علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ
Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
نام و نسب
قائد ملت اسلامیہ امیر المجاھدین شیخ الحدیث حضرت علامہ حافظ خادم حسین رضوی نقشبندی ابن لعل خان اعوان
ولادت
تین ربیع الاول ۱۳۸۶ ہجری ،۲۲جون ۱۹۶۶عیسوی
گاؤں نکہ کلاں، ضلع اٹک پنجاب پاکستان، ایک مذہبی گھرانے اور زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے
آپکی چار بہنیں، ایک بڑے بھائی جن کا نام امیر حسین ہے
القابات
علمائے عجم کی طرف سے دئیے گئے القابات
آبرو سنیت، شہنشاہ خطابت، مخدوم ملت، عاشق صادق، امام تصرف، مرد مجاہد، شیخ الحدیث، امیر المجاھدین، امام غیرت و حمیت، محافظ ختم نبوت اور باباجی جیسے القابات
علمائے عرب کی طرف سے دئیے گئے القابات
العلامۃ الجلیل، المجاھد، امام المحدث، الصوفی الجلیل، اسد السنہ، شیخ الحدیث و التفسیر، فضیلۃ الشیخ، محدث پاکستان۔
یہ سب القابات آپ کی دینی خدمات کی وجہ علماء اکرام نے دی ہے
تعلیم و تربیت
آپ نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، چار جماعتیں سکول میں پڑھی پھر حفظ قرآن کا جذبہ پیدا ہوا
آٹھ برس کی عمر میں مدرسہ جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم میں قاری غلام یسین صاحب سے حفظ قرآن کا آغاز کیا
قرآۃ کورس ۱۹۸۰ء دینہ گجرات میں کیا، آٹھ سال میں عالم کورس کیا، مارچ ۱۹۸۸ء میں ۲۲سال کی عمر میں دورہ حدیث مکمل کیا
آپ کے اساتذہ اکرام
ملک المدرسین مفتی عطا محمد بندیالوی
مفتی اعظم پاکستان مفتی عبد القیوم ہزاروی
شیخ الحدیث مفتی عبد الطیف نقشبندی
علامہ محمد رشید نقشبندی کشمیری
شرف ملت عبد الحکیم شرف قادری
استاز العلماء حافظ عبد السّتار سعیدی صاحب
محقق اہلسنت محمد صدیق ہزاروی
جامعہ نظامیہ لاہور سے عملی آغاز
شوال۱۴۱۰ ہجری اور ۱۹۹۰ عیسوی میں عملی کام کا آغاز کیا
علم تصرف پڑھاتے اور کمال مہارت رکھتے تھے
آپ کی دو کتابیں ہیں۔
تیسیرا ابواب الصرف
اور
تعطیلات خادمیہ
یہ دونوں کتب ۱۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہیں۔
پچیس سال تک تدریس کا کام کیا،اور ان کتابوں کا درس بھی دیا، وہ یہ ہیں بطور شیخ الحدیث سنن ابن داؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ شریف اور آثار السنن جیسی عظیم کتب۔
نو سال میں ۱۵۰۰ علماء نے درس حدیث حاصل کیا۔
بارہ سال کی عمر میں علم تصرف پڑھنے والے ہزاروں طالب علم تھے۔
ازواج و اولاد
آپ کی شادی آپ کے والدین کی مرضی سے چچا کی بیٹی سے ہوئی۔
۱۹۹۳میں محکمہ اوقاف پنجاب میں بطور خطیب ملازمت کے بعد شادی انجام پائی، امیر المجاھدین کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئی۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں
حافظ محمد سعد حسین رضوی صاحب (مرکزی امیر تحریک لبیک پاکستان)
حافظ محمد انس رضوی صاحب
بیعت و ارادے
آپ نے روحانی طور پر سلسلہ نقشبند میں “الحاج خواجہ محمد عبد الواحد صدیقی مجددی نقشبندی المعروف حاجی پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ(جہلم پاکستان)سے مرید تھے۔جو ایک مشہور صوفی بزرگ قاضی محمد صادق صاحب المعروف خواجہ عالم(گلہار شریف کوٹلی والے)کے بڑے صاحب زادے تھے خواجہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ۳۱ دسمبر ۲۰۰۸ کو ہوا، آپ کا مزار گلہار شریف کوٹلی کشمیر میں واقع ہے
