حکومت اقلیتوں کے تحفظ کی ضامن مگر اکثریت کے حقوق؟

Article By Ehsan Shahani
نگران حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اقلیتیوں کو تنگ کرنے والوں کے خلاف اور ریاست کو جتھوں کے زریعے بلیک میل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے , وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے پریس کانفرنس کرکے کارروائی کا عندیہ دیا۔ یاد رہے ان دونوں شخصیات نے تحریک لبیک کے خلاف اشارہ دیا ہے۔
واضح رہے تحریک لبیک کو کسی اقلیت سے کوئی خطرہ نہیں ہےاور نا ہی کسی اقلیت کےلیے تحریک لبیک خطرہ ہے, چاہے وہ سکھ ہو یہودی ہو یا عیسائی ہو , بلکہ تحریک لبیک کا ایک اقلیتی ونگ بنا ہوا ہے اور اسکا سربراہ بھی مقرر کیا ہوا ہے اور عیسائیوں کا ایک بڑا گروپ تحریک لبیک کو سپورٹ کرتا ہے اور تحریک لبیک نے بھی ہر قسم کی مشکلات میں اقلیتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی جو ختم نبوتﷺ کے منکر ہیں اور وہ رسولﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتے اور وہ اپنے کذاب مرزا غلام احمد قادیانی کو نعوزباللہ نبی مانتے ہیں , یاد رہے یہ وہی مرزا قادیانی ہے جسکا مقابلہ پیر مہر علی شاہ ؒ نے کیا تھا اور مرزا کذاب مقابلے سے بھاگ گیا اور بعد میں لیٹرین میں واصل جہنم ہوا اور اس فتنے کی پیدوار برصغیر میں انگریزوں نے مسلمانوں کے درمیان فساد پیھلانے کےلیے رکھی تھی۔
انیس سو تہتر تکے آئین کے تحت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن(298 سی) اور(298 بی) کے تحت اور قادیانی اپنی عبادت گاہ نہیں بنا سکتے, قادیانی اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتے اور نا اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتے ہیں , اسکے علاوہ ازان بھی نہیں دے سکتے اور نا خود کو مسلمان کہلوا سکتے ہیں ,جبکہ 7 ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی میں ایک تاریخ ساز قرار داد منظور ہوچکی ہے جس میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا اور قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا گیا ۔
عمران خان کے دور میں قادیانیت نے بھرپور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اپنے عبادت خانے بناتے رہے لیکن اب تحریک لبیک نے آئین و قانون کے تحت قادیانیوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا ہے اور آئین کے تحت ہی انکی عبادت گاہوں کے مینار کو گرا رہے ہیں اور اُدھر سے یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھ دی ہے کہ جب تک قادیانیوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہونگی تب تک پاکستان کو 20 کروڑ ڈالر کی قسط جاری نہیں کریں گے , اس لیے حکومت اقلیت کی آڑ میں قادیانیوں کو تحفظ دینے کےلیے تحریک لبیک کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے 2017 میں قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے کےلیے نواز شریف حکومت ختم نبوتﷺ کے حلف نامے میں کو چھیڑا اور قادیانیوں کو سہولت دینے کی کوشش کی گئی جس کے بعد تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی ؒ نے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا اور ختم نبوت کی شق کو واپس بحال کروایا , اس دھرنے کو ختم کرنے کےلیے حکومت نے سخت آپریشن کیا, ہزاروں کی تعداد میں شیلنگ اور گولیاں چلائیں جس سے تحریک لبیک کے 8 کارکنان شہید ہوگئے۔ اور اس کے علاوہ ناموس رسالت کےلیے فرانس کے خلاف احتجاج کرنے پر بھی عمران خان کی حکومت میں تحریک لبیک جماعت کو کالعدم کیا گیا اور 50 کے قریب کارکنان کو بھی شہید کیا گیا۔
اس لیے اب حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور یہودو نصاریٰ کی خواہشات پر اپنے لوگوں پر زمین تنگ نا کرے اور ختم نبوتﷺ جیسے حساس مسئلے پر کسی قسم کا سمجھوتا نا کرے اور آئی ایم ایف اور قادیانیوں کو شٹ اپ کال دے کہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد ہے اور کسی قسم کی خواہشات کو پورا نہیں کیا جائے گا, اگر قادیانیوں کو خوش رکھنے کےلیے آئین سے چھیڑ چھاڑ کی گئی یا تحریک لبیک کے خلاف کارروائی کی گئی تو پھر ختم نبوت کی ایسی تحریک چلے گی جیسے 2017 میں حکومت کے خلاف چلی تھی, اس لیے حکومت خبردار رہے ورنہ مذہبی جماعتیں اور علماء کی طرف سے سخت ردعمل دیا جائے گا اور نگران حکومت کے وزراء کےلیے باہر سڑکوں پر نکلنا مشکل ہوجائے گا۔
تحریر:احسان شہانی