توہین مذہب اور بلاد و اقوام عالم
Article by Qazi Salman Farsi
خالق کائنات اللہ رب العزت جل جلالہ عم نوالہ واتم برہانہ وعز اسمہ واعظم شانہ وجل مجدہ نے اس عظیم کائنات کو تخلیق کیا۔ اور اپنی افضل المخلوقات، اشرف المخلوقات (تخلیق) “انسان” کو اس کائنات میں اپنی بندگی اور اطاعت کے لیے مبعوث فرمایا۔ جب اپنی شان ربوبیت و الوہیت کے جلوے دکھانے چاہے تو مظاہر قدرت کو تخلیق کرکے انسان کو اس میں تدبر کرنے کی صلاحیت دی۔ اور اس کے اندر مادہ فطرت کو ودیعت کردیا تاکہ خدا شناسی اور معرفت تک رسائی میں اسے آسانی ہو۔ مگر پھر بھی انسان اگر ضلالتوں اور گمراہیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں غرق جاتا تو مآل کار خدائے رحمان ورحیم اپنی مخلوق پر رحم وکرم کرتے ہوئے ان میں اپنے برگزیدہ پیغمبر کو مبعوث فرماتا تاکہ ان نافرمان بندوں کو دوبارہ راہ راست پر لانے کا فریضہ سر انجام دے جس سے خالق سے منقطع قلوب کا تعلق ایک بار پھر سے قائم ہوجائے۔ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000) انبیائے کرام اسی فریضہء منصبی کو ادا کرنے کے لیے اس جہاں میں مبعوث ہوئے۔ جن میں سب سے آخر میں خاتم النبیین بن کر جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ تشریف لائے۔ اکثر انبیائے کرام کا تعلق کسی خاص قبیلے سے ہوتا۔ بعض کا تعلق کسی قوم سے ہوتا۔ کچھ کسی مخصوص علاقے میں مبعوث کیے جاتے۔ کوئی خطہ کسی نبی کے زمہ لگادیا جاتا۔ کسی کو ایک ملک کے لئیے نبی بنا کر بھیجا جاتا۔ کوئی بھی پوری عالم انسانیت کے لئیے مبعوث نہیں ہوا۔ کبھی دو تین انبیائے کرام علیہم السلام ایک ہی وقت میں مبعوث ہوتے۔ لیکن 1400سال پہلے جس ہستی کی بعثت ہوئی وہ ہستی پوری عالم انسانیت کو کفر سے نکالنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ عالمین کے لیے رحمت بن کر ائے۔ ہر ہر فرد کے لیے نبی بن کر آئے۔ جو نبی عالم انسانیت کے لئیے سراپا جود و سخا ہو۔ سراپا رحیم وکریم ہو تو اس کی عظمت و رفعت بھی اتنی ہی عظیم ہوگی۔ آپ کو اسی لیے “خاتم النبیین” بنا کر بھیجا گیا اب آپ کے بعد نا کسی نبی کی کوئی ضرورت ہے نا ہی کسی رسول کی ان کے بعد نبوت ورسالت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا یے۔ اب قیامت آئے گی۔
انسانیت کو کفر کے سمندر سے نکالنے والے مصلحین “انبیاء کرام علیہم السلام” کی عزت وتکریم ہم پر لازم تھی۔ ان کی عظمت و رفعت کا ہمیں شعور تک نہیں نا ہی ہمارے اذہان ان کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایسے بدبخت بھی گزرے ہیں تاریخ انسانی کے سیاہ صحیفوں کے ورقوں میں جنہوں نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی تکذیب کی۔ کچھ نامرادوں نے ان پر طرح طرح کے ظلم کیے۔ اور دل دہل جاتا ہے جب ہمیں اس سیاہ کن تاریخ میں صفحہ قرطاس پر یہ بھی ملتا ہے کہ ان خنزیروں نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے آباء و اجداد کے دین کی خاطر شہید تک کردیا۔ ان کے مقدر پہ تُف ہے۔ جن کے پاس نور آیا پر قدر نہ کرسکے۔ اللہ رب العزت کی حیاء اور غیرت نے اس بات کو گوارا نہ کیا اور ان قوموں کو زیر وزبر کر کے رکھ دیا۔ زمین سے اٹھا کر فلک تک لے جاکر ان کو اوندھے منہ ادھیڑ دیا۔ غضبناک سیلاب آئے زلزلے آئے ان پر۔ اور جب کوئی ایسی بکواس کرتا اس کی زبانیں شل ہوجاتیں۔ وہ تباہ وبرباد ہوجاتے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری و ساری ہے جب آخر میں سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو یہود و نصاری نے بھی آپ کی تکذیب وتضحیک کی۔ ناصرف یہ بلکہ طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ تو خدائے رب العالمین نے پھر وہی احکامات نازل فرما دئیے جو سابقہ امم میں تھے کہ اگر کسی نے انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں ذرے برابر اونچ نیچ کی تو اس کا سر قلم کردیا جائے۔