قبلہ حاجی عبد الواحد صدیقی صاحب کا ۴۰ پشت میں سلسلہ امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا کر ملتا ہے۔
قوت حافظہ
آپکا مضبوط حافظہ کے ساتھ آپ کثیر مطالعات بھی کیا کرتے تھے حالات حاضرہ سے سب واقف رہتے اور اسکے علاؤہ آپ نے حکیم محمد سعید، مفتی احمد یار خان نعیمی کے تمام سفر نامے پڑھے ہوئے ہیں
آپ دن میں دو تین گھنٹے سوتے اور اس کے علاؤہ دین اسلام کی کتب کے مطالعہ میں محو رہتے
البتہ اسلام کے سپہ سالاروں کی سیرت کا مطالعہ کرنا اولین ترجیح میں تھا امیر المجاھدین فرماتے ہیں
اسلام کے تمام سپہ سالار اپنی مثال آپ ہیں مگر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مجھے بہت متاثر کیا اور آپ کی مزار مبارک پر حاضری دینا یہ میری دیرینہ خواہش تھی جو پوری بھی ہوئی
عشقِ رسولﷺ
آپ نے اپنی ساری زندگی حضورﷺ کے عشق میں گزار دی اور اس عشق کے جام پھر لاکھوں لوگوں کو پلا گئے
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے
یہ عشق رسولﷺ اپنی ماں کی گود سے ملا ہے، میری والدہ اٹھتے بیٹھتے ہر بات میں “صدقے یارسول اللہﷺ” کہا کرتیں، ان کا یہ جملہ میری روح اور بدن میں بس گیا ہے
علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے
ہمیں یہ جسم مصطفی جان رحمتﷺ پہ قربان کرنے کے لیے دیا گیا ہے جب ہمارا مرنا برحق ہے تو پھر بندہ کیوں نہ نام مصطفیٰﷺ پر جان قربان کر کے عزت سے مرے
مکتبہ فکر کے اختلاف سے ہٹ کر ہمارے سب علماء اکرام نے امیر المجاھدین کی اس بات پر ضرور اظہار کیا ہے کہ وہ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے اس کے علاؤہ ہمارا اختلاف اپنی جگہ
آپ کی آخری وقت کے دوران یہ جذبہ اور جوش بڑھنے لگا کہ میں روضہ رسولﷺ پر حاضری دے آؤں لیکن خودی سے یہ سوال آجاتا کہ وہ خادم حسین کس منہ سے جائے کہ جب ہر طرف گستاخانہ خاکے بن رہے ہوں
علامہ محمد اقبال سے امیر المجاھدین کی محبت
آپ اقبال کی شاعری کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے اور فارسی مجموعہ کا انتخاب کیا اور آپ نے ۱۹۸۸ میں کلیاتِ اقبال خریدی اور نو عمری میں ہی اس قلندر شاعر کے افکار کا مطالعہ شروع کر دیا بلکہ یوں کہہ لیں اقبال کی روح نےان کو اپنی طرف کھینچ لیا، فارسی مدرسہ میں بھی پڑھائی جاتی لیکن اقبال کی فارسی کو سمجھنے کے لیے انہوں نے بہت سی ڈکشنریاں خریدی۔ بعد ازاں انہوں نے اقبال کے مرشد مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کا بھی مطالعہ کیا، فرماتے کہ میں علامہ اقبال کے مے خانہ سے وہ خوشبوں لایا ہوں جس کے آگے انگور کے شراب کی کوئی حیثیت نہیں رکھتی،علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کو اقبالیات پر اتنی دسترس حاصل تھی کہ بڑے بڑے ماہرین بھی ان کے آگے طفل مکتب دکھائی دیتے۔ آپ نے اقبال کی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے قلوب و اذہان میں، اقبال کے فلسفہ خودی کو اجاگر کر دیا
“بلکہ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کلام اقبال پڑھنے کا حقیقی معنوں میں اگر کسی نے حق ادا کیا ہے تو وہ علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات ہے”
امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی سے محبت
