ترجیحات سے خالی زندگی_ایک بڑا خسارہ

Article by Muhammad Asad Attari
فطرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں موجود ہر ایک چیز ایک مقصد کے تحت چل رہی ہے اور وہی مقصد اس کی ترجیحِ اول ہے۔ یہ مثال انسانوں پر بھی صادق آتی ہے جو بھی انسان اپنی زندگی کو ترجیحات میں سنوار کر گزارتا ہے تو وہ مختصر وقت میں ایک بڑا کام کرجاتا ہے ،اس کے لیے چیزوں ، انسانوں اور واقعات کو ’’Sorry‘‘ کہنا آسان ہوتا ہے۔ وہ بہت آسانی سے کہتا ہے: ’’میں معذرت چاہتا ہوں میں نہیں مل سکتا، معذرت! میں موبائل بند کرنے لگا ہوں، معذرت ! مجھے اپنے کام پہلے کرنے ہیں۔‘‘
اور جس انسان کی ترجیحات متعین نہ ہوں تو پھر پنجابی میں ایک محاورہ ہے کہ ’’جنے لایا گلی ،میں اُدھے نال ای چلی‘‘
اس صورت حال میں جو یہ سوال اٹھا کہ میں نے خود کیا کرنا تھا؟ اسی بات کو طے کرنے کا نام’’کامیاب زندگی‘‘ ہے اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے مطابق اپناطرزِ زندگی بھی بنائے ورنہ پھر کچھ بھی نہیں کرسکے گا، ہمارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم بڑ ا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری عادتیں سب ناکام لوگوں والی ہوتی ہیں
آپ اگرکسی ایسے شخص کی زندگی دیکھیں جس نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے تو ا س کی زندگی میں آپ کو تنظیم ، ڈسپلن ، ترجیحات ، اہداف ،جوش و جذبہ اور اپنے مطابق دوستوں کا ایک حلقہ نظر آرہا ہوگا، کچھ لوگوں کو وہ نظر انداز کرے گاجبکہ کچھ لوگوں سے وہ ملنا چاہے گا جس بھی انسان کی زندگی میں یہ بات واضح ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، وہی ترقی کرتا ہے، جبکہ ایسا انسان جس کو پتا ہی نہیں کہ میں نے کیا کرنا ہے تو اس لاعلمی کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، یا تو اس کے اہداف طے نہیں ہیں یا پھر اس کا طرزِ زندگی اس کے مقاصد کے مطابق نہیں ہے اور جس کی زندگی میں بھی یہ دو وجوہات موجود ہوں وہ آگے نہیں بڑھ سکتا
انسان نے زندگی میں کچھ بھی کرنا ہو اسے اپنا لائف اسٹائل اس کے مطابق بنانا چاہیے۔ اگر وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنی زندگی میں علم لائے، بڑا انسان بننا چاہتا ہے تو اپنی زندگی میں بڑے انسانوں والی عادات لے کر آئے، اپنا ایک میعار ترتیب دے، معاشرے میں تبدیلی لانی ہے تو سب سے پہلے خود کو بدلے
انسان سب سے زیادہ دھوکا اپنے آپ کو دیتا ہے اور سب سے زیادہ سچا بھی اپنے آپ سے ہوتا ہے، بس عادت ڈالنے کی بات ہے کہ آپ خود کو کس طرح عادت دیتے ہیں، وہ بڑ ا خوش قسمت ہے جو اپنے ساتھ بیٹھ کر اپنی کمزوریوں اور عادات کے بارے میں سوچتا ہے کہ مجھے ان کو بدلنے کی ضرورت ہے
ایرانی لوگ قالین بنانے کے بعد اس میں کچھ کمی جان بوجھ کرچھوڑدیتے ہیں جس کو ’’کھونگی‘‘ اور ’’Persian fault‘‘ کہا جاتا ہے، وہ اس لیے تاکہ ان کے ذہن میں یہ بات نہ آئے کہ وہ بالکل پرفیکٹ ہوچکے ہیں۔ پرفیکٹ ذات صرف رب کی ہے، بحیثیت انسان ہم سب کو ایک ’’کھونگی‘‘ لگی ہوئی ہے جس کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے، ہماری غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ہم نے صرف ’’گناہ‘‘کو ہی غلطی سمجھا ہوا ہے ،حالانکہ گناہ کے علاوہ بھی کئی ساری ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو تباہ کردیتی ہیں۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ آج ہی سے ایسی کمزوریوں کو ڈھونڈیں، ہم میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ کمزوری ہے۔کسی میں لالچ کی بیماری ہے اور کسی میں پیسوں کی محبت بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح کئی لوگوں میں جلد بازی کی عادت ہے، Persian fault کا مطلب ہے کہ آپ کی ذات میں موجود ایسا سوراخ، ایسی ناکامی یا ایسی کمزوری جو آپ ہی کو ناکام کررہی ہے ،اس کو ڈھونڈنا اور اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم میں کوئی کمزوری نہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر انسان بلکل ٹھیک ہوجائے تو وہ فرشتہ بن جاتا ہے، اللہ نے انسان کو کامل اور اکمل بنایا ہی نہیں، اگر بنانا ہوتا تو پھر فرشتہ ہی بناتا، لیکن اب جب انسان بنایا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ غلطیاں انسانی ہوں گی اور یہ بلکل ختم نہیں ہوسکتیں۔نفسیات و روحانیات میں یہ بات مذکور ہے کہ انسان کا نفس بلکل مرتا نہیں البتہ اس کوکمزور کرکے قابو کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اگرنفس مرجائے توپھر انسان کا حساب کتاب ہی ختم ہوجائے۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے، مقابلے پر دشمن ہو تو پھر انسان بہادر ی دکھا سکتا ہے ،لیکن جب سامنے کوئی ہے ہی نہیں تو پھر کس سے لڑائی اور کس بہادری کا دعویٰ؟
اپنے آپ کو جانچنا ہی ترقی کی راہ ہموارکرتا ہے اور جس انسان کو اپنا دام معلوم ہو وہ کبھی سستا نہیں بکے گا اور نہ ہی وہ دھوکا کھائے گا۔ لیکن جس کو اپنے بارے میں نہیں پتا تو وہ کبھی تو بہت سستا بکے گا اور کبھی خود کو بہت قیمتی سمجھ کرخوش فہمی کا شکار ہوگا۔ جو بھی انسان تنہائی میں اپنے ساتھ بیٹھ کر بور ہوتا ہے تووہ دوسروں کو بھی بور ہی کرتا ہے کیوں کہ جس انسان کی اپنی صحبت اپنے لیے مزیدار نہیں وہ دوسروں کے لیے کیسے دلچسپ ہوسکتا ہے؟ البتہ جو خود کو انجوائے کرتا ہے تو پھر لوگ اس کے پیچھے پھرتے ہیں کہ سر! ہمیں تھوڑا سا وقت دے دیں !
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ 70سال کی زندگی میں انسان سب سے زیادہ اپنے ساتھ رہتا ہے، بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ اپنے ساتھ گزرتے اس وقت میں اپنا احتساب بھی کیا جائے کہ میں کیا کچھ سوچتا ہوں؟ میری زندگی کا مقصدکیا ہے، اس مقصد کے لیے میں نے کیا ترجیحات مقرر کی ہیں؟ںاور یہ سوال بھی کہ
میں اپنی زندگی اپنی ترجیحات پرگزار رہا ہوں یا جس نے بھی ہاتھ پکڑ لیا اس کے ساتھ چل پڑتا ہوں؟
تحریر: محمد اسد عطاری