آپ سے پہلے تمام گزشتہ امتوں میں یہی قانون رائج رہا تھا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ صرف نسب کی وجہ سے حسد کرتے ہوئے آج بھی یہود و نصارٰی پیغمبر اسلام کی تضحیک (کرنے کی کوشش) کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان کی امتوں میں بھی سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام تک یہی قانون موجود تھا۔ مگر اس کو یہ اب قبول کرنے کے بجائے اپنی کتابوں سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔
“شریعت موسوی اور توہین مذہب”
بائبل کے اندر توہین مذہب کی سخت ترین سزا مقرر کی ہوئی ہے۔ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کو کتاب نازل ہوئی عہد نامہ قدیم (Old Testament) اس میں آج بھی یہ موجود ہے جب بنی اسرائیل والوں نے خدائے ذوالجلال کی توہین کرنے کی جسارت کی تو ان کو بھی کوئی معافی نہیں دی گئی:
بائبل کی آیات:
تب خداوند نے موسی سے کہا کہ۔
And the LORD spake unto Moses, saying,
اس لعنت کرنے والے کو لشکر گاہ کے باہر نکالکر لے جا اور جتنوں نے اسے لعنت کرتے سنا وہ سب اپنے اپنے ہاتھ اسکے سر پر رکھیں اور ساری جماعت اسے سنگسار کرے۔
Bring forth him that hath cursed without the camp; and let all that heard him lay their hands upon his head, and let all the congregation stone him.
اور تو بنی اسرائیل سے کہہ دے کہ جو کوئی اپنے خدا پر لعنت کرے اسکا گناہ اسی کے سرلگیگا۔
And thou shalt speak unto the children of Israel, saying, Whosoever curseth his God shall bear his sin.
اور وہ جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور
جان سے مارا جائے۔
And he that blasphemeth the name of the LORD, he shall surely be put to death, and all the congregation shall certainly stone him: as well the stranger, as he that is born in the land, when he blasphemeth the name of the Lord, shall be put to death.
(بائبل، عہد نامہ قدیم، کتاب احبار، باب:24 آیات:13_16)
(Bible, Old Testament, book: Liviticus, Chapter:24 verse:13_16)
اس میں “توہین مذہب” کرنے والوں پر براہ راست قتل کر دینے کے احکامات کا نازل ہونا واضح طور پر موجود ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ کئی اور مقامات پر بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر آیات نازل ہوئیں ہیں۔ مثلا: استثناء کے اندر موجود ہے:
اور اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے کہ اُس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے یا اُس قاضی کا کہا نہ سُنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے اور تُو اسرائیل میں سے ایسی بُرائی کو دور کر دینا ۔
And the man that will do presumptuously, and will not hearken unto the priest that standeth to minister there before the LORD thy God, or unto the judge, even that man shall die: and thou shalt put away the evil from Israel.
اور سب لو گ سُن کر ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے ۔
And all the people shall hear, and fear, and do no more presumptuously.
(بائبل، عہد نامہ قدیم، کتاب استثناء، باب:17، آیت:12_13)
(Bible, Old Testament, Book: Deuteronomy, Chapter:17, Verse:12_13)
یہاں بھی واضح طور پر “توہین مذہب” کے مرتکب کو مارے ڈالے جانے کے احکامات موجود ہیں۔
مزید عہد نامہ قدیم میں ہی خدا کی توہین کرنے والوں کے خلاف حکم موجود ہے کہ:
اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ لو گ کب تک میری توہین کرتے رہیں گے؟ اور باوجودان سب معجزوں کے جو میں نے ان کے درمیان کیے ہیں کب تک مجھ پر ایمان نہیں لائیں گے ؟
And the LORD said unto Moses, How long will this people provoke me? and how long will it be ere they believe me, for all the signs which I have shewed among them?
میں انکو وبا سے ماروں گا اور میراث سے خارج کروں گا اور اور تجھے ایک ایسی قوم بناؤں گا جو ان سے کہیں بڑی اور زور آور ہو
I will smite them with the pestilence, and disinherit them, and will make of thee a greater nation and mightier than they.