امیر المجاہدین اعلی حضرت سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے۔ آپ سے یہ محبت کا رشتہ”حدائق بخشش” کے مطالعہ سے شروع ہو کر” فتویٰ رضویہ” تک پہنچا تو رضوی کے بحر بے کراں میں مستغرق ہو کر رہ گئے۔ امام احمد رضا خان بریلوی کی رسول اللہﷺ سے جب سچی محبت دیکھی تو “رضوی” نسبت کو اپنے ساتھ منسلک کر لیا اور درست معنوں میں اس پُر فتن دور میں رضوی کردار ادا کیا
“کلک رضا ہے خنجر خونخوار برق بار”
“اعدا سے کہہ دو خیر منائیں نہ شر کریں”
علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ اگرچہ نقشبندی سلسلہ طریقت میں مرید تھے لیکن انہوں نے “عقیدہ ختم نبوتﷺ” اور “ناموس رسالتﷺ پر پہرا دے کر یہ عملی طور پر ثابت کر دیا
“کہ رضویت کسی سلسلہ طریقت کا نام نہیں ہے بلکہ غیرت و حمیت اور ایک نظریہ کا نام ہے”
امیر المجاہدین نے فتویٰ رضویہ پر ایک مقالہ بھی لکھا۔
امیر المجاہدین نے علم تصرف کے متعلق اپنی کتاب تعطیلات خادمیہ کے حرف آغاز میں تحریر فرمایا کہ
“سیدی اعلی حضرت، مجدد دین و ملت، امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ۱۰اصول دین حق کی ترویج و اشاعت کے لیے بیان فرمائے، کاش ! اہلسنت جماعت کے قائدین اور امراء ان کو اپناتے تو ہر محفل مجلس کے اختتام پر اہلسنت کی زبوں حالی کا رونا نا رویا جاتا۔”
جذبہ حب الوطنی
آپ وطن کے بارے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے۔ اکثر آپ نوجوان نسل کو دو قومی نظریہ کی آگاہی دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے
“پاکستان جن مقاصد کے لیے بنا ہے ان مقاصد کو سنا کریں”
ٹی وی چینل نیو نیوز کے اینکر پرسن نصراللہ ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ” پاکستان جس مقصد کے لیے بنا آج اس مقصد سے روگردانی کی وجہ سے حالات خراب ہوئے”
جب کوئی ہندو جرنل دھمکی دیتا تو ادھر سے آپ ہی کی ایک واضح آواز سنائی دیتی، باقی سیاسی اور سب لبرل ازم والے اس وقت سو جایا کرتے تھے
آپ نے فرمایا ان سب لبرل اور سیاسیوں کو انڈین بارڈر پر لے جاکر بات کرنے کا کہو، یہ کبھی ان کے ساتھ بات نہیں کر سکیں گے جب بھی کوئی دشمن سے بات کرے گا تو جو ہمارے جیسا فقیر آدمی جو رسول اللہﷺ کا غلام محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کا وارث ہے وہی دشمنان دین و ملت سے شیروں کی طرح بات کر سکتا ہے
غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ
آپ نے غازی صاحب کے تحریک بھی چلائی اور جگہ جگہ جا کر آپ کی حمایت کی تائید کی، آپ کا کہنا تھا انہوں نے تو ایک گستاخ کو قتل کیا ہے اس لیے اغیار کو خوش نا کریں بلکہ دین اسلام کی خاطر رہا کیا جائے۔ اور آخر کار ۲۹ فروری ۲۰۱۶ کو پھانسی کا ناحق حکم سنایا گیا اور غازی صاحب نے ساری رات ذکر و اذکار میں گزاری، سحری کے وقت روزہ رکھا اور چہرے پر کالا کپڑا پہنے بغیر، کسی سہارے کے خود تختہ دار تک آپنے پاؤں مبارک سے تشریف لے گئے پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال کر جام شہادت کا جام پی کر رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے
غازی صاحب کی پھانسی کے وقت نون لیگ حکومت کی بد نیتی کا ذکر کرتے ہوئے امیر المجاھدین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
جس وقت ممتاز قادری کی رہائی کے لیے ہمارا احتجاج جاری تھا اس وقت حکومت نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات کے ذریعے پیغام بھیجا، کہ ممتاز قادری کو پھانسی نہیں دی جائے گی
