عورت مارچ اور حقوق نسواں

Article by Amna Bint E Sjjad
دینِ اسلام (دینِ حسن) ایک مکمل ضابطہٕ حیات ہے اور قیامت تک ہر دور کے انسان کے لئے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ ایک معاشرہ درحقیقت لوگوں کے باہمی روابط اور تعلقات سے ہی جنم لیتا ہے۔ معاشرے کی بقاء اور فلاح اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس میں بسنے والے تمام افراد اپنے اپنے حصے کے حقوق و فرائض سے مکمل طور پر آگاہی اور احساسِ ذمہ داری رکھتے ہوں۔ معاشرے میں عورت اور مرد اپنی الگ حیثیت اور اہمیت کے ساتھ الگ اور آزاد فریق ہیں۔ لیکن اسلام سے پہلے دنیا میں نہ تو اس بات کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی عورت کی کوئی عزت و اہمیت سمجھی جاتی تھی۔ اسلام نے سب سے پہلے عورتوں کے حقوق متعین کر کے معاشرے میں ان کا کھویا ہوا مقام دلایا۔
زمانۂ جاہلیت میں دیکھا جائے تو ہر روپ میں عورت مظالم اور مصائب سے دو چار نظر آتی ہے۔ بیٹی کی بات کریں تو لوگ بیٹیوں کی پیدائش باعث شرمندگی سمجھتے تھے بلکہ جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی وہ کسی مجرم کی طرح منہ چھپاۓ پھرتا اور پھر اس پر ظلم کی انتہا کہ بیٹی پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا۔ لیکن اسلام نے بیٹی کو بجائے زحمت کے رحمت قرار دیا ہے۔
ماں گھر کی رونق اور زینت ہوتی ہے اور اس کے بغیر گھر اجڑی اور ویران بستی سا لگتا ہے۔ اسلام نے ہی ماں کی شان اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ اسلام سے پہلے شوہر کی وفات کے بعد عورت ورثہ کی طرح اس کے لڑکوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے۔ جبکہ اسلام نے عورت کو ماں کے روپ میں نہ صرف عزت و تکریم سے نوازا بلکہ جنّت ماں کے قدموں تلے یعنی ماں کی خدمت سے حاصل ہوگی۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے نظریہ پاکستان کی اساس دراصل اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آئینِ پاکستان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نِسواں کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی شق 25A ریاست کو پابند کرتی ہے کہ 5 تا 16 سال کے ہر بچے بچی کی تعلیم کا اہتمام کرے۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کی رو سے زبردستی کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ینفورکمنٹ اوف وومن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020 کے مطابق خواتین کو جائیداد میں اپنا حصہ حاصل کرنے کا حق ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب شریعت ہر اعتبار سے مسلم خواتین کو مکمل طور پر حقوق فراہم کرتی ہے اور پاکستان میں اس اعتبار سے قوانین بھی موجود ہیں تو پھر عورت مارچ کی کیا تک باقی رہ جاتی ہے؟ کیا ہے یہ عورت مارچ اور کس قسم کی آزادی کے لئے ہے؟
عورت مارچ نہ تو حقوق نسواں کا علمبردار ہے نہ حقوق نسواں سے اس کا کوئی تعلق۔ عورت مارچ کبھی بھی ہماری معاشرتی روایات کا حصہ نہیں رہا لیکن 2018 سے ہر سال 8 مارچ کو ایک خاص پلاننگ کے ساتھ سڑکوں پر طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جاتا ہے جس میں چند لبرل خواتین نہ جانے کس قسم کی آزادی کی ڈیمانڈ میں سرِ بازار خود عورت کا تقدس پامال کرتی ہیں۔ مارچ میں لگاۓ جانے والے نعرے “میرا جسم میری مرضی، دوپٹہ آنکھوں پر باندھ لو طلاق یافتہ مگر خوش” کسی طور مشرقی معاشرے کی مسلم خواتین کی عکاسی نہیں کرتے۔
یہ مارچ ایک خاص سازش کے تحت ہماری اسلامی اور مشرقی روایات کے خلاف لانچ کیا گیا ہے جسکا مقصد مغربی ایجنڈے کے تحت مملکت اسلامیہ کو کمزور کرنا ہے جس کی دلیل اس میں لگاۓ جانے والے نعرے خود ہیں ۔ کیوں کہ اگر مارچ کا مقصد واقعی حقوق نسواں کا پرچار کرنا ہوتا تو ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی با شعور خواتین خود اسکی مخالفت کرتی نظر نہ آتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارچ کے ذریعہ ہماری خواتین کو آزادی کے نام پر گمراہ کرنا ہے۔ عورت کو مغربی معاشرے جیسی آزادی دلوانے کے دعوے کیے جاتے ہیں حالانکہ (UNO) کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ جیسے ترقی یافتہ اور ماڈرن سوسائٹی کی ہر 4 میں سے 1 خاتون
domestic voilence
کا شکار ہے اور ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے 7 فیصد
single parent
فیملی میں رہنے والے بچے امریکا جیسے انسانی حققوق کے دعویدار جدید اور ترقی یافتہ ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں اکثریت بچوں اور گھر کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے۔
حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارتی ریاست نے خواتین کے حجاب پر پابندی لگا رکھی ہے اور حجاب کرنے والی خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں اور زدو کوب کیا جا رہا ہے جبکہ عورت مارچ کا پرچار کرنے والے لبرلز اس طرف کیوں خاموش ہیں؟ آخر مارچ والے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ اس سے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ مارچ والے مسلم خواتین کے حقوق کے پسِ پردہ خلافِ شریعت ڈیمانڈز کے ذریعے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنا اور یوں خاندانی نظام ( جو ایک مسلم معاشرے کا کارخانہ سمجھا جاتا ہے) کی ساکھ تباہ کر کے معاشرتی بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ حالاں کہ جہاں بھی عورت ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا شکار ہے اسکے پیچھے اصل وجہ ہی شعور کی کمی اور جاہلانہ ذہنیت ہے۔ جسکا سدباب علم دین سے ممکن ہے۔ معاشرے کے تمام مرد و عورت کو حقوق و فرائض سے متعلق مکمل شعور اور آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے دنیاوی پڑھے لکھے لوگ عورت کے اصل حقوق و فرائض سے لا علم ہوتے ہیں۔ عورت کی لڑائی مرد سے نہیں بلکہ اسی جاہلانہ سوچ اور مائنڈ سیٹ اپ سے ہے جسکے حامی قدامت پسند مرد و عورت دونوں ہیں بلکہ گھریلو نظام زندگی میں تو عورت کے آدھے سے زیادہ مسائل خود ایک دوسری عورت کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ گھریلو نظام زندگی کو دین اسلام کے تابع کیا جائے تو تمام مسائل اور زیادتیاں اپنے آپ ختم ہو جائیں گی پھر نہ کسی تنظیم براۓ حقوق نسواں کی ضرورت رہے گی نہ ہی کسی
so called feminist vs mysogynist
جھگڑے اور بحث کی۔
تحریر: آمنہ بنت سجاد