(بائبل، عہد نامہ قدیم، کتاب: گنتی، باب:14 م، آیت:11_12)
(Bible, Book: Numbers, Chapter:14, Verse:11_12)
اللہ اکبر۔ یہاں خدائے ذوالجلال اپنی نافرمانی اور توہین کرنے والوں پر غضب کا اظہار کررہا ہے۔ خدا کی نافرمانی حقیقت ہے۔ مگر اس کا مظہر انبیاء علیھم السلام ہیں۔ انبیاء علیھم السلام کی نافرمانی حقیقت میں خدا کی نافرمانی ہے۔ ان کی توہین خدا کی توہین ہے اس لیے خداوند عالم نے اپنی طرف سے اس کی سزا مقرر فرما دی۔
“شریعت عیسوی اور توہین مذہب”
اسی طرح یہی شرعی حکم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بھی جاری رہا۔ کہ عام انسان کی توہین کی تو الگ بات ہے۔ جرمانہ ہوسکتا ہے مگر پاک ہستیوں کی توہین کرنے کی جسارت کی تو اس پر معافی نہ دینے کے حوالے سے بائبل میں موجود ہے:
اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ آدمِیوں کا ہر گُناہ اور کُفر تو مُعاف کِیا جائے گا مگر جو کُفر رُوح کے حق میں ہو وہ مُعاف نہ کِیا جائے گا۔
Wherefore I say unto you, All manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men: but the blasphemy against the Holy Ghost shall not be forgiven unto men.
اور جو کوئی اِبنِ آدم کے بَرخِلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اُسے مُعاف کی جائے گی مگر جو کوئی رُوح اُلقدُس کے بَرخِلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالم میں نہ آنے والے میں۔
And whosoever speaketh a word against the Son of man, it shall be forgiven him: but whosoever speaketh against the Holy Ghost, it shall not be forgiven him, neither in this world, neither in the world to come.
(بائبل، عہد نامہ جدید، کتاب:متی، باب:12 آیت:31_32)
(Bible, New Testament, Book: Matthew, Chapter:12 verse:31_32)
یہاں واضح طور پر حکم موجود ہے کہ پاک ہستیوں کا عام انسانوں جیسا مقام ہرگز نہیں۔ بلکہ ان کا مقام بہت اعلی و ارفع ہے ان کی توہین کرنے والے کی معافی قبول نہیں کی جائے گی۔ بلکہ اس کو لازمی طور پر سزاء دی جائے گی۔
اسی طرح مرقس میں بھی گستاخ کو معافی نہ دیے جانے کے حوالے سے یہی موجود ہے کہ:
لیکِن جو کوئی رُوحُ القُدس کے حق میں کُفر بکے وہ ابد تک مُعافی نہ پائے گا بلکہ ابدی گُناہ کا قُصُور وار ہے۔
But he that shall blaspheme against the Holy Ghost hath never forgiveness, but is in danger of eternal damnation:
(بائبل، عہد نامہ جدید، کتاب:مرقس، باب:3، آیت:29)
(Bible, New Testament, Book: Luke, Chapter:3 Verse:29)
یہاں بھی واضح طور پر موجود ہے کہ گستاخ کی کوئی معافی نہیں۔ اور سزا وہی ہوگی جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور میں موجود تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اس پر کوئی نیا حکم نہیں فرمایا۔ بلکہ اسی سزا کو جاتی رکھا تھا۔ اسی طرح لوقا میں بھی موجود ہے :
اور جو کوئی اِبنِ آدم کے خِلاف کوئی بات کہے اُس کو مُعاف کِیا جائے گا لیکِن جو رُوحُ القُدس کے حق میں کُفر بکے اُس کو مُعاف نہ کِیا جائے گا۔
And whosoever shall speak a word against the Son of man, it shall be forgiven him: but unto him that blasphemeth against the Holy Ghost it shall not be forgiven.
(بائبل، عہد نامہ جدید، کتاب: لوقا، باب:12 آیت:10)
(Bible, New Testament, Book: Luke, Chapter:12 Verse:10)
یہ ہم نے بطور نمونہ چند آیات پیش کی ہیں۔ جن سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں توہین آمیز حرکات کرنے والوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہ رہا بلکہ ان پر ایک ہی سزا تھی اور وہ “سزائے موت” تھی۔ عہد نامہ قدیم جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہے، اور عہد نامہ جدید جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہے دونوں کے چند حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ “توہین مذہب” کی سزا کا قانون اسلام کا امتیازی یا انفرادی اپنا کوئی وضع کردہ، نیا اور من گھڑت قانون نہیں بلکہ یہ تو قوم یہود اور نصاری کے اندر بھی روا رکھا گیا تھا۔ آج اگر وہ اپنی کتابوں کو نہیں مانتے تو یہ ان کے لیے بدبختی، بدقسمتی اور ذلت ورسوائی کا اعلی ترین مقام ہوگا۔ ڈوب کر مر جانا چاہیے ان کو جو ہر آئے روز گستاخانہ مواد کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔ خاص کر پیغمبر اسلام علیہ السلام کی توہین کرنے کی ناقص کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مذموم مقاصد فقط امت مسلمہ کی دل آزاری ہوتی ہے جس میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن آخرت کو سیاہ کن بناتے جارہے ہیں۔
“توہین مذہب اور ممالک عالم”
ہم نے دو بڑے مذاہب کے حوالہ جات سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ گستاخ کی کوئی معافی نہیں۔ اسی کی بنیاد پر مزید یہ بات قوی تر ہوجاتی ہے کہ آج بھی پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ، اور مہذب ومعتدل ممالک کے اندر “توہین مذہب” پر پابندی عائد ہے۔ ان ملکوں کے اندر سرکاری قانون ہے جس پر مختلف نوعیت کی سزا تک موجود ہے کہ کسی بھی مذہب کے خلاف آپ توہین آمیز مواد کی تشہیر ہرگز نہیں کرسکتے۔ کہیں پر قید کے ساتھ ساتھ جرمانہ تک موجود ہے، 7سے10 سال تک کی سزائیں بھی موجود ہیں۔ یہاں ہم بطور نمونہ چند ممالک کی فہرست درج کردیتے ہیں جہاں اس وقت گستاخانہ مواد کی تشہیر پر پابندی اور سزا کا قانون موجود ہے:
آسٹریا (آرٹیکل: 188_189 کرمینل کوڈ)
فن لینڈ (سیکشن: 10 چیپٹر:17 پینل کوڈ)
جرمنی (آرٹیکل: 166 کرمینل کوڈ)
نائیجیریا (سیکشن: 127، 204, 429 کرمینل کوڈ)
فلپائن (آرٹیکل: 132,133 پینل کوڈ)
سوئٹزرلینڈ (آرٹیکل: 261 پینل کوڈ)
تنزانیہ (آرٹیکل: 21٫117 پینل کوڈ)
اسرائیل (آرٹیکل: 170,173 پینل کوڈ)
انڈیا (آرٹیکل: 295A پینل کوڈ)
میانمار (سیکشن: 298, 295A پینل کوڈ)
نیپال (سیکشن: 156.9 کرمینل کوڈ)
تھائی لینڈ (سیکشن: 208,206 پینل کوڈ)
روس (آرٹیکل: 148 کرمینل کوڈ)
اٹلی (آرٹیکل: 724 پینل کوڈ)
اس کے علاؤہ پولینڈ، رومانیہ، امریکہ، چائنا، برطانیہ، ساؤتھ افریقہ وغیرہ میں اگرچہ کوئی قانون نہیں پر اگر ایسے کام کا کوئی مرتکب ہو تو ان کو سزا دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ (united nations organization) کے چارٹر:
“International Covenant on Civil and Political Rights”
کے آرٹیکل:19 میں بھی اس چیز کو روکا گیا ہے۔
یہ چند ممالک کی فہرست تھی۔ صرف گنتی کے شرپسند عناصر ممالک ہیں جہاں یہ پروپیگنڈہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علاؤہ کسی ملک میں ایسا باقاعدہ نہیں ہوتا۔
صرف یہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مغرب اور یورپ کی ترقی سے قبل درجنوں ممالک کے اندر یہ قانون موجود تھا مگر “آزادی اظہار رائے” کی آڑ میں اب یہ قانون کسی بھی مذہب کے لیے ہو قابل قبول نہیں بلکہ ختم کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہاں بھی موجود تھا۔
یہاں چند ممالک کی فہرست ہم درج کردیتے ہیں۔ جو اپنی ذہنی غلامی سے قبل اس قانون پر باقاعدہ عمل کرتے آرہے تھے اور وہاں پر بھی شرپسندی پر پابندی تھی:
“نیدرلینڈ” یہاں بھی 1886ء سے قانون (آرٹیکل:147 ڈچ پینل کوڈ) کے تحت چلتا آرہا تھا۔ مگر 2014ء میں اس کو منسوخ کردیا گیا_
“اسپین” اسپین کے اندر بھی پرانا قانون (آرٹیکل: 525 پینل کوڈ) کے تحت چلتا آرہا تھا۔ مگر 1998ء منسوخ کردیا گیا۔
“آئر لینڈ” اس کے اندر بھی 1937ء سے توہین مذہب کے خلاف قانون (دستور: i.1 40.6) کے تحت چلتا آرہا تھا۔ مگر 2018ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“کینیڈا” میں بھی 1892ء سے (سیکشن: 296 کرمینل کوڈ) کے تحت قانون چلتا آرہا تھا۔ مگر 2018ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“نیوزی لینڈ” میں 1886ء سے (کرائمز ایکٹ 1961 کے سیکشن: 123) کے تحت قانون موجود تھا۔ مگر 2019 میں منسوخ کردیا گیا۔
“اسکاٹ لینڈ” کے اندر بھی 1661ء سے قانون موجود تھا مگر 2021ء میں ختم کردیا گیا۔
“سویڈن” کے اندر بھی 1563ء سے قانون موجود تھا۔ مگر 1970ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“آسٹریلیا” کے اندر 1788ء سے (سیکشن: 49، کرمینل کوڈ ایکٹ 1974ء) کے تحت قانون چل رہا تھا۔ مگر 1995ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“ڈنمارک” میں 1683ء سے (پیراگراف: 140 پینل کوڈ) کے تحت قانون موجود تھا۔ مگر 2017ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“انگلینڈ اور ویلز” میں بھی 1539ء سے اس پر پابندی تھی۔ مگر 2008ء اس کو ختم کردیا گیا
“فرانس” کے اندر بھی 1254ء سے پابندی چلتی آرہی تھی مگر 1881ء میں ختم کردی گئی۔
“یونان” کے اندر بھی 1734ء سے (آرٹیکل: 198,199,208 پینل کوڈ) کے تحت قانون موجود تھا۔ مگر 2019ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“آئس لینڈ” کے اندر بھی 1940ء سے (آرٹیکل:125 پینل کوڈ) کے قانون موجود تھا۔ مگر 2015ء میں منسوخ کردیا گیا۔
“میلٹا” میں بھی 1933ء سے (آرٹیکل: 164,165,38 کرمینل کوڈ) کے تحت قانون موجود تھا۔ مگر 2016ء میں اس کو منسوخ کردیا گیا۔
“ناروے” کے اندر بھی 1902ء سے (سیکشن: 142 پینل کوڈ) کے تحت قانون موجود تھا۔ مگر 2009ء میں اس کو منسوخ کردیا گیا۔
الغرض “اقوام عالم” کو بھی اس گندی تہذیب کے حصار سے پہلے۔ “توہین مذہب” کبھی بھی قبول نہیں رہا۔ اور آج بھی دنیا اس کو حقارت سمجھتی ہے سوائے چند شرپسند ممالک کے چند باشندوں کے۔
اسلام کے اندر بھی یہی موجود ہے جو سابقہ امم کے اندر موجود تھا۔ قرآن مجید میں توہین مذہب کے مرتکب کے خلاف ارشاد فرمایا:
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب
آیت نمبر 61
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ترجمہ
وہ لعنت کئے ہوئے ہیں، وہ جہاں بھی جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ان کو چن چن کر قتل کیا جائے گا۔
یہ شرعی سزا ہے جو اسلام نے روا رکھی ہے۔ کوئی ہماری اپنی سزا نہیں۔ جس سے حقوق انسان کے نام لیواؤں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ سزا ہمیشہ سے چلتی آرہی ہے اور آئین فطرت کے تحت ہی جاری و ساری ہے۔
آخر میں ہم اس نئی تہذیب کے پاکھنڈی سربراہان مملکت، اور بالخصوص یہود ونصاریٰ کو یہ پیغام اور دعوت اصلاح دینا چاہتے ہیں کہ صرف محمد (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) یا “دین اسلام” کی نہیں۔ کسی بھی مذہب کی توہین، اس کے شعائر کی توہین، اس کے نمائندگان و سربراہان کی توہین بالکل جائز نہیں۔ نا اس کی کوئی شرعی اجازت دی جاسکتی ہے نا اخلاقی کوئی حیثیت ہوسکتی ہے اور نا ہی قانونی طور پر کوئی تہذیب یافتہ قوم اس کو قبول کرسکتی ہے۔ آزادیِ اظہار رائے کی آڑ میں مقدس ہستیوں کی توہین بالکل ہی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ایسے لوگوں کو سرے عام گولی مار دی جائے۔ تاکہ اس دنیا کا حسن اور اتفاق قائم رہے۔ اللہ پاک ہمارا حامی وناصر ہو۔
تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد
لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ
“من سب نبیا فاقتلوہ”
تحریر: قاضی سلمان فارسی