قوم کا حقیقی راہنما کون؟
Article by Bint E Hassan
ہمارے ہاں آج کل سیاسی افق پر بڑی ہلچل ہو رہی ہے، سیاسی پارٹیوں کے قائد کہیں جلسوں تو کہیں طلبہ کانفرنس میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں ان سب میں افق پر ایک چمکتا تارہ بامِ فلک پر جگمگ کر رہا ہے؛ زندگی کے ہر شعبے میں وہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے کوئی ایسا میدان نہیں جو اس کے قدموں کی دھول نہ بن رہا ہو؛ بظاہر وہ ایک مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں، حافظ قرآن ہیں اور درس نظامی مکمل کر چکے ہیں؛ آپ سمجھ چکے ہوں گے بات کن کی ہو رہی ہے جی بالکل تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی امیر علامہ حافظ سعد حسین رضوی صاحب ۔”
26ستمبر 2022 بروز پیر راولپنڈی میں ایک سائنس فیسٹیول منعقد کیا گیا ۔” جس میں بطورِ خصوصی مہمان”، مرکزی امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی صاحب کو مدعو کیا گیا۔
اسی دن دوسری طرف لاہور جی سی یونیورسٹی میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں سابق وزیراعظم عمران خان مدعو تھا۔
ایک طرف ایک مدرسے کا پڑھ لکھا جوان خطاب کر رہا تھا جن کے بارے میں عموماٙٙ ہر عام وخاص کی رائے یہی ہوتی ہے؛ مولوی طبقہ ہے صرف دینی کتب ہی پڑھا سکتا ہے دینی باتیں ہی کر سکتا ہے ؛ایسے لوگ سیاق و سباق سے نابلد ہوتے ہیں کیوں کہ اسلام مکمل ضابط حیات ہے ۔” مدرسہ سے پڑھے لوگوں کے پاس ہر شعبہ ہائے زندگی کا علم ہوتا ہے۔
دوسری طرف آکسفورڈ سے پڑھا لکھا لیڈر اس ملک و ملت کے جوانوں سے خطاب کر رہا تھا ۔
دونوں خطابات کے چیدہ چیدہ نکات پر روشنی ڈالوں گی ۔ آپ کو واضح ہو جائے گا کہ اس ملک و ملت کو کیسے قائد کی ضرورت ہے؛ایک قوم کا بہترین قائد کیسا ہوتا ہے اور کیسا ہونا چاہئیے۔”
مرکزی امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حیسن رضوی صاحب نے “لبیک سائنس فیسٹیول” کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ؛
کسی بھی شعبے میں اغیار کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑنا۔ اسی لگن اور ولولے سے ہر شعبے میں کام کریں جس لگن اور ولولے کی بدولت پاکستان آج ساری دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے“
انہوں نے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی جا کر جیسے بھی ،کوئی بھی علوم حاصل کریں لیکن تمہیں دیکھنے والا یہ کہے کہ وہ دیکھو محمد عربی ﷺ کا غلام آرہا ہے۔(فرمانِ امیر المجاھدین رحمہ اللّٰہ علیہ)۔ یعنی اپنی روایات اور اپنی اصلیت کو مت چھوڑو اپنی بنیاد کو چھوڑ کر تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
لبیک سائنس فیسٹیول سے خطاب فرماتے ہوئے آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ جدید علم و فن پر زور دیا کوئی میدان خالی نہ چھوڑنے کی تلقین کی یہ بھی واضح کیا جو مرضی بنو سائنسدان ، انجنئیر ، لیکن دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔
ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنا ہے اس کے لیے ہمیں جدید تعلیم کی ضرورت ہے کیوں کہ جب تک ہم جدید علم و فن نہیں سکھیں گے تو کیسے ہم اقوام متحدہ میں بیٹھے چالاک و فاسق لوگوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔
دوسری طرف ایک آکسفورڈ کا پڑھا لکھا لیڈر آج کی نوجوان نسل سے کچھ یوں خطاب کر رہا تھا میرے نزدیک وہ ایک پڑھے لکھے انسان کا خطاب نہیں ؛ وہ محض نوجوان نسل کی ذہن سازی کی جا رہی تھی، انھیں ملک کے حساس اداروں کے خلاف بھڑکایا جا رہا تھا؛ جس میں کالج کے طلبہ کو فساد کے لیے ابھارا جا رہا تھا انھیں ایک غلط راہ کی طرف گامزن کیا جا رہاتھا۔
خطاب شروع ہوتے ہی عمران خان کہتا ہے کہ : میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں اور یہ سوال آپ کا امتحان ہے دیکھتے ہیں اس میں آپ پاس ہوتے ہیں یا نہیں؛
وہ جو امریکہ کے ایمبیسڈر کو بلا کر انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ہٹائیں گے تو پاکستان کے ساتھ امریکہ کا سارا معاملہ چلے گا؛ تو وہ پیغام کس کو دے رہے ہیں؟ یہ سوال کم از کم دو تین مرتبہ دوہرایا گیا کہ وہ پیغام کس کو دے رہے ہیں؟؟ وہ میری حکومت کیسے گرا سکتے ہیں؟ جب کہ ایمبیسڈر تو مجھ سے نیچے ہوتا ہے پھر وہ یہ پیغام کس کو دے رہے ہیں؟
