قوم کا معمار
Article by Bint e Sajjad
استاد قوم کا معمار ہے اور اقوام کی تعمیر و ترقی اور نسل نو کی تربیت و شخصیت سازی میں استاد کا کردار کلیدی حثیت رکھتا ہے۔ استاد اپنے علم و کردار سے کسی بھی معاشرے میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
یوں تو دنیا کے ہر معاشرے میں استاد کو قابل عزت و احترم سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام نے بطورِ خاص اساتذہ کے حقوق و فرائض متعین کر کے انھیں خاص عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ استاد ملک و قوم کا مستقبل سنوارتا اور اخلاقی و روحانی تربیت جیسے اہم فرائض سرانجام دیتا ہے۔ اسلام نے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا ہے۔ ہمارے پیارے پیارے آقا کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے :
”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا“
باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علی رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا قول مبارک ہے کہ :
”جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں“
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اپنے استاد مولوی میر حسن کو جہاں کہیں دیکھتے ہاتھ باندھ کر انکے پیچھے پیچھے چل پڑتے اور اپنے استاد کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے۔ 1922ء میں پنجاب کے برطانوی گورنر نے جب علامہ اقبال کی ادبی خدمات کے بدلے آپکو سر کے خطاب سے نوازا تو اقبال بضد ہوئے کہ جب تک انکے استاد مولوی میر حسن کو بھی شمس العلماء کے خطاب سے نہیں نوازا جاتا وہ سر کا خطاب قبول نہ کریں گے۔ اس پر گورنر نے پوچھا کہ مولوی میر حسن نے تو کوئی کتاب نہیں لکھی جس پر اقبال نے جواب دیا: ”میں خود انکی زندہ کتاب ہوں۔“
اسی طرح وقت کے ایک بہت بڑے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے اپنے استاد کی مجلس سے اٹھتے وقت اس بات پر تکرار میں پڑ گئے کہ پہلے کون استاد کی جوتیاں اٹھائے گا.!
دوسرے تمام شعبہ جات کی بنیاد دراصل شعبہ تدریس ہی ہے۔ یہ استاد کی ہی محنت ہی ہے جو ملک و قوم کو جج، ڈاکٹر، وکیل، سپاہی، صحافی، سیاست دان یا سائنسدان دیتا ہے، گویا تمام شعبہ جات کے پیچھے ایک استاد کی ہی محنت کار فرما ہے۔
استاد کے فرائض منصب درج ذیل ہیں:
جس بھی فن اور شعبہ میں علم و مہارت رکھتا ہو اسے احسن طریقے سے اگلی نسلوں تک منتقل کرے۔ سبق کو آسان الفاظ میں طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق پڑھائے اور مختلف مثالوں کی مدد سے سبق کے مقاصد واضح کرے اور طلباء کی مدد کرے کہ وہ سبق کے مقاصد اور روزمرّہ زندگی کے درمیان روابط قائم کر سکیں۔
استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلباء کو سیکھنے کے لئے سازگار اور موضوع اور صحت مند ماحول فراہم کرے اور بچوں کی ضروریات پر خاص توجہ دے کیونکہ استاد کا کام بس پڑھانا ہی نہیں بلکہ استاد ایک فنکار ہوتا ہے۔ طلباء کی ضروریات کے مطابق وہ بہت سے روپ ڈھالتا ہے وہ ہمہ وقت ایک رہنما و رہبر بھی ہے وہ ایک کاؤنسلر کا کردار بھی ادا کر رہا ہوتا ہے وہ ایک غذائیت کا ماہر ہونے کا بھی کردار ادا کرتا ہے جب وہ طلباء کو متوازن اور صحت بخش غذا استعمال کرنے کی تلقین کرے گا گویا ایک ہی وقت میں وہ مختلف کردار نبھا رہا ہوتا ہے۔
استاد کو چاہیے کہ وہ طلباء کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرنے اور ان پر قابو پانے میں مدد کرے۔ استاد کو ہمیشہ مثبت رویہ اپناتے ہوئے مناسب الفاظ میں طلباء کی حوصلہ افزائی اور خاص احتیاط کرے کہ اسکی کسی بات سے شاگرد احساس کمتری کا شکار نہ ہونے پائے۔
