حقوقِ نسواں یا تضیحکِ نسواں

Article by Aqsa Hassan
عورت خدا کی ایک عظیم تخلیق ہے۔ عورت کا لفظ “عورہ’ سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں “ڈھکی، چھپی ہوئی چیز” کے ہیں۔
عورت اللہ رب العزت کی پیدا کردہ بہت ہی خوب صورت مخلوق ہے. عورت کو اللہ پاک نے عظیم درجے عطا فرمائے ہیں، جیسے اگر ماں ہے تو اس ناطے سے وہ ایک نسل کی تربیت کی ضامن ہے۔ بیٹی ، بہن اور بیوی کے روپ میں عورت ہر لحاظ سے سلامتی و حرمت کی ضامن ہے؛ لیکن اس بڑھتی ہوئی گلوبل ویلیج دنیا نے آزادی رائے پر عورت کو بےحیائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ چند نام نہاد روشن خیال عورتیں تمام عورتوں کی نمائندہ نہیں ہو سکتیں۔
“مسلمان عورتوں کی حقیقی نمائندہ ” سیدہ بتول، طاہر و طیبہ جگر گوشہِ رسول اللہ ﷺ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ” ہیں۔”
لیکن افسوس آج کی عورت پھر سے جہالت کی طرف جا رہی ہے ۔وہ اپنے مقام کو اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کر رہی ہے اور مغرب کی اندھی تقلید کر رہی ہے۔ ایک عام عورت کی جس قدر تذلیل ہر سال نام نہاد عالمی یومِ خواتین کے موقعہ پر ہوتی ہے اس سے زیادہ تذلیل عورت کی کبھی نہیں ہوئی نہ دیکھی گئی۔
اِسی 8 مارچ، عالمی یومِ خواتین کو چند خود ساختہ لبرل، روشن خیال خواتین نے پاکستان میں جس طرح عام عورتوں کے معاملات کو ہائی جیک کر کے بدنام کیا ہے۔ کسی اور یوم کی اِس حد تک ذلّت و رسوائی، جگ ہنسائی کی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر پچھلے دو تین برسوں سے تو آزادی نسواں اور خواتین کے حقوق کے نام پر جو سرکس لگا ہوا ہے، وہ امّتِ مسلمہ کی خواتین ہو ہی نہیں سکتیں، یہ سب بے ہودگی کسی بھی حیادار عورت کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ چند سرپھری، بے لگام خواتین ہاتھوں میں کچھ بینرز اٹھا کر (جن پر ایسے حیا سوز، اخلاق باختہ نعرے درج ہوتے ہیں کہ لاج، شرم والی خواتین تو دُور، مَردوں کی بھی دیکھ کر نگاہ جُھک جائے) مظاہروں، ریلیوں اور’’عورت آزادی مارچ‘‘ کےنام پرسڑکوں، چوراہوں، بازاروں میں نکل آتی ہیں اور خود اپنا ہی نہیں، اُس ’’عام عورت‘‘ کا بھی خوب تماشا بناتی ہیں، استہزاء اُڑواتی ہیں، جو درحقیقت آج تک بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہے۔
گزشتہ برس ’’کھانا خود گرم کرلو‘‘ اور ’’مائی باڈی از ناٹ یور بیٹل گرائونڈ‘‘ جیسے نعروں سے شہرت پانے والی یہ مُہم، اس برس تو ایسے فحش اور مخرّبِ اخلاق بینرز، اسکیچز تک جا پہنچی کہ دین و مذہب تو ایک طرف، سماجی اقدار و روایات، ادب و تہذیب تک کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔
’’مَیں آوارہ، مَیں بدچلن‘‘،’’میرا جسم، میری مرضی‘‘، ’’عورت بچّہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘، ’’اگر دوپٹا اتنا پسند ہے، تو آنکھوں پہ باندھ لو‘‘، ’’تمہارے باپ کی سڑک نہیں‘‘، ’’آج واقعی ماں، بہن ایک ہورہی ہیں‘‘، ’’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘‘، ’’دیکھو، مگر میری رضامندی سے‘‘، ’’طلاق یافتہ ہوں لیکن بہت خوش ہوں‘‘، ’’مجھے کیا معلوم، تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘، ’’نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں‘‘، ’’کھانا خود گرم کرنا سیکھ لو، آو کھانا ساتھ بنائیں‘‘، اور ’’اپنا ٹائم آگیا‘‘، تو وہ نعرے ہیں، جن سے عام عورت کا ذہن تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ذہن سازی کا نیا حربہ ہے جس سے عام گھریلو عورتوں کو وہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا اسلام میں دُور دُور تلک کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ ایسے بیہودہ لفظوں سے عورت کو کون سے حقوق دلوا رہی ہیں ؟
جب کہ بعض سلوگنز، اسکیچز، نعرے تو دہرائے بھی نہیں جاسکتے کہ انہوں نے تو یورپ تک کو مات دے دی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ایک روزہ بے مقصد اُچھل کود، ناٹک، پُتلی تماشے (حرفِ عام میں ٹوپی ڈرامے) سے حاصل وصول کیا ہو رہا ہے؟ معاشرے کو غلیظ کرنے کے سوا آخر کون سے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں؟
اِن بے ہودہ پلے کارڈز بینرز، سلوگنز، اسکیچز سے اُس عام استحصال زدہ عورت کے مسائل، مشکلات میں کیا کمی آ گئی؟ یہ چند نام نہاد چار چار پانچ مرتبہ طلاق یافتہ ہوتی ہیں اور یوں سڑکوں پر نکل کر بیہودگی پھیلا رہی ہوتی ہیں ۔ان لوگوں کا مقصد واضح ہے ۔ اسلام کی عورت کو اس کے مقصد سے ہٹانا چاہتی ہیں جو مقصد اسلام نے عورت کو دیا ہے ۔
اسلام کی عورت کیسی ہے ؟ میرے نزدیک یہ ایک عالمگیر سچائی ہے کہ مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ اس کی انتہائی خوبصورت دلیل مباہلہ ہے جب عیسائیوں سے مناظرہ کے لیے سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھ خاتون جنت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہ تشریف لے گئیں۔ کربلاء میں اور سفر شام میں بنت علی علیہ السلام سیدہ زینب سلام اللہ علیہ عنھا نے بقائے اسلام میں اپنا کردار نبھا کے دین اسلام کو ایک روح بخشی۔اس سے بڑھ کر میں عورت کا مقام کیا لکھوں؟
لیکن ان چند بے حیا اوباش قسم کی عورتوں نے خود ساختہ عورت کے حقوق بنا رکھے ہیں ؛ جو عورت کے نام پر ایک سیاہ دھبہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ چند غلیظ بے حیا، بے ڈھنگ ،دو ٹکے کی عورتیں جنہوں نے ہمارے معاشرے میں تباہی مچا رکھی ہے، ہمیں ایسی بیہود کاریوں سے جان چھڑانی ہے۔ یہ جاہل ٹولہ عام عورت کے اصل مسائل سے نابلد ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس شان دار ’’عورت آزادی مارچ‘‘ میں نکاح جیسے مقدّس بندھن، سنّتِ نبوی ﷺ کی تضحیک کی جاتی ہے ۔ طلاق جیسے فعل (حلال کاموں میں ناپسندیدہ ترین) پر حد درجہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
ایک عام عورت کے حقیقی مسائل، مشکلات کا تو ان بینرز میں کہیں ذکر ہی نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ اِن خواتین کو تو شاید اُن مسائل کا ادراک بھی نہیں کہ عام غریب عورت کو آج کے زمانے میں کون سے مسائل درپیش ہیں؟
جس درجے پر فائز ہونے کے سبب عورت کے قدموں تلے جنّت رکھ دی گئی، اُسے مشینی عمل کہہ کر احتجاج کیا جاتا ہے ۔
