واقعات صحابیات سیریز قسط ۱

سیدتنا سمیہ رضی اللہ عنہا پر ظلم ستم کی داستاں اور دین کی خاطر ان کی قربانیاں
Article by Rameen Malik
مشہور صحابی حضرت سید نا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدنا سمیہ رضی اللہ تعالی عنھا وہ شیر دل خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے شجر اسلام کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ یوں انہیں جہاں اسلام کی شہید ۂ اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تو وہیں یہ شرف بھی ملا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والی واحد صحابیہ بن سکیں۔ گئیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا شجر اسلام کے ثمرات سے فیض یاب ہو نا ہی آپ کا جرم بن گیا اور کفر کے اندھوں نے ان پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان والحفیظ۔ چنانچہ مروی ہے کہ رسول اکرم ، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جب آپ رضی اللہ تعالى عنها کو اپنے بیٹے حضرت سید نا عمار رضی اللہ تعالی عنہ اور شوہر حضرت سید نا یاسر رضی اللہ تعالى عنه سمیت مکہ مکرمہ زادھا اللہ فا تنہا کے تپتے صحرا میں مقام ابطح پر ایذائیں پاتے دیکھتے تو ارشاد فرماتے: اے آل یاسر صبر کرو تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ اہل مکہ بالخصوص دشمن اسلام ابو جہل نے کون سا ستم ہے جو ان پر نہ کیا، اسے بس اس بات سے سمجھ لیجئے کہ نور ایمان از عبد السمیع بیدل
آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو لوہے کی زرہ پہنا کر سخت دھوپ میں کھڑ اکر دیا جا تا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو لوہے کی زرہ پہنا کر سخت دھوپ میں کھڑا کر دیا جا تا۔
پیاری بہنو! ذرا تصور کیجئے کہ جب دھوپ کی گرمی سے لوہے کا لباس چنے لگتا ہو گا تو عرب میں سورج کی تپش اور اس پر لوہے کے آگ برساتے لباس میں آپ کا کیا حال ہو تا ہو گا۔ مگر قربان جایئے اس شہید ہ اول کی عظمت و استقامت پر ! آپ کے دل میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی محبت اس طرح گھر کر چکی تھی کہ اتنی سخت تکالیف کے باوجود آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسلام کا دامن نہ چھوڑا، بلکہ ڈٹ کر ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور اس سلسلے میں ان سر داران قریش کی عظمت و برتری کا قطعا لحاظ نہ رکھا کہ جو ہر لمحہ انہیں دوبارہ کفر کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے ، آپ کا صبر واستقامت سے اسلام پر ڈٹ جانا ان سرداران قریش کے منہ پر گویا ایک طمانچہ تھا، کیونکہ قریش کی عظمت کا ہیکہ تو پورے عرب پر تھا اور وہ اس بات کو کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ انہی کی آزاد کردہ ایک نادار باندی ان کی غیرت کو یوں للکارے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس ہزیمت (شگشت) کو برداشت نہ کر سکے اور آپ کے خون سے سرزمین عرب کو سیراب کر کے اپنے تئیں آپ کا قصہ تمام کر دیا، جس کا سبب کچھ یوں ہوا کہ ایک مرتبہ ابو جہل نے نیزہ تان کر انہیں دھمکاتے ہوۓ کہا کہ تو کلمہ نہ پڑھے ورنہ میں تجھے یہ نیزہ مار دوں گا۔ حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سینہ تان کر زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کیا، ابو جہل نے غصہ میں بھر کر ان کی ناف کے
اندراس زور سے نیز ہ مارا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہو گئیں۔ اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ امین بجاہ النبی الامین صلی الله تعالى عليه واله وسلم
جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے
کوئی حبان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے دین قربانی چاہتا ہے
پیاری بہنو! دین اسلام کا یہ لہلہا تا کھیت ہمیں ایسے ہی نہیں ملا بلکہ اس کے لیے ہمارے اسلاف نے بہت سی قربانیاں دیں، اپنی جان و مال، گھر بار ، بیوی بچے اور دیگر اعزا و اقربا غرض کہ ہر چیز دین اسلام کی ترقی اور اعلائے کلمہ حق ( حق کا کلمہ بلند کرنے کے لئے قربان کر دی۔
بقول شاعر
ے حبان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
پیاری بہنو! دین حق کی سربلندی کے لیے مردوں کی قربانیاں اور شجاعت و استقامت کی داستانیں اپنی جگہ ، مگر خواتین کی قربانیوں کا باب بھی بہت وسیع
ہے۔ اولین مسلمان خواتین نے اسلام کی خاطر کیسی کیسی مشقتیں برداشت کیں اور اس راہ میں کیا کچھ قربان کیا؟ تاریخ ان خواتین کی جرات و بے باکی پر آج بھی حیران ہے۔ یاد رہے! اس دین کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک خاتون نے ہی اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی دین کی خاطر اپنی یا اپنے گھر والوں کی جان دینے یا کسی کی جان لینے کی ضرورت پڑی تو مسلمان خواتین کے ماتھے پر شکن تک نہ ابھری، انہوں نے گھر بار لٹا دیئے ، خون کے رشتوں کو خوشی خوشی موت کے حوالے کر دیا، اپنی آبائی سرزمین کو چھوڑ کر ڈور کہیں جا کر بسنا پڑا تو کبھی ان کے حوصلے کبھی پشت نہ ہوۓ ، انہیں تپتے صحراؤں میں لٹایا گیا، دہکتے کوئلوں پر بچھایا گیا، لوہے کے لباس پہنا کر سورج کی تمازت (شدید گرمی کا مزہ چکھایا گیا، ان کے بچوں اور اہل خانہ کو نظروں کے سامنے سولی پر لٹکایا گیا، نیزوں، تلواروں، خنجروں اور کوڑوں کے ساتھ لہولہان کیا گیا، جو کے پیاسے دھوپ میں باندھ کر رکھا گیا، گھر بار ، بہن بھائی، ماں باپ، آل اولاد اور ہر دلعزیز رشتوں سے خد ا کیا گیا اور وطن عزیز سے نکالا گیا۔ ظلم و جبر ، اور سفاکی کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی مگر تپتے صحرا اور اندھیری ٹھٹھرتی راتیں گواہ ہیں کہ اس صنف نازک کی استقامت میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی اور ہمیشہ کے لئے اوراق تاریخ کو ان کی قربانیاں محفوظ کرنا پڑیں۔ زمانے کے ظلم و ستم ان نفوس قد سبینہ سے انکی دولت ایمان نہ چھین سکے۔ اس پر ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ فرمان شاہد ہے کہ
ما نعلم أن أحدا من المهاجرات إرتدت بعد إيمانها
یعنی ہم نہیں جانتیں کہ کسی عورت نے ایمان لانے کے بعد اسلام سے منہ پھیرا ہو۔
جنتی زیور ، ص ۵۰۸ بحواله الاستیعاب، ۳۳۹۷-سميه ام عمار بن ياسر ، ۵۳۴/
اصابه، ۱۱۳۴۳ – سميد بنت خباط، ۸ / ۲۰
اسد الغابه، ۷۰۲۱ – سميه ام عمار، ۵۳/۷ اماخوذا
اللہ پاک ہمیں بھی دین کی خاطر اہنا تن من دھن قربان کرنے کی توفیق و سعادت عطاءفرمائے آمین
اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات
تحریر: رامین ملک