اسلام اپنی طاقت سے اُبھرتا ہے

Article by Bint E Hassan Rizvia
ظلم کےہوتے امن کہاں ممکن یارو!!
اِسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو(حیب جالب)
“دنیائے انسانیت میں اسلام کا ہمہ گیر انقلاب تو آ کر رہے گا ‘لیکن جب اندرونی و بیرونی سازشوں سے دل گھبرا جاتا ہے؛ تو یاد آتا ہے ؛کہ’ اسلام اور طاقت کا آپسی تعلق؟”
تاریخِ انسانی میں اسلام سراپا انقلاب ثابت ہوا ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تاریخ ساز تبدیلی پیدا کی ہے۔ اسلام نے دنیا کے مذہبی و سیاسی، علمی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی حلقوں میں نہایت پاکیزہ اور دوررس انقلاب کی قیادت کی ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں تک آفتابِ
اسلامی کی کرنیں نہ پہنچی ہوں۔
حالیہ ہی اپنے پڑوسی ملک میں اسلام کا نظام نفاذ ہوا ۔جس سے دل بہت خوش ہوا ۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی کئی اسلامی جماعتیں کام کر رہی ہیں۔ ہر کسی کے کام کرنے کا اپنا اپنا طریقہ کار ہے ۔ بچپن سے لے کر اب تک یہ خواب خواب ہی رہا کہ “اسلامی جہموریہ پاکستان ” جس بنیاد پر کھڑا ہوا تھا ؛وہ نظام’ اس کی وہ پہچان کب بنے گی ؟کب اسے اس کا اصل دستور اس کے راز کھل کر سامنے آئیں گے ؟ اب تک اسلام کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیاجاتا رہا ہے۔ جو اسلام ہمیں کتابوں میں پڑھایا گیا ؛ جو کالجز’یونی ورسٹی میں استادوں نے بتایا وہ تو کچھ اور ہی تھا ۔
پھر جب حق کی تلاش ختم ہوِئی تو اس دور کا “مجددِ اُمت” اٹھا ؛ جس نے بہتی ‘سسکتی امت کو بتایا کہ اصل میں اسلام ہے کیا؟ اصل میں پاکستان کا وجود کیا ہے؟
آج ہم جس تاریخ کو پڑھتے ہیں وہ عموماً مغربی مؤرخوں اور مصنفوں کے خیالات اور اصطلاحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یورپ جس کی ذہنی ترقی اور علمی و فکری بلندی کی تاریخ کا سہرا وہ اپنے تاریخ دانوں ‘مصنفوں کے سر سجاتے ہیں ؛ وہ اصل میں اسلام کے ہیروز ہیں ۔لیکن ہمارے ہیروز کو زیرو بنا کر جنہوں نے اسلام کو پُست پر ڈالنے کے لیے نت نئی ایجادات کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں سے کھیلنا چاہا :: حالیہ دور کی ایجاد’ پب جی’ ٹک ٹاک’ سینک ویڈیو ‘ صدیوں سے چلتے حربے پورن فلمیں’ مسٹر چیپس” اور اس جیسی کئی ورادت جو یورپ آزما چکا ہے ۔
امت جب ہچکولے کھانے لگتی ہے؛ تو اللہ پاک کسی ولیِ کامل کو بھیج دیتا ہے ۔ عصرِ حاضر کا ولی ‘امامِ برحق “بابا جی خادم حسین رضوی صاحب ہیں۔”جنہوں نے یورپ کے نالے میں بہتے جوانوں کو کھینچ کر واپس اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع کر دیا ۔
بات ہو رہی تھی “اسلامی حکومت” اور حکومت کو عام لفظوں میں سیاست کے نام سے مستعمل کیا جاتا ہے ۔
اصل میں سیاست کہتے کسے ہیں؟؟
حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔
قرآن پاک کے مطابق سیاست” حاکم کا لوگوں کے درمیان میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اور رشوت ‘شراب’زنا سود وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے۔ معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنا۔ حقوق کی بالادستی قائم کرنا ۔
چوں کہ انسان خود بخود سیاسی امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا،لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے ،جس کو دین کہتے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں سیاست صرف ذاتی مقاصد کا نام رہ گیا ہے۔ کرپشن’ حق تلفی’ مہنگائی’سیاسی مخالفین پر حربے آزمانا رہ گئی ہے ۔ہمارے ہاں سیاست گندگی کا گہرا جوہڑ بن چکا ہے ۔ جس کی جڑیں زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کر رہی ہیں ۔
لیکن وہیں اسلام نظام ان سب کے برعکس برابری کے حقوق دینے پر زور دیتا ہے ۔امیری و غریبی کا فرق مٹاتا ہے۔ عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کیوں کہ اسلام ایک مکمل اقتصادی نظام ہے۔جس کی بنیاد قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام، اشتراکیت اور اشتمالیت سے الگ ایک مکمّل اقتصادی نظام ہے۔
جیسا کہ ‘ اسلامی نظام پڑوسی ملک میں نافذ ہو چکا ہے ۔ افغانستان میں اسلام کا پرچم لہرایا جا چکا ہے ‘دنیا بھر میں مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ افانستان نے دنیا کی سُپر پاور کو ناکوں چنے چبوا کر دنیا بھر مسلمانوں کو پیغام دیا ہےکہ’ مسلمان کی روح کو تازہ رکھنے کے لیے جہاد لازم ہے ۔”کوشش ہماری فتح اللہ کی” بیس سال طغیانی طاقتوں سے لڑنے کے بعد آج وہ سپر پاورز کو ڈھیر کرنے میں کامیاب ٹھہرے ۔
مسلسل جہدوجہد’جہاد سے شیطانی طاقتوں کو اپنے ملک سے بھگا چکے ہیں ۔ دنیا نے دیکھا کیسے سپر پاور کے مالک دُم بچا کر بھاگے اور اسلام کے شیر سرخرور ٹھہرئے۔
افغانستان میں اسلامی پرچم تلے ماشاءاللہ ہر شبعہ فکر زندگی معمول پر ہے ۔ یعنی انہوں نے اعتدال پسندی اپنائی اور یہاں تک کہ؛ “ملک کا جج”رکشہ پر کرایا دے کر عدالت پہنچتا ہے؛نہ سیکورٹی کا خطرہ نہ عزت کم ہو جانے کا ملال ۔
معاشرہ تب ہی ترقی کرتا ہے۔ جب حقوق برابری کے ملتے ہیں ۔جب حکمران ڈاکو نہیں’ محافظ بنتے ہیں۔ جب اپنی حفاظت کی فکر چھوڑ کر عوام کی حفاظت کا بیڑا اٹھاتے ہیں ۔جس معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے؛ وہ معاشرہ کبھی بانجھ نہیں ہوتا ۔
پڑوسی ملک میں اسلام کا پرچم لہراتا دیکھ کر دل میں قوی امید بڑھ گئی؛ کہ’ میرے ملک میں بھی اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے ۔ ایسا کرنےکے لیے جو چاند اُمید کی کرن بن کر بامِ فلک پر جگمگا رہا ہے؛ وہ بس اس وقت ایک ہی ہے ۔” علامہ حافظ سعد حسین رضوی برکاتہم علیہ کی صورت میں ۔” لیکن وہیں ‘ پھر موجودہ حکومت کی سازشیں اور ناقانل یقین ہر چیز کی آسمان کو چھوتی قیمیں دیکھ کر دل پریشان ہو گیا کہ ‘ابھی ہم لبیک یا رسول اللہ ﷺ”والے اس طرح مضبوط نہیں ہوئے ۔ ہم حکومت نہیں بنا سکیں گے ۔ اگر ہم حکومت میں آ گے’ تو ہم اس موجود دجالی نظام میں بری طرح پھنس جائیں گے۔
اس گندی سیاست میں ناکام ہو جائیں گے ‘ کیوں کہ جو حال پچھلی تمام حکومتیں اس ملک کا کر چکی ہیں اور جو کسر حالیہ حکومت نے پوری کر دی ہے ۔”معشیت سے لے کر صرفِ زندگی تک سب تباہ ہو چکا ہے۔ تعلیمی نظام اجڑ چکا ہے ‘معاشی، فکری و ادبی اور مذہبی حالات میں ملک تفریق ہو چکا ہے ۔ نت نئے علم وفنون متعارف ہو رہے ہیں۔ ذہن سازی کر کے ایک نسل تیار ہو چکی ہے ۔ایسے ہی کئی طرح کی فکر مند سوچیں ذہن اور دل کو جھنجھوڑتی رہیں ۔
لیکن وہی آج اچانک بیٹھے بیٹھائے سے ایک عظیم ہستی کے الفاظ ذہن میں گونجے اور دل کی زمین کو سیراب کرتے گے۔ سکون روح کو سرشار کرتا گیا ۔
“امیر المجاہدین قبلہ اول مولانا علامہ حافظ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ کے تاریخی الفاظ:::
“اسلام اپنی پاور خود رکھتا ہے ۔جو اسلام کے راستے میں آیا؛ اسلام نے اس کی کمر کو توڑ کر رکھ دیا۔”
اس ایک ویڈیو کو سننے کے بعد ساری فکریں ہوا ہو گئی ۔ اسلام تو اپنی طاقت سے اُبھرتا ہے۔ ہم یا کوئی اور کس کھیت کی مولی ہیں؟ اللہ پاک نے اپنا کام لینا ہوتا ہے ‘وہ اس کے لیے کسی کو بھی چُن لیتا ہے ۔’ ہمیں تو بس راستے پر چلنا ہے’ چشمہ تو خود راہ بنا لے گا’اور منزلوں کو سیراب کر کےدم لے گا ۔”
ان شاءاللہ اب وہ دن دُور نہیں۔ جب اسلامی انقلاب آئے گا۔ ایک عام بات سنتے آئے ہیں۔ کہ’ کوئی بھی جرم یا ظالم نظام ایک صدی تک رہتاہے پھر انقلاب برپا ہوتا ہے۔
غرض اسلامی انقلاب ایک ایسا نقطئہ انقلاب ہے، جس نے انسانی زندگی کے دھارے کو شر سے خیر کی طرف اور اندھیرے سے روشنی کی طرف پھیر دیا ۔ اسلام کل بھی روحانیت کا سرچشمۂ اعلی تھا اور وہ آج بھی انسان کی بھٹکی ہوئی روح اور اس کے آوارہ ذہن کو ایمان و یقین کی تازگی اور روحانیت کی لذت آگیں حلاوت سے بالیدہ و زندہ بنا سکتا ہے۔
ہر لذت کی انتہابیزاری ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان جس نے کلمہ پڑھا ہو اور کب تک اُس کا دل اور ضمیر پلیدگی کی طرف لگا رہے گا ۔ ایک مسلمان کی روح کی غذا اسلام کی محبت ہے ۔ زیادہ دیر تک انسان اپنی روح کو بھوکا اور پیاسا نہیں رکھ سکتا ۔
یقین ہوا چلا ہے ۔ تحریک لبیک پاکستان ہی دنیا کا نقشہ بدل کر اسلامی دھارے میں آ کھڑی ہو گی ۔ یہ تحریک مغربی “اسلاموفوبیا”میں آخری کیل ثابت ہو گی ۔”ان شاءاللہ تعالی عزوجل۔” حق و سچ کا سورج چڑھ کر رہے گا۔
“باباجی فرماتے تھے۔” یہ سارے اندروں ہلے ہوئے ہیں۔ بس’ تسی سارے تھوڑی جئی ہمت کر کے اسلام واسطے کھڑے ہو جاو فیر ویھکو ایہہ “دین بیزار طبقہ” کس طرح نس جاندآ اے۔”
“بابا جی” کی باتیں آج حقیقتاٙٙ من و عین سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ انمول ہوتا تھا ؛ اگر آپ کے بولے گے ایک ایک جملے پر لکھنا شروع کریں تو’ الفاظ کا احاطہ مشکل پڑ جائے ۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔
ختم شُد
بنتِ حسن رضویہ