حجاب و پردے کے دینی احکامات، شعائر کو بھی مَردوں کے ظلم و زیادتی کے کھاتے میں ڈال کر، اُن کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔
ویسے میری سمجھ سے تو یہ بات ہی بالاتر ہے کہ اِن عورتوں کا اصل جھگڑا کس سے ہے، دین سے، تہذیب و اخلاق، اقدار و روایات سے یا صنفِ مخالف سے؟؟
اور کیا اس بے ہودگی، بے حیائی، پھکّڑ پن، شور شرابے اور زور زبردستی سےشعائر اللہ، احکاماتِ الٰہی، معاشرتی و سماجی رویّوں یا مَردوں کی فطرت، ساخت و ذہنیت میں کوئی تبدیلی ممکن ہے؟ دنیا بھر میں احتجاج، مظاہرے، جلسے جلوس ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کی نشان دہی، حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، لیکن فوکس، مقاصد ہی پر رہتا ہے، نہ کہ محض دنیا دکھاوے اور ذرائع ابلاغ کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے اصل مسائل، مقاصد پسِ پشت ڈال کر نان ایشوز کو ایشوز بنا دیا جائے۔
ہمارا تو ان فیمینزم کی پرچار کرنے والی، نام نہاد روشن خیال، لبرل خواتین سے صرف ایک سوال ہے کہ موقع تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا تھا، تو پھر دنیا بھر کی عورت اور خصوصاً پاکستانی عورت کے اصل مسائل کیوں اجاگر نہیں کیے گئے۔ وہ کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ، قرآن سے نکاح، تعلیم کا حق، لڑکیوں کی خرید و فروخت، وراثت میں حصّہ، تیزاب گردی، زیادہ مشقّت، کم اُجرت، بیٹا، بیٹی میں تخصیص، بچّیوں سے زیادتی، جنسی ہراسانی، ملازمتوں کے مواقع نہ ملنا، مرضی پوچھے بغیر رشتہ طے کردینا، علاج معالجے کی مناسب سہولتیں حاصل نہ ہونا اور نان نفقہ جیسے معاملات، مسائل کیا ہوئے۔ کیا اس عورت مارچ کا محور و مرکز، چارٹر محض مَردوں پہ طعنہ زنی، ذمّے داریوں سےآزادی ہی ٹھہرا؟ یہ صرف ایک بے مقصد اور ایسا معاشرہ چاہتی ہیں جس میں صرف مغربی جھلک ہو۔
درپیش عورت کے کسی ایک دیرینہ مسئلےپر بھی انہوں نے آواز بلند نہیں کی۔
چلیں یہ نام نہاد یہی بتا دیں کبھی انہوں نے ریپ ہونے والی بیشمار خواتین و سمیت بچیوں کے حق میں کچھ کیا ہے؟ انہوں نے کبھی کشمیر و فسلطین و برما دنیا کے کیسی کونے میں کٹتی اور عصمت دری ہوتی مسلم خواتین کے لیے کچھ کیا ہے؟ کس پلیٹ فارم پر انہوں نے اُن سسکتی عورتوں کے لیےآواز اٹھائی ہے؟
کیا انہوں نے”ڈاکٹر عافیہ صدیقی ” کے حق کے لیے آواز یا کوئی بینرز بلند کر رکھا ہے؟ کیا انہوں نے سندھ میں موجود زینب جس کا سارا خاندان قتل کر دیا گیا ؛ اس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا؟ نہیں نا؟ تو پھر یہ عجیب و غریب حُلیوں، کھلی باچھوں، ایک کان سے دوسرے تک پھیلی نمائشی مُسکراہٹوں کے ساتھ، بے ہودہ لباس زیب تن کیے ،بلند ہاتھوں میں بے مقصد، فضول پلے کارڈز اٹھا کر چوکوں، چوراہوں پہ آ کے پایا بھی، تو کیا پایا، محض لعنت ملامت، رسوائی، جگ ہنسائی۔ اِک سوشل میڈیا ہی نہیں، کہاں کہاں اس ’’آنٹی مارچ‘‘ کے تذکرے نہیں ہورہے۔
