معراج کے دولہا

Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو معجزہ عطا فرمایا اور ہمارے نبیﷺ کو سب سے زیادہ معجزات عطا کئے حتی کہ آپ کو سراپا معجزہ بنا کر بھیجا۔ معجزہ کا لفظی معنیٰ ہے ‘عاجز کردینے والی شے’ معجزہ ظاہری اسباب و عادت سے ہٹ کر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ خلافِ عادت و اسباب کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دنیا کے ظاہری اسباب کے بغیر اور روٹین میں ایسا نہیں ہوتا جیسے کوئی زمین کو اشارہ کرے تو اس سے پانی کا چشمہ ابل پڑے۔
معجزہ
نبی سے اعلانِ نبوت کے بعد ایسی خلافِ اسباب و عادت ظاہر ہونے والی چیز جس کی مثل لانے سے منکرین عاجز ہوں جیسے انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا
تمام نبیوں کو معجزات عطا کئے گئے جن میں متعدد کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے اور ائمہ دین کی تصریحات کے مطابق سب نبیوں کو معجزات ہمارے پیارے آقاﷺ کے توسُّل ہی سے ملے جیسے امام بوصیری فرماتے ہیں
تمام معجزات جو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام لائے وہ ان کو ہمارے نبیﷺ کے نور ہی کے فیضان سے ملے۔
ہمارےنبیﷺ فضلِ الٰہی کے روشن آفتاب ہیں جبکہ بقیہ سارے نبی اِس آفتاب کے چمکتے ستارے ہیں جن کے انوار لوگوں پر تاریکیوں میں چمکتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ الرَّحْمَہ فرماتے ہیں
لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
حدائقِ بخشش ، ص۱۵۲
معراج رسول ﷺ کی ارفعیت و اشرفیت سے معمور خصوصیت کا نام ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو رسول اللہﷺ کو دیگر انبیاء ورسل سے ممتاز کر دیتا ہے۔
ایک ایسا واقعہ ایک ایسا معجزہ جو دیگر معجزوں کے اندر ایک خاص امتیاز کا حامل ہے۔
یہ واقعہ صرف سید الرسلﷺ کی عظمت و رفعت کا واقعہ ہی نہیں بلکہ واقعتاً انسان کی اشرف کا بھی مقام ہے۔
معراج مصطفی صرف ایک واقعہ ہی نہیں کہ جسے قصے کے طور پر، کہانی کے طور پر، محض تلذذ ذہنی کے لئے بیان کر دیا جائے اور یہ واقعہ ایسا واقعہ بھی نہیں کہ جس کو بیان کرکے خطباء اپنی خطابت کا لوہا منوائیں، اور واعظ اپنے وعظ کی دھاک دلوں پر بٹھانے کی کوشش کریں، بلکہ یہ واقعہ اسلامی تعلیمات میں ایک خاص ذخیرے کا اضافہ کرتا اور معجزات کا مجموعہ ہے۔
اے عاشقان رسولﷺ ! واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے محبوب حضرت محمدﷺ کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔ واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال
تفسیر خزائن العرفان میں ہے نبوت کے بارہویں سال رسول اللہﷺ معراج سے نوازے گئے لیکن مہینوں کی تاریخ میں اختلاف نہیں ہے تاریخ ۲۷ رجب المرجب ہے
اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔
معراج النبوہ
انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیں۔
قربان میں شان عظمت پر، سوئے ہیں چین سے بستر پر
جبرائیل امین حاضر ہو کر معراج کا مثردہ سناتے ہیں
جہاں ماہ نبوت حضرت محمدﷺ محو خواب ہیں حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یاجبریل قبل قدمیہ اے جبریل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔ اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ حضرت محمدﷺ کے پائے ناز سے مس کردیئے۔
یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا جب جبریل امین علیہ السلام نے فخر کائنات حضرت محمدﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضورﷺ بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟ عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ! خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
ان الله اشتاق الی لقائک يارسول الله
’’یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے‘‘
حضورﷺ تشریف لے چلئے زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔
معراج النبوۃ