استاد کے جملہ فرائض میں صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ تربیت کرنا بھی ہیں۔ استاد اپنے ملک و قوم کی اقدار و روایت کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ نظریات کا بھی امین ہوتا ہے۔ ایک مسلم استاد پر اس حوالے سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان بنا ہی اسلام کے نام پر ہے لٰہذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا استاد اور مدرس اس بات کا ذمدار ہے کہ وہ نسل نو کو اسلامی نظریہ حیات اور نظریہ پاکستان سے بخوبی ہم آہنگ اور وابستہ کریں لیکن بدقسمتی سے آج کے تعلیمی اداروں خاص کر مغربی ممالک سے الحاق شدہ پرائیویٹ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز پاکستان کی اسلامی نظریاتی بنیاد کی روشنی میں مشرقی روایات و اخلاقی اقدار سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی بجائے مغربی ثقافت و اقدار کو فروغ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے آج نسل نو اپنی نظریاتی بنیاد سے تقریباً ناواقف نظر آتی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ ایک اسلامی ملک کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اعلیٰ اقدار و کردار کا فقدان بڑھ رہا ہے جس کے نتائج معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدامنی، رشوت خوری، کرپشن اور نام نہاد جدت کے نام پر لبرلزم ہے۔
ایک اچھا اور قابل استاد وہی مانا جاتا ہے کہ جس کی خاص نگاہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں رونما ہونے والے تغیرات و تحقیقات پر ہو۔ ایک قابل استاد کو چاہیے کہ وہ خود کو لائف لونگ لرنر سمجھے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ میں واقع ہونے والی نئی تحقیقات سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کرتا رہے یعنی اپنے علم و معلومات کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اَپ ٹو ڈیٹ رکھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے استاد کو چاہے کہ وہ ہر نئی آنے والی تحقیق کا مطالعہ کرے اور طلباء کو بھی اس سے متعارف کروائے، تو پھر طلباء میں پڑھنے اور نئی باتیں سیکھنے کی دلچسپی بھی بڑھے گی۔
استاد کا فرض یہ بھی ہے کہ شاگردوں میں معاشرتی، سماجی اور قومی مسائل کی طرف خاص سوچ اور فکر کا جذبہ پیدا کرے اور طلباء کو مسائل کے مثبت حل کے لئے مختلف اجتمائی سرگرمیاں اور پروجیکٹس تفویض کرے تاکہ طلباء میں خالص انسانی ہمدردی اور ملی وحدت سے سرشار جذبات اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کی لگن اور رغبت بڑھے گی۔
استاد ایک لیڈر کی حثیت رکھتا ہے اور لیڈرشپ کی خصوصیات اسکی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ ایک اچھا لیڈر وہی ہے جو لیڈر پیدا کرے نہ کہ غلام۔ جس طرح کسی تنظیم کا لیڈر اپنی شخصیت کے مسحور کن تاثر سے لوگوں کو تنظیم کے مقاصد کے لئے وفادار بناتا ہے اسی طرح لیڈرشپ کا حامل استاد طلباء کو متاثر کرتا ہے کہ وہ اپنے استاد کی سکھائی ہوئی اعلیٰ اخلاقی اقدار و کردار کو اپناتے ہوئے اپنے ملک و قوم کے وفادار اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔
استاد کو معاشرے کا باشعور فرد سمجھا جاتا ہے۔ استاد کو
ایک با وقار شخصیت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق، خوش گفتار، عجز و انکسار اور صبر تحمل کا پیکر ہونا چاہیے۔ اگر استاد صبر و تحمل اور برداشت کا دامن چھوڑ دے گا اور بےجا سخت رویہ اپنائے گا تو طلباء کی نظر میں نہ صرف عزت کھو دے گا بلکہ اس سے شاگردوں میں بغض اور کینہ جیسے جذبات بھی پیدا ہوں گے۔
استاد کے ذمے معاشرے کی تشکیل اور نسل نو کی تربیت جیسی بھاری ذمہ داری شامل ہے لہٰذا استاد کی شخصیت و کرادر میں کسی بھی قسم کا جھول کا مطلب معاشرے میں بگاڑ اور ملک و قوم کی تباہی ہے۔ اسی طرح جو اقوام اپنے استاد کی قدر و منزلت کھو دے پستی اور تنزلی اسکا مقدر بن جاتی ہے ۔ افسوس کہ آج ہمارا استاد اپنے حقوق کے لئے کبھی سڑکوں پر اور کبھی دفاتر اور عدالتوں میں درد بدر کے دھکے کھاتا پھرتا دکھائی دیتا ہے ۔
استاد ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارتا ہے اور طلباء کے لئے رول ماڈل کی حثیت رکھتا ہے۔ اسکول کے طلباء خاص طور پہ اپنے استاد سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور وہ اپنے استاد کی عادات اور کردار کی نقل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لہٰذا ایک اچھا اور کامیاب استاد وہی ہے جو با وقار شخصیت اور اعلٰی اخلاقی اقدار و کردار کا مظہر ہو۔
استاد کے جملہ فرائض دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی سے مختلف اور مشکل ہیں کیونکہ استاد ہی ہے جو دیگر شعبہ جات کے لئے افراد تیار کرتا ہے۔ استاد ایک بادشاہ گر ہے، ایک کامیاب استاد وہی ہے جو طلباء کو کسی بھی فنون علم کا ماہر بنائے۔ ایک اچھا استاد طلباء کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بننے کے لئے تربیت کا بھی ذمہ دار ہے اور اسی پر ملک و قوم کی ترقی کا انحصار ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے اپنے شعبہ جات کے فرائض ذمداری اور اخلاص کے ساتھ نبھائے۔
چونکہ استاد کسی بھی معاشرے کی افراد سازی اور مستقبل کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نسل نو کو ملک و قوم کی خدمات کے لئے بھی تیار کرتے ہیں لہذا استاد کی قدر و منزلت کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ چناچہ معروف ادیب اور دانشور ڈاکٹر اشفاق احمد کا ایک واقعہ ہے کہ انکے اٹلی میں قیام کے دوران ٹریفک چالان کا معاملہ ہوا تو عدالت کا جج یہ کہہ کر تعظیماً کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا کہ:
A teacher in court
اور آپکا چالان بھی معاف کر دیا گیا۔
افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں استاد اپنی روایتی عزت و احترم اور قدر و منزلت سے محروم دکھائی دیتا ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں شعبہ تدریس کو ملک و قوم کی ترقی اور نسل نو کی تربیت جیسے عظیم فرائض کی بجائے محض ذریعه روزگار اور کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں طلباء اعلٰی اخلاقی و تعمیری اقدار و کردار کی اور حصولِ علم و تعلیم کے حقیقی جذبہ کی عکاسی کرتے کم اور نمبر گیم اور میرٹ کی دوڑ کا حصہ بنتے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ استاد کی شخصیت و کردار کا شاگردوں کے ذہنوں پر دیرپا اثر چھوڑتا ہے اگر استاد خود تدریس و تعلیم کو محض حصولِ معاش کا ذریعہ سمجھے گا تو اسکا شاگرد بھی تعلیم کا مقصد صرف اچھی نوکری حاصل کرنا اور پیسے کمانا ہی سمجھے گا۔ اگرچہ حصول علم و تعلیم کا ایک پہلو حصول روزگار بھی ہے لیکن یہ صرف سطحی لیول کا مقصد ہے۔ حصول علم و تعلیم کے عظیم مقاصد تو معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے ہیں جس کے لئے استاد کا کلیدی کردار ہے۔ بدقسمتی سے دورِ حاضر کا مغربی نظام تعلیم جسے لارڈ میکالے کا طرز تعلیم بھی کہا جاتا ہے، سوائے ہمارے معاشرے میں تعمیری و نظریاتی کردار ادا کرنے کی بجائے محض مغرب سے مرعوب ذہنی غلام ہی پیدا کر رہا ہے۔ نسلِ نو جہاں اپنی اسلامی نظریات اور اقدار و روایات سے دور ہوئی تو وہیں استاد کے حقیقی مقام و احترم سے بھی غافل ہوتے نظر آتی ہے۔
یوں تو استاد کو اپنے فرائض بغیر کسی بھی قسم کی مراعات اور منافع کی طمع و لالچ کے انجام دینے چاہئیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ استاد بھی ایک انسان ہے اور اسکی بھی اپنی معاشی ضروریات ہیں لہٰذا اقوام کی ترقی اور عروج اسی پر منحصر ہے کہ وہ اپنے استاد کی قدر جانے اور استاد کو اس کے جائز حقوق اور عزت و احترم سے نوازے۔ استاد قوم کا محسن ہے اور احسان فراموش قومیں جلد ہی تنزلی اور زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
استاد ایک باغبان کی طرح ہے کہ جس کی شفقت اور تعلیم و تربیت کے زیرِ سایہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں ۔ استاد کا کردار معاشرے میں ایک ایسی شمع کی طرح ہے کہ جسکی روشن خیالی سے شعور اور انقلاب کی ایسی راہیں وا ہوتی ہیں کہ غلامی و تنزلی کی تاریکی مٹ کے رہ جائے۔
اقبال کیا خوب لکھتے ہیں کہ:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت (آمین)
بنت سجاد