قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمیعت تیری

Article by Jawad Hassan
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یوں تو دو قومی نظریہ کی بنیاد 1867ء میں ہونے والے ہندی اردو تنازعہ کو سمجھا جاتا ہے جب سر سید احمد خان نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں “ایک ہندو اور ایک مسلم” اور مسلمان اپنی الگ شناخت اور حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن دو قومی نظریہ کی بنیاد در حقیقت حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے رکھی جب ہندو، اکبر بادشاہ کے ذریعے دین اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے تب حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اعلی کردار ادا کیا اور ہندو سازشوں کو ناکام کیا ۔ نوائے وقت کے ایک کالمسٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپور شریف صاحبزادہ میاں ولید احمد جواد شرقپوری کا کہنا تھا کہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ دوقومی نظریے کے بانی ہیں ۔ برصغیر میں رونما والے بعد کے حالت و واقعات انکی دور اندیشی کو ثابت کرتے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد ہرگز ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔
سرسید نے 1867ء میں دو قومی نظریہ پیش کیا جس کو پیش کرنے کی بنیاد 1867ء میں شروع ہونے والا اردو ہندی لسانی تنازعہ تھا۔ دو قومی نظریہ سے مُراد یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں رہتی ہیں۔ یہ دونوں قومیں صدیوں تک ایک ساتھ رہی ہیں۔ لیکن اپنے مخصوص مذہبی اور منفرد معاشرتی نظاموں کی وجہ سے باہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہو سکیں۔ بعد اذاہ یہی دو قومی نظریہ نظریہ پاکستان کی بنیاد بنا۔
پندرہ نومبر 1942 میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآنِ کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمداللہ قرآنِ مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔
قائداعظم نے فرمایا کہ
”ہم نے پاکستان کا مطالبہ صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا۔ بلکہ ہم ایک ایسی پناہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلام کے اصولوں لاگو کر سکیں۔“
الہ آباد 1930ء میں خطاب کرتے ہوئے مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فرمایا
یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے، ریاست اور کلیسا جُدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اسلام ایک وحدت ہے جس میں ایسی کوئی تفریق نہیں۔ اسلام چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمیعت کا ہے مُلک و نسب پہ انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمیعت تیری
ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان دوسرا مُلک ہے جو خالیصتاً کلمے کی بنیاد پر بنا ہے۔ جس مُلک کی بنیادوں میں لاکھوں حُفاظِ اکرام، علماء اکرام اور عام فہم لوگوں کا پاک خون شامِل ہے۔ برصغیر کے جید علماء نے قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ الله علیہ کی آواز پر لبیک کہا اور قائد کے کندھے سے کندھا مِلا کر پاکستان کی آزادی کی کوشیشوں میں ہر اول دستے کی طرح کام کیا۔ یہاں تک کہ علماء اکرام کو توپوں کے مُنہ پر باندھ کر شہید کیا گیا تو کبھی کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر شہید کر دیا گیا۔ اور ہر طرف ایک ہی نعرہ گھونجتا رہا۔
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الااللہ
اِن لاکھوں قربانیوں کی بدولت اُس پاک خون کی وجہ سے آج آپ اور میں پاکستان جیسے پاک اور عظیم مُلک میں بیٹھ کر اپنی اسلامی رِوایات پر چل رہے ہیں۔ ہمارے اصلاف نے اپنا سب کچھ صرف اور صرف اس لیے قربان کیا تا کہ اُن کی آنے والی نسلیں ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست میں آزادانہ طور پر اپنی عبادات کر سکیں۔ یہ تھا پاکستان بنانے کا نظریہ یہ تھا پاکستان لینے کا مقصد۔
ہوئی دین و دولت سے جس دم جُدائی
ہوس کی اسیری ہوس کی وزیری
مگر آج جب بھی میرے مُلکِ پاکستان کے حکومت کا ایک نمائندہ ایک وزیر جب بھی اپنا مُنہ کھولتا ہے تو دِل دُکھاتا ہے اور فتنے کہ بنا کچھ نہیں بولتا۔ اُس کی اِن بکواسات کو سُن کر اقبال و قائد کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی اور وہ بھی افسوس کر رہے ہوں گے کہ آج کا پاکستان کن جاہل، نا اہل اور حوس کے پجاریوں کے ہاتھوں میں ہے۔ آج ان علماء، حفاظِ اکرام اور محبِ وطن پاکستانیوں کی روحیں آج شدتِ غم سے تڑپ اُٹھی ہوں گی۔ وہ بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ ہم نے جس اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اپنا تن، من اور دھن قربان کر دیا آج اُسی پیارے پاکستان میں حکومت کے نمائندے اُٹھ کر اسلام کے بارے بکواس کرتے ہیں اور اپنے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو لغویات بکتے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔
آج میرا عام فہم محبِ وطن پاکستانی سے سوال ہے کہ آپ دیکھیے کہ آپ کن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں؟
تحریر: جواد حسن