رسول اللہﷺ حطیم کعبہ میں کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اور آپﷺ پر اونگھ کا اثر باقی تھا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس بار انہوں نے آپﷺ کے سینہ مبارک ہو ہنسلی ہڈی سے لے کر پیٹ کے نیچے تک چاک کیا اور قلب اطہر کو باہر نکال لیا پھر ایمان و حکمت سے بھرا سونا کا ایک طشت لایا گیا حضرت جبرائیل نے پیارے آقاﷺ کے قلب اطہر کو آب زم زم سے غسل دیا اور پھر ایمان حکمت سے بھر کر واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب المعراج، ۹۷۶
سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے، پھر آپﷺ کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔
علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
شب معراج حضرت محمدﷺ کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے کا تیار کیا ہوا تھا۔ چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے اردگرد کھڑے تھے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت محمدﷺ کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا۔
معارج النبوة، صفحة،۶۰۱
رسول اللہﷺ نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دور کاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔
چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرور کونین حضرت محمدﷺ براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔
حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضورﷺ کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔
معارج النبوة، ص۶۰۶
فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور حضرت محمدﷺ نے سفر کا آغاز کیا ۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
ترجمۂ کنز الایمان:پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصی تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
سورہ بنی اسرائیل، ایت۱
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آپﷺ حرم کعبہ سے بیت المقدس تک اس شان سے سفر کیا جیسے چودھویں رات کا چاند سخت تاریک رات کے اندھیروں میں نور بکھیرتا ہوا چلتا ہے۔
اور اس کے مسجد الاقصیٰ میں رسول اللہﷺ نے تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی جس میں تمام انبیاء کرام موجود تھے۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بیت المقدس میں تمام انبیاء و رسل نے آپﷺ کو آگے کیا جیسے مخدوم اپنے خادموں کے آگے ہوتا ہے۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر، عیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھےحاضر،جو سلطنت آگے کر گئے تھے
پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے باری باری تمام آسمانوں کے دروازے کھلوائے، پہلے آسمان پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضور اقدسﷺکی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوئے، انہوں نے حضور انورﷺ کی عزت و تکریم کی اور تشریف آوری کی مبارک بادیں دیں ،حتّٰی کہ نبی اکرمﷺ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرماتے پھر آپﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ان سب مقاموں میں مقام بیت لمعمور بھی ہے
حضورِ اَقدسﷺ نے بیتُ المعمور کو ملاحظہ فرمایا
حدیث ِمعراج میں صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ تاجدارِ رسالتﷺ نے معراج کی رات ساتویں آسمان میں بیتُ المعمور کو ملاحظہ فرمایا تھا، چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے
سیّد المرسَلین ﷺنے ارشاد فرمایا
’’پھر میرے لئے بیتُ المعمور ظاہر فرمایا گیا ، میں نے جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا :یہ بیتُ المعمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں، جب وہ پڑھ کر نکل جاتے ہیں تو ان کی پھر کبھی باری نہیں آتی۔
بخاری،کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ،۲ / ۳۸۰،الحدیث: ۳۲۰۷، مسلم، کتاب الایمان، باب الاسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السموات الخ، ص۱۰۱، الحدیث: ۲۶۴/۱۶۴
اس کے بعد پھرﷺ سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لارہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمال محمدﷺ کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔
درمنشور، جلد۶، ص۱۲۶
اس مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ ﷺ! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔
اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی فرماتے ہیں
خلق سے اولیاء، اولیاء سے رُسل
اور رسولوں سے اعلی ہمارا نبی
سبحان اللہ! حضورﷺکی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضورﷺ کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضورﷺارشاد فرماتے ہیں
اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضورﷺ یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضورﷺکا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔
روح البيان، جلد خامس، صفحة: ۲۲۱
رسول اللہﷺ جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔
مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضوﷺ عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے۔
اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے
وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى
سورہ نجم، آیت۷ تا ۹
ترجمۂ کنز الایمان
پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اتر آیا۔ تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔
تفسیر صراط الجنان
{ ثُمَّ دَنَا: پھر وہ قریب ہوا} کون کس کے قریب ہوا اس کے بارے میں مفسرین کے کئی قول ہیں
اس سے تاجدارِ رسالتﷺکا اللہ تعالیٰ کے قرب سے مُشَرَّف ہونا مراد ہے اور آیت میں قریب ہونے سے حضورِ انورﷺکا اوپر چڑھنا اور ملاقات کرنا مراد ہے اور اتر آنے سے نازل ہونا، لوٹ آنا مراد ہے ۔ اس قول کے مطابق آیت کا حاصلِ معنی یہ ہے کہ نبی اکرمﷺاللہ تعالیٰ کے قرب میں باریاب ہوئے پھر وصال کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ رَبُّ اْلعِزَّت اپنے لطف و رحمت کے ساتھ اپنے حبیبﷺسے قریب ہوا اور اس قرب میں زیادتی فرمائی۔
اور ایک قول صحیح تر ہے اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا
اور جَبَّارْ رَبُّ الْعِزَّتْ قریب ہوا۔
بخاری، کتاب التوحید، باب قولہ تعالی: وکلّم اللّٰہ موسی تکیلماً، ۴ / ۵۸۰، الحدیث: ۷۵۱۷
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے مشہور کلام ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ میں اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں
پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقی افزا دَنٰی تَدَلّٰے کے سلسلے تھے
ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تَمَوُّجِ بحرِ ہو میں اُبھرا
دَنیٰ کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگراٹھا دیے تھے
اٹھے جو قصرِدنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
{ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى: تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا}
اس آیت میں مذکور لفظِ ’’قَوْسَیْنِ‘‘ کا ایک معنی ہے دو ہاتھ (یعنی دو شرعی گز) اور ایک معنی ہے دو کمانیں ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبریل اورتاجدارِ رسالت ﷺ کے درمیان اتنا قرب ہوا کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اللہ تعالیٰ کے محبوبﷺ کے درمیان اتنی نزدیکی ہوئی کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
تفسیر قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۶۶، ۶۸، الجزء السابع عشر
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں
فاصلے کی یہ مقدار بتانے میں انتہائی قرب کی طرف اشارہ ہے کہ قرب اپنے کمال کو پہنچا اور باادب اَحباب میں جو نزدیکی تصوُّر کی جاسکتی ہے وہ اپنی انتہاء کو پہنچی۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم ﷺکی اس قدر قُربت سے معلوم ہوا کہ جوتاجدارِ رسالت ﷺکی بارگاہ میں مقبول ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی مقبول ہے اور جو آپﷺ کی بارگاہ سے مَردُود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بھی مردود ہے۔
روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۹
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اس دَر سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر رازو نیاز کی گفتگو ہوئی۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالیٰ اور حضورﷺ ہی کو ہے۔
رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا
رايت ربی فی احسن صورة فوضع کفه بين کتفی فوجدت بردها
میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا
مشکوٰة شريف صفحة: ۲۸
ایک موقع پر مزید ارشاد نبویﷺہوتا ہے
رايت ربی بعينی وقلبی
’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘
مسلم شريف
دیدار الہٰی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا
فخاطبنی ربی ورايتة بعينی بصری فاوحی
’’میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی‘‘
صاوی صفحة: ۳۲۸
فخر دو عالم حضرت محمّدﷺکو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے
پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔
دوسر اتحفہ یہ دیا گیا کہ امت محمدیہ میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔
تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبیﷺ واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضورﷺ نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ بھار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اللہﷺحضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا‘‘
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضورﷺ براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔
تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه:۳۲
اس کے بعد جب رسول اللہﷺ واپس تشریف لائے تو جس گرم بستر سے آپ روانہ ہوئے وہ واپسی پر اسی طرح گرم تھا اور جس درخت کی ٹہنی سے جاتے ہوئے آپ کا عمامہ مبارکہ ٹکرایا وہ ہل رہی تھی اور جس پانی سے وضو ہوا وہ اچھی طرح بھی نہ بہا تھا۔
تفسیر روح البیان
واقعہ معراج نبی پاک کے معجزات میں سے ایک اہم معجزہ ہے جس کا سارا سفر رب تعالیٰ سے دیدار اور انوار و تجلیات کا مرکز و محور ہے اور امت محمدیہ کے لیے رب تعالیٰ کی طرف بہت سی عنایات کی گئی ہیں جس کو ان چند الفاظ میں نہیں سمٹا جا سکتا، اللہ پاک کی طرف سے مختلف معجزے رسول اللہﷺ کو عطا کئے گئے، انہیں میں سے اسی طرح کا ایک معجزہ معراجؐ نبوی ہے۔
جس کے اندر رسول اللہ کو کئی اور معجزات عطا کئے گئے اور فیوض و کمالات سے نوازا۔رسول اللہﷺ کے وسیلہ ہماری واقعہ معراج پر لکھنے کی کوشش قبول فرمائے۔
آخر پر امیر اہلسنت مولانا الیاس عطار قادری کا کلام
ہیں صف آرا سب حور و ملک اور غلماں خلد سجاتے ہیں
اک دھوم ہے عرشِ اعظم پر مہمان خدا کے آتے ہیں
ہے آج فلک روشن روشن، ہیں تارے بھی جگمگ جگمگ
محبوب خدا کے آتے ہیں محبوب خدا کے آتے ہیں
قربان میں شان وعظمت پر سوئے ہیں چین سے بستر پر
جبریل امیں حاضر ہو کر معراج کا مژدہ سناتے ہیں
جبریل امین براق لئے جنت سے زمین پر آ پہنچے
بارات فرشتوں کی آئی معراج کو دولہا جاتے ہیں
ہے خلد کا جوڑا زیب بدن رحمت کا سجا سہرا سر پر
کیا خوب سہانا ہے منظر معراج کو دولہا جاتے ہیں
ہے خوب فضا مہکی مہکی چلتی ہے ٹھنڈی ٹھنڈی
ہر سمت سماں ہے نورانی معراج کو دولہا جاتے ہیں
یہ عز و جلال اللہ اللہ یہ اَوْج و کمال اللہ اللہ
یہ حسن و جمال اللہ اللہ معراج کو دولہا جاتے ہیں
دیوانو! تصور میں دیکھو! اسریٰ کے دولہا کا جلوہ
جھرمٹ میں ملائکہ لیکر انہیں معراج کا دولہا بناتے ہیں
اقصیٰ میں سواری جب پہنچی جبریل نے بڑھ کے کہی تکبیر
نبیوں کی امامت اب بڑھ کر سلطانِ جہاں فرماتے ہیں
وہ کیا حسیں منظر ہو گا جب دولہا بنا سرور ہو گا
عشاق تصور کر کر کے بس روتے ہی رہ جاتے ہیں
یہ شاہ نے پائی سعادت ہے خالق نے عطا کی زیارت ہے
جب ایک تجلی پڑتی ہے موسیٰ تو غش کھا جاتے ہیں
جبریل ٹھہر کر سدرہ پر بولے جو بڑھے ہم ایک قدم
جل جائیں گے سارے بال و پر اب ہم تو یہیں رہ جاتے ہیں
اللہ کی رحمت سے سرور جا پہنچے دنا کی منزل پر
اللہ کا جلوہ بھی دیکھا دیدار کی لذت پاتے ہیں
معراج کی شب تو یاد رکھا پھر حشر میں کیسے بھولیں گے
عطار اسی امید پہ ہم دن اپنے گزارے جاتے ہیں
مجموعہ کلام بنام: وسائل بخشش، صفحہ۲۸۶
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی