تعلیم کا مقصد
Article by (انجنئیر ساجد محمود نقشبندی)
1-علم والے اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ۔ القران
2- ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا ،جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمیں پاک کرتا اور تمہیں کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔ القران
3- اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ، القران
4- تیرے پاس علم آ جانے کے بعد بھی تو ان کی خواہشات کی پیروی کرے گا تو تجھے اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔ القران
5- فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے کہ اس علم کا کوئی فائدہ نہیں جس پے عمل نہ ہو ، اور اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں جس میں اللہ کی رضا نہ ہو۔ الحدیث
ہر دور کے اندر معاشرے میں تعلیم کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے جسم میں خون کی حیثیت ہے۔ ہر دور میں تعلیم کو مختلف زاویوں سے ماپا گیا اور اسے مختلف نام و مقاصد دیے گے ۔
جیسا کہ آج بھی ایک طبقہ بنگلہ، روپیہ، گاڑی ، نوکری حاصل کرنا تعلیم کا مقصد سمجھتا ہے۔
اگر تعلیم کا یہی مقصد ہے تو پھر سود، رشوت، چوری، بے حیائی، بد اخلاقی، سفارش اور دیگر گناہ کیوں معاشرے میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ یقیناً ان سب گناہوں کے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کا مقصد شعور نہیں بلکہ پیسہ حاصل کرنا بنا لیا ہے۔
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف۔ اقبال
حالانکہ تعلیم ہی وہ خزانہ ہے وہ زیور ہے جو کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا۔
لیکن 3 چیزیں ایسی ہیں جو ہر دور میں تعلیم کے مقاصد کے لئے یکساں تصور کی گئیں۔
اگر تعلیم آپ کو یہ 3 چیزیں دیتی ہے تو آپ کی تعلیم آپ کو تعلیم یافتہ، باشعور بناتی ہے، اور اگر آپ کی تعلیم آپ کو یہ 3 چیزیں نہیں دے رہی ،تو آپ تعلیم حاصل کرنے بعد بھی جاہل ہیں، چاہے آپ کتنے بھی مہنگے تعلیمی ادارے میں پڑھتے ہیں ۔
وہ 3 چیزیں یہ ہیں ۔
1- خود اعتمادی Confidence
2-خود سے سوچنے والا Creative mind
3- کردار charactre
Confidence خود اعتمادی
تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس سے پڑھنے والے کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اگر اعتماد نہیں تو تعلیم، تعلیم نہیں ہو سکتی۔
الحمداللہ آج بھی اگر آپ اعتماد دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ اعتماد ایک مومن کے پاس ایمان کی صورت میں موجود ہے ، وہ ایمان جس کو اللہ اور اس کے رسول پہ یقین کہتے ہیں ۔
خود سے سوچنے والا Creative
اگر تعلیم آپ کو creative خود سے سوچنے والا نہیں بناتی، خود سے مشکلات کو دور کرنے والا نہیں بناتی، مشکلات کا حل، سوچنے کا ہنر نہیں، تو تعلیم ، تعلیم نہیں ہو سکتی۔
کردار character
اگر تعلیم آپ کو باکردار نہیں بناتی, تو آپ تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتے۔
اگر تعلیم کے بعد بھی آپ ایماندار نہیں، اخلاق والے نہیں، وعدہ پورا کرنے والے نہیں، اچھا سوچنے والے نہیں، اچھا بولنے والے نہیں تو تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
۔
مختصر یہ کہ تعلیم کا مقصد
اللہ کا ڈر ہے
خود کی پہچان ہے
خود اعتمادی ہے
معاشرے کی بہتری ہے
ایثار نفس ہے
اور تعلیم کا مقصد
با اخلاق بننا ہے
با کردار بننا ہے
محنتی بننا ہے
با شعور بننا ہے
اگر بڑے بڑے مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے بعد بھی یہ سب نہیں ہے تو ہم پڑھے لکھے جاہل ہیں ۔ اور ایسی تعلیم معاشرے کی ترقی اور سکون کا باعث نہیں بن سکتی ۔
جو حق سے کرے دور وہ تدبیر بھی فتنہ
اولاد بھی اجداد بھی جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ۔
تحریر:
انجنیئر ساجد محمود نقشبندی سیفی