اور انہوں نے امیر المجاہدین کو کہا کہ ہم اس معاملے کو طول دے کر پھر غازی صاحب کو بعد میں رہا کر دیں گے لیکن جھوٹ چہرے سے عیاں تھا لیکن اس وقت پھانسی مجرموں کی ہزاروں اپیل تھی لیکن ان سب کو پس پشت ڈال کر صرف غازی صاحب کی اپیل پر کیوں عمل کیا گیا؟
امیر المجاہدین کو غازی صاحب کی پھانسی کا بہت دکھ ہوا آپ نے اپنی پگڑی غازی ممتاز قادری کے قدموں میں رکھ کر کئی بار چوما اور کہا
رسول اللّٰہﷺ کی بارگاہ میں جا کر ہماری شکایت نا لگانا
ہم سے جو ہو سکا ہم نے کیا
ڈی چوک، اسلام آباد کا دھرنا
ستائیس مارچ ۲۰۱۶ کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید ناموس رسالت ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے چہلم میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ چہلم کے اختتام پر سنی تحریک اور علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ نے ڈی چوک میں دھرنا دیا۔ نون لیگ کی حکومت نے مذاکرات سےانکار کردیا اور پھر ایک نہایت ہی شدید قسم کا آپریشن کیا جس میں آنسوں گیس کا بے دریغ استعمال کیا اور یہ اتنا شدید قسم کی تھی کہ وہاں رہائشی بھی گھر چھوڑ کر چلے گئے اور تحریک کے کھانے پینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی اتنے ظلم کے باوجود بھی امیر المجاھدین اور کارکنان کے ثابت قدمی میں کوئی فرق نہیں ایا۔ آخر حکومت سب کچھ کرنے کے باوجود کچھ کام نا آیا تو اس وقت مذاکرات ہوئے اور آخر ایک معاہدہ طے پایا.
تحریک لبیک یارسول اللہﷺ پاکستان کا آغاز
غازی صاحب کی شہادت کے بعد غازی رہائی تحریک کا نام تبدیل کر کے تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ پاکستان رکھا گیا اور علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کی اسلام کے جلال اور جذبات، کردار سے متاثر ہو کر لوگ تحریک کا حصہ بننے لگ گئے۔
اور حالیہ امریکن رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قلیل وقت سب زیادہ مقبول ہونے والی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ پاکستان ہے۔
امیر المجاہدین فرمایا کرتے
ہم سیاست میں آئے ضرور ہیں لیکن سوداگری کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کے ذریعے ملک کی خدمت کرنے آئے ہیں۔
فیض آباد دھرنا
جب نون لیگ کی حکومت نے حلف نامے میں تبدیلی کی تو اس وقت امیر المجاھدین عملی طور پر ۵ نومبر تا ۲۷ نومبر ۲۰۱۸ تک ۲۱دن فیض آباد کے نہایت ٹھنڈے ماحول میں دھرنا دیا۔
ابتدائی حالات میں حکومت نے تشدد کا راستہ اپنایا اور دھرنے کی طرف سے ہر طرف کی آمد و رفت روک دی گئی۔ بڑے پیمانے پر آپریشن کیا گیا جس میں بارہ ہزار آنسوں گیس شیل، ربڑ کی گولیاں اور اسکے علاؤہ سیدھی گولیاں چلائی گئی۔ جس کی وجہ سے تحریک لبیک کے بہت لوگ زخمی اور ۸ شہید ہوئے لیکن پھر بھی اتنے ظلم کے باوجود ناکام رہے اور تحریک لبیک سیسہ پلائی دیوار بنی رہی۔
اس کے بعد فوج کی ثالثی میں معاہدہ ہوا جس کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
فرانس میں گستاخانہ خاکے
