداری کرنی کی بجاۓ غیروں کی کھوکھلی تہذیب کو رائج کریں گے تو پھر اسکے تباہ کن نتائج اجتماعی طور پر پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتے ہیں اور آج ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اقبال رحمتہﷲعلیہ نے فرمایا کہ
اور يہ اہل کليسا کا نظام تعليم
ايک سازش ہے فقط دين و مروت کے خلاف
اس کي تقدير ميں محکومي و مظلومي ہے
قوم جو کر نہ سکی اپني خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھي کر ليتي ہے
کبھي کرتي نہيں ملت کے گناہوں کو معاف
استاد کو قوم کا معمار سمجھا جاتا ہے جو اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے معاشرے میں نہ صرف علم و ہنر اور شعور آگاہی کے دَر واہ کرتا ہے بلکہ اسکا ذاتی کردار طلباء کے لئے ایک رول ماڈل کی حثیت بھی رکھتا ہے۔ یوں تو ہر معاشرے میں اساتذه کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا ہے، لیکن اسلامی تہذیب میں تو خاص طور پر استاد کو روحانی والد کا درجہ حاصل ہے۔ افسوس آج قوم کی بیٹیوں کی عصمت اپنے ہی والد کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہے۔ با عمل اور باکردار استاد بہترین روحانی و اخلاقی تربیت سے معاشرے کو جہالت، مایوسی، احساس کمتری اور جرائم کی دلدل سے باہر نکالنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن وہیں بے عمل استاد اور تعلیمی اداروں میں اخلاقی گِراوٹ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ استاد کا کام نسلوں کی تعلیم و تربیت ہے۔ وہ تعلیم اورعلم و فہم رکھنے والا باشعور طبقہ جو سوچ کا زاویہ نا بدل سکے، حالات کا رُخ مثبت سِمت کی جانب کرنے میں ناکام نظر آۓ وہ نظام تعلیم دولت اور مادی ترقی کی دوڑ میں لگنے والی مشینیں تو پیدا کر سکتا ہے لیکن تعمیری سوچ اور اعلی اخلاقی اقدار و کردار سے آراستہ قوم تیار نہیں کر سکتا۔
مقصد ہو اگر تربيت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشيد کا پر تو
دنيا ہے روايات کے پھندوں ميں گرفتار
کيا مدرسہ ، کيا مدرسے والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہيں پيرو
شعبہ تدریس اپنی نوعیت میں دیگر شعبہ جات سے مختلف ہے کیونکہ تعلیم و تدریس کے ذریعہ قوم کی تعمیر و تربیت جیسے اعلیٰ مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ لیکن حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ تعلیم اب محض زریعہ کاروبار کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ ہراسگی اور منشیات جیسے گھٹیا فعل انجام دینے والے پروفیسرز بھی تو انہیں تعلیمی درسگاہوں کی پیدا وار ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نسل در نسل تربیت میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی ہے۔ امتحانی طریقہ کار اور نصاب میں ردوبدل کے علاوہ آج تک نظام تعلیم میں کوئی خاطر خواہ بہتری اور تعلیمی اداروں میں منشیات اور ہراسگی جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے قانونی اصلاحات نہیں کی گئیں۔
اپنی نسلوں کے تحفظ کے لئے اور قوم کے مستقبل کو تباہی سے بچانے کے لئے معاشرے کے ہر ذمہ دار فرد کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمداری ہے کہ پروفیسرز اور سٹاف کی بھرتی محض ڈگریز کی بنیاد پر کرنے کی بجاۓ مکمل جانچ پڑتال کے بعد بہترین پیشہ وارانہ اور اخلاقی و ذاتی کردار رکھنے والے لوگ بھرتی کریں۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر تعلیمی پالیسی بنانے والے ذمہ داران تعلیمی درس گاہوں میں اسلامی اقدار اور اخلاق کے منافی پروگرامز پر مکمل پابندی کو یقینی بنایئں اور مرد و خواتین کے لئے الگ کیمپس رکھیں۔ درسگاہوں میں مغربی لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ شکنی بھی کی جاۓ۔ مزید براں اداروں کے اندر کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی، انسانیت سوز اورغیر قانونی کاروائیوں کی روک تھام کے لئے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ سائبر سیکورٹی اداروں کو مزید فعال بنایا جائے اور ملک میں فحش مواد پر مبنی ویب سائٹس کو بلاک کیا جائے۔
والدین پر ان حالات میں خصوصاً بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عمومی طور پر ایسے واقعات کے بعد بہت سے والدین پہلی فرصت میں اپنی بیٹیوں کی اعلی تعلیم اور درسگاہوں تک رسائی پر پابندی عائد کر دیتے ہیں جو کہ کسی طور مسئلے کا حل نہیں۔ والدین کو چاہیے وہ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں۔ اور اپنے بچوں کی سماجی اور سوشل میڈیا سرگرمیوں پر خاص نظر رکھیں اور انہیں بچپن سے ہی ترغیب دیں کہ وہ شرعی حدود کے اندر رہ کر تعلیم، نوکری یا دیگر معمولات زندگی میں اپنے لئے بہتر فیصلہ کر سکیں۔
تحریر: بنتِ سجاد