کیا اسلام صرف دفاعی جہاد کا قائل ہے؟
Article by Mian MuQarrab NaQshbandi
آج دین اسلام کے احمق خیرخواہ کفار و مشرکین کی باتوں میں آکر اہل اسلام کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جہاد کا نام تک نہ لیں اور مختلف طریقوں سے ان کو جہاد سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال یہ بھی ہے کہ اسلام تو صرف جہاد دفاعی کی اجازت دیتا ہے اور حضور تاجدار ختم نبوتﷺ نے جتنے بھی معرکے سرکئے ہیں وہ سب کے سب دفاعی تھے ان میں کوئی بھی اقدامی نہ تھا۔
ایسے لوگوں کے جواب میں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ منسوخ ہے پہلے مسلمانوں کو صرف جوابی حملہ کرنے کی اجازت دی گئی اور پھر ابتدائی حملہ کی بھی اجازت مل گئی۔ مرزائی اتنا نہیں سمجھتے کہ سوائے جنگ احد اور خندق کے باقی تمام غزوات میں حضور تاجدار ختم نبوتﷺ نے ہی کفار پر حملے کئے ہیں۔ بدروحنین ، فتح مکہ مکرمہ میں کفار نے اولاً حملہ نہیں کیا تھا ، نیز حضرت سیدنا عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جنگ قادسیہ و یرموک وغیرہ میں بھی مسلمانوں ہی نے کفار پر حملے کئے ، کیا یہ جنگیں ناجائز ہوئیں۔ نیز یہ کون سی عقلمندی ہے کہ کفار کو جنگ کی تیاری کی مہلت دے دو جب وہ پیٹنے لگیں سربچا لو ضروری ہےکہ جس قوم سے جنگ کا خطرہ ہو اس کی سرکوبی کرکے جنگ کے قابل نہ رکھا جائے ، بیچارے مرزائی جہاد کے راز کیا جانیں۔ جن کے نبی ملعون کی نبوت دوسروں کے زیر سایہ پھلی پھولی ہو جہاد مردوں کا کام ہے۔ سانپ کو کاٹنے کا موقع مت دو پہلے ہی اسے ماردو۔
(تفسیر نعیمی از مفتی احمد یار خان ٢٤٧:٢)
تحریر: میاں مقرب نقشبندی