وہاں موجود ہمارے ملک کے مایہ ناز مستقبل کے معماروں نے بلند و بانگ کہنا شروع کیا ۔” !نیوٹرلز نیوٹرلز۔”
اس پر عمران خان کی خوشی سے باچھیں کھل اٹھیں اور کہا کہ آپ پہلے امتحان میں پاس ہو گئے ہیں، باقی کا خطاب بھی مکمل سیاسی مبالغہ آرائی اور قیاس پر مبنی تھا۔
اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کی گئی خطاب میں ایسا ایک نکتہ نہیں جسے اٹھا کر پرکھا جا سکے کہ یہ بات طلبہ کے معیار کی تھی یا یہ خطاب علمی تھا جب کہ محض سیاسی خرافات کی بنیاد پر تھا ۔ عمران خان کا حرف حرف نفرت آمیز ، اشتعال اور ملکی اداروں کے خلاف ہنگامہ آرائی پر مبنی تھا ۔ اقتدار کی ہوس میں پاگل شخص بھول گیا تھا کہ اس کے سامنے اس وقت کسی جلسے کا اسٹیج نہیں بلکہ سامنے پاکستان کا مستقبل بیٹھا ہے جنہیں سیاسی خطاب سے زیادہ علمی خطاب کی ضرورت ہے؛ جنہیں جدید علم و فنون کی ضرورت ہے نہ کہ سیاسی گولہ باردو کی ۔
دوسری طرف ایک حافظ قرآن لیڈر نے منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح خطاب کیا اور ملک و ملت کے روشن مستقبل پر تحقیقاتی نگاہ دوڑائی؛ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے مصورِ پاکستان ڈاکٹر محمد اقبال کی فکر و سوچ کو تعمیری انداز میں بیان کیا اور بتایا کہ علمی محفل میں علم والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔
جوانوں کو جدید علوم سیکھنے اور اسے ملک و ملت کے استعمال میں لانے کی طرف رغبت دلائی؛ سائنس فیسٹیول پر موجود بچوں کے پروجیکٹس دیکھے اور ان کی قابلیت کو سراہا انھیں آگے بڑھنے اور ہر میدان میں ملک و ملت کے نام پر کامیابیاں سمیٹنے کی تلقین کی۔
ایک طرف مرکزی سربراہ تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی صاحب نے لبیک سائنس فیسٹیول نوجوانوں سے خطاب فرمایا جس میں اقبال کی فکر،نظریاتی سوچ اور جدید تعلیم مزید دفاعی لحاظ سے خود کو بہتر بنانے پر حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا؛ جب کہ اس کے برعکس دوسری جانب سابق وزیراعظم سربراہ تحریک انصاف نے جی سی یونیورسٹی لاہور میں علمی میدان میں سیاسی تقریر کی اور فوج مخالف نعرے لگوا کر ثابت کر دیا ہے کہ انھیں ملک و ملت کی نہیں بلکہ صرف اپنے اقتدار کے جانے کا دکھ ہے جو وہ ہر خطاب میں بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں ایک علمی پلیٹ فارم پر سیاسی گفتگو کسی بھی سمجھدار اور شعور رکھنے والے انسان کی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ جوان نسل کو اپنے ہی دفاعی ادراوں کے خلاف کر کے وہ کون سا ملک کا بھلا کر رہا ہے؟ کس لحاظ سے ایسا لیڈر قوم کے حق میں بہتر ہو سکتا ہے؟
حافظ سعد حسین رضوی صاحب نے علمی محفل میں اپنی واہ واہ نہیں کروائی،اپنے نام کےنعرے نہیں لگوائے، نہ ملکی ادراوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی نہ ہی سیاسی خطاب کیا بلکہ محفل کے لحاظ سے مستقبل کے ڈاکٹرز، انجئینرز، پائلٹس، اساتذہ اور ہر طرح کے شعبے سے منسلک طلباء سے خطاب کر کے ان کو آگے بڑھ کر فلک کو چھونے کا حوصلہ دیا انھیں اپنے حصے کی روشنی پھیلانے کی نصیحت کی۔ حافظ صاحب نے ایک بہترین قائد کی حیثیت سے خطاب کیا؛ آپ نے طلباء کے سامنے مسائل کے انبار نہیں لگائے بلکہ ان کے حل بتائے انھیں راستہ دکھایا کہ اس پر چل کر:
چھو لو آسمان
تم ہو پاکستان!
بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا
کچھ سوال آپ کے لیے چھوڑے جا رہی ہوں، اب یہ آپ کو سوچنا ہے کہ ملک و ملت کی بقا چاہنے والا یا ایک علمی بیٹھک میں سیاسی گفگتو کم بلکہ اشتعال انگیز گفگتو کرنے والے کو لیڈر منتخب کرنا ہے؟” جسے یہی ہی نہیں علم کس پلیٹ فارم پر کون سی بات کرنی ہے کیا وہ قوم و ملت کا باوفا لیڈر ہو سکتا ہے؟”
ایک طرف قوم کے معماروں کے اخلاق تباہ کرنے والے دوسری طرف قوم و ملت کو اس کی اصل فکر سمجھانے والا ان کا حقیقی کردار بتانے والا؛ حقیقی لیڈر کون؟” قوم کے ہونہار طلباء کو روشن مستقبل دکھانے والا یا طلباء کی آڑ میں سیاسی اقتدار بچانے والا؟
نوجوانوں کو بیدار کرنے والا لیڈر یا نوجوان کے مسقبل سے کھلواڑ کرنے والا لیڈر؟”
تحریر : بنت حسن