صفائی نصف ایمان ہے مگر کیا
صرف گھر کے لیے
Article by Fatima Zahra
خدا تعالیٰ سے دعا ہے میرے قلم کو اتنی تاثیر دے
اتر جائے تیرے دل میں میری بات
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں وطن عزیز جیسی نعمت سے نوازا اور دعا ہے کہ اسے شریروں اور حاسدوں سے محفوظ فرمائے۔
آقا ﷺکا فرمان ہے: “صفائی نصف ایمان ہے”
بحیثیت مسلمان ھمیں اپنے جسم کے ساتھ، لباس، جگہ، ماحول، روح کو بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ہم اپنے گھر کپڑے جسم کو صاف ستھرا رکھتے بھی ہیں اور وجہ ہے آقا ﷺ کا فرمان جس میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہر انسان کوشش کرتا ہے صفائی میں کسی قسم کی کمی نہ آئے کبھی سوچا کیا ہماری صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے؟ کیا ہم آقا ﷺکے فرمان پر عمل پیرا ہو گئے؟
ہمارا ملک جس کے لیے ہم جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کیا ہم نے اس کو صاف ستھرا رکھا؟ وطن عزیز کے لیے بھی وہ فرمان مصطفیٰ ﷺ یاد رکھا؟
ایک شخص کوڑادان ہونے کے باوجود میری آنکھوں کے سامنے روڈ کے درمیان کچرے کی تھیلی پھینک دیتا ہے اور وہی شخص شام کو جب گھر لوٹتا ہے تو شکوہ کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں بہت گندگی ہو گئی ہے، جب اس شخص سے پوچھا جائے کہ گندگی پھیلائی کس نے؟ وہی رسمی جواب لوگوں نے،
نہیں!
لوگوں کی پھیلائی ہوئی گندگی نہیں ہمارا بھی اس میں پورا پورا ہاتھ ہے۔
ہم شکوے کرتے ہیں آلودگی و گندگی کے، ہم نے اپنی کون سی ذمہ داری نبھائی؟ بحیثیت پاکستانی شہری کیا میری زمہ داری نہیں بنتی اپنے گھر کے ساتھ اپنے وطن عزیز کو بھی صاف ستھرا رکھنے کی؟
اگر ہمارے حکمرانوں نے اپنی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں تو معاف کیجیے گا ہم بھی قصور وار ہیں ہم نے کونسا محب وطن ہونے کا ثبوت دیا، اپنے گھر اور دکان کی صفائی کر کے باہر گلیوں میں کچرا پھینک کر اونچے اونچے ملی نغمے لگانا حب الوطنی نہیں بلکہ حب الوطنی یہ ہے کہ اسے صاف ستھرا رکھا جائے۔
ایک نیا آغاز کریں اور عہد کریں اپنے ملک کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا جس طرح اپنے گھر اور دیگر چیزوں کی صفائی کرتے ہیں۔
لیکن اسکے لیے پہلا قدم آپ اٹھائیں گے اور پھر آپکو دیکھ کر کوئی آپکے قدم کے ساتھ قدم ملا کر اس میں حصہ لے گا لیکن پہل ہمیں کرنی ہے کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر انسان دوسرے انسان کے کے لیے رول ماڈل ہے آج آپ اچھا کام کریں گے مخلص ہو کر، تو کہیں نہ کہیں کوئی ہوگا جو آپکو فالو کرے گا اس طرح ہمارا ملک صاف ستھرا ہوگا، لیکن پہلا قدم ہمارا ہوگا آگے ہم بڑھیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں گی کیوں نہ اچھا رول ماڈل بنا جائے۔
جب ہم ایک ذمہ دار شہری محب وطن ہونے کا ثبوت صرف ملی نغموں کی حد تک نہیں بلکہ اپنے عمل سے دکھائیں گے تو شاید ہمارے حکمران بھی ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیں۔
یاد رکھیے گا۔!
ہماری حالتیں تب ہی بدلیں گی جب ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں گے اور گندگی پھیلانے والے کا ہاتھ ہم اس وقت ہی پکڑ سکیں گے اور ہاتھ پکڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا ہاتھ کسی نے نہ پکڑا ہو کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے۔
تحریر: فاطمہ زہرہ