جب فرانس نے گستاخانہ خاکے بنائے تو آپ نے یہ کہا کہ کسطرح ان لوگوں نے سرکاری طور پر یہ شرمناک عمل کیا ہے جس سے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے تو کیونکہ انہوں سرکاری طور یہ شرم ناک حرکت کی ہے تو ہم کو چاہیے کہ فرانس کے سفیر کو سرکاری طور احتجاجاً بے دخل کیا جائے۔ ایک مہینہ تک امیر المجاھدین نے دیکھا جب کوئی جواب نہ آیا تو ۷ نومبر ۲۰۲۰ کو مارچ کا اعلان کیا۔ پھر حکومت نے کچھ دن مہلت مانگی، اسکے بعد پھر ۱۵ نومبر ۲۰۲۰ کو لیاقت باغ سے فیض آباد کی طرف مارچ ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت نے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے ۳۰۰ کنٹینر لگا کر اسلام آباد کے داخلی راستوں کو بند کر دیا کارکنان پر آنسوں گیس اور تشدد کا سلسلہ بھی ساتھ جاری رہا۔
پھر عمران خان نے ذاتی طور پر ، وقافی مذہبی امور نورالحق قادری کی سربراہی میں چار ۴ نکاتی معاہدہ ہوا۔
حکومت پاکستان اپنے ملک میں فرانس کا سفیر متعین نہیں کرے گا۔
فرانس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائی کاٹ کیا جائے گا۔
گرفتار شدگان اور اسیر ناموس رسالتﷺ کو فی الفور رہا کیا جائے اور بعد میں موجود مارچ کی وجہ سے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائےگا۔
حکومتی وفد معاہدہ کے وقت
وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری
کمشنر اسلام آباد جناب عامر احمد صاحب
وقافی وزیر داخلہ اعجاز شاہ
تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ پاکستان کی جانب سے وفد
ڈاکٹر شفیق امینی صاحب
سید عنایت الحق شاہ صاحب
علامہ غلام عباس فیضی صاحب
ان سب کے دستخط معاہدے پر موجود ہیں۔
وفات
خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ ۵۵ سال کی عمر میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔
شیخ زید ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اکبر حسین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ رات ۸ بج کر ۴۸ منٹ پر خادم رضوی کو مردہ حالت میں ہسپتال کے ایمرجنسی وراڈ میں لایا گیا تھا اور اس سے قبل وہ یہاں زیر علاج نہیں تھے
امیر المجاہدین نے اپنی وفات کے بارے خود فرمایا کہ
ایک دن خبر آئے گی کہ خادم حسین انتقال کر گیا۔ آپ نے کہنا ہے کہ بڑا اچھا آدمی تھا یا کہنا ہے بڑا بُرا آدمی تھا۔ انسان یا اچھا ہوتا ہے یا بُرا ہوتا ہے، دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ آپ کہیں گے آدمی تو ٹھیک تھا لیکن سخت تھا۔ آج میرے ساتھ کھڑے ہو جائیں بعد میں ہم جیسے بھی نہیں ملنے۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ علامہ صاحب سے ہمیں لاکھ اختلاف سہی لیکن وہ کمال عاشق رسولﷺ تھے
میں چند الفاظ میں مضمون کو سمیٹتا ہوں کہ آپ جیسی شخصیت ایک قوم کے نوجوانوں کو حضورﷺ کے عشق میں متحد کردیں تو وہ دنیا میں کوئی ایک ہی ہوتی ہے
میں اس قابل نہیں کہ میں امیر المجاھدین کی زندگی کو ایک میں آرٹیکل میں سمیٹ سکوں
میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جو میں علامہ خادم حسین رضوی کی وفات پر بیان کر سکوں
جو کوشش کی ہے اللہ پاک قبول فرمائے.
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی
ماشاءاللہ بہت خوشی ہوئی یہ بابا جی کے متعلق یہ تحریر دیکھ کر۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
اللہ پاک امیر المجاھدین بابا جی کے صدقے سے ہمارے دلوں میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ روشن فرمائے آمین۔