یہ چند آوارہ بد چلن بد ذات ،یہ چھپکلی نما شکلوں والی جاہل بے ضمیر دو ٹکے کی لالچی مغرب کی چمکتی مرغیوں سے مرعوب غلیظ سوچ والیوں کو ہم سب مسلم باحیا عورتوں کی طرف سے پیغام ہے کہ، کان کھول کر سُن لو ، تمہیں ہمارے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، ہم اپنے مسائل خود حل کرنا اور نمٹانا جانتی ہیں ، ہم پاکستانی عورتیں تمہیں واضح تنبہیہ کر رہی ہیں۔ تم ہمارے مسائل کے لیے یوں سڑکوں پر ننگی مت نکلو کہ عورت کو دیکھ کر بھی شرم آ جائے ، ہمیں تمہارے مظاہروں کی تمہاری آواز کی قطعاٙٙ ضرورت ہی نہیں ہے ۔
تم جس نگر کی پیدوار ہو جن کے بل بوتے پر اچھل کود کر رہی ہو وہاں ہی دفعہ ہوجاو، میرے ملک و ملت کو اپنی گندگی سے آلودہ مت کرو ۔تمہارا ننگ پن یہاں ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے۔
میرے خیال سے جو پلے کارڈز انہوں نے اٹھا رکھے ہوتے ہیں اور ان پر لکھی عبارتیں یہ صاف بتا رہی ہوتی ہیں کہ؛ ان کا تعلق کس قبیل سے ہے۔ یہ شیطانی ٹولہ ہے جو ملک و ملت میں ایک شیطانی نظام معتارف کرانا چاہتا ہیے اور پھر فیمینزم کی تحریک تو اب اُن معاشروں میں بھی دم توڑ رہی ہے، جنہوں نے اس کی بنیاد ڈالی، تو مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسے کس کے ایماء پر ابھارا جا رہاہے؟
میری مسلم بہنو!! ایسی تمام چالوں، حربوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل کر ناکام بنانے کا وقت ہے ۔ اس بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کو فوری لگام دینا بہت ضروری ہو گیا ہے ،تاکہ یہ فحاشی ہماری نسلوں تک نہ پہنچ سکے ، تاکہ آئندہ کسی کی دینِ اسلام، سنّتِ رسول ﷺ اورآئینِ پاکستان کا اس طرح مذاق اُڑانے کی ہمّت نہ ہو۔
ڈاکٹر زیبا افتخار، جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامی تاریخ سے بطور ایسو سی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔ 4 تحقیقی کتب کی مصنفہ ہیں۔ 2018ء میں صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ انہوں نے چند جملوں میں اپنا موقف کچھ اس طرح بیان کیا ’’جس قسم کے حقوق اور آزادی کی یہ خواتین ڈیمانڈ کر رہی ہیں، اُن کی تو نہ دینِ اسلام میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں۔ در اصل یہ دورِ حاضر کے تناظر میں بات کر رہی ہیں۔ انہیں اگر اپنے حقوق اور آزادی کی جھلک دیکھنی ہے، تو پہلی صدی ہجری کا اسلام دیکھیں۔ وہاں انہیں عورت کی پوری آزادی نظر آئے گی۔ وہ عورت تعلیم حاصل کرتی ہے، تو استاد بھی ہے۔ بازاروں میں تجارت کر رہی ہے، تو باغوں میں کام کرتی ہے۔ لکڑیاں چُن کے لاتی ہے، کھانا بناتی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ بھی چلتی ہے۔ اور پہلی صدی ہجری کے مَردوں کی بات کی جائے تو کیا اللہ کے رسول ﷺ کے اپنی ازواج، بیٹیوں، دایہ اور دیگر خواتین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے بہتر مثال دُنیا میں کہیں مل سکتی ہے۔ یہ جو آج کی عورت آزادی کا مطالبہ لے کر میدان میں آ گئی ہے، تو اس میں دینِ اسلام کا کوئی قصور نہیں، قصور ہے تو مَرد و خواتین کی ذہنیت و تربیت کا۔ گرچہ میرے خیال میں مَردوں کو تربیت کی زیادہ ضرورت ہے، لیکن عورتوں کو بھی اپنے طرزِ عمل کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔‘‘
صرف ہم ہی نہیں، پاکستان کی کوