ماں
Article by Mohsin Jamil
میٹرک کے زمانے کی بات ھے اور وہ دن مجھے آج بھی یاد ھے کہ میں ماں کیساتھ بازار گیا ہوا تھا تو کلائی پہ باندھنے والی ایک گھڑی پر دل آ گیا میں نے ماں سے ضد کی مجھے گھڑی خرید کر دیں لیکن گھڑی مہنگی ھونے کے سبب ماں نہ دلوا سکیں اور ھم ضد کرتے روتے روتے ماں کیساتھ گھر آ گئے اور گھر آتے ہی گھر سر پر اُٹھا لیا اُس وقت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ والدِ محترم گھر موجود نہ تھے ورنہ اتنا شور مچانے کی مجال ہی نہ ہوتی اور گھڑی کی حسرت صرف حسرت ہی رہ جاتی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پھر صاحب ھوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانا دیا اور ھم نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اُٹھا مارا وھاں ماں کو تھوڑا غصہ آیا اور آخر کہہ ہی دیا نہیں کھانا نہ کھاؤ مرو جا کر کہیں تمہارے نخرے اُٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ھیں دفع ھو جاؤ اور مجھے دوبارہ شکل مت دکھانا تو صاحب اَنا بھی ہمارے اندر خُدا نے دبا دبا کر شروع سے ہی بھری ہوئی ھے ماں کے یہ الفاظ سننا تھے کہ اُٹھ کھڑے ھوئے اور منہ اُٹھا کر گھر سے چل دیئے غالباً چھ سے سات گھنٹے ھم نے جتنی بے فکری سے گُذارے شاید ماں نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ کرب ناک گُذارے ھوں گے اس بات کا اندازہ اُس وقت ھوا جب ھم نے ایک مسجد کے اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سُنا تو گھر کی جانب رُخ کر لیا راستے میں میرا پھوپھو زاد جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا مجھے گھر لے گیا جاتے ہی کیا دیکھا ماں ایک ھاتھ میں گھڑی، ایک ھاتھ میں کھانا اور آنکھوں میں میری نادانی یعنی آنسو لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگایا ، ماتھا چومتے ھوئے گھڑی باندھی ، کہا تم نے دوپہر سے کھانا بھی نہیں کھایا کیا حشر کر لیا اپنا اور جو کرنے کا حکم مجھے دیا تھا اپنے اُوپر لے لیا کہتیں اگر میں مر جاندی تے فیر ساری عمر تو گھڑیاں ای پانیاں سی۔
اُس دن ھونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب کبھی یاد آئے تو سارا دن بال نوچنے کو جی کرتا ھے اگر رات میں یاد آئے ساری رات بستر پر نہیں کانٹوں پہ گُزرتی ھے۔ پردیس میں رھتے ھوئے جی کرتا ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جاؤں اور سر پیٹ پیٹ کر انہیں قدموں میں جان دے دوں جب یہ یاد آتا ھے کہ جب ماں جہیز میں ملی ہوئی ہزاروں کی ملکیت رکھنے والی کان کی بالیاں صرف پانچ سو میں بیج کر اُس دن میرے لئے گھڑی لائی تھیں ۔
اپنے والدین کی قدر کریں ان کو تکلیف نا دیا کریں یہ وہ تحفے ہیں اگر اللہ واپس لے لے تو سوائے رونے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
جن کے والدین رخصت ہو گئے ہیں ان کیلئے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کریں اور اپنے بچوں کو بھی یہی ترغیب دیں تاکہ کل کو وہ بھی اپنے بڑوں کی قدر کر سکیں۔
با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب
تحریر: محسن جمیل
اللہ پاک آپکو مدینہ منورہ کی بہاریں نصیب فرمائے
آپکا عشقِ رضوی سلامت رہے۔❤️
ماشاءاللہ بہت خوب جناب خیلے خوب است جناب آپ نے تو دل خوش کر دیا ماں باپ دل کی ٹھنڈک ہوتے ہیں اللہ آپ میرے والد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین اور جن کے والدین زندہ ہیں ان کی عمر دراز فرمائے
#عشقِ_رضوی 🦅⚔️🦅
اللّٰہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حقیقی محبت نصیب فرماۓ اور انکا ادب اور قدر کرنا نصیب فرماۓ آمین
Amazing Artecal Maa Shaa Allah Aameen
Hey MashAllah
ماں کا پیار تو ہوتا ہی سب سے الگ ہے اور اللہ ہمیں بھی اور سب کو اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور سب کے والدین کا سایہ تادیر ان کے سروں پر سلامت رکھے۔آمین
بیشک والدین کا نعم البدل کوئی نہیں اس دنیا میں۔ اللہ ہمیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور ہماری اولاد کو ہمارے لیے آمین۔
ماشاءاللہ
Allhumdulliah, thousand times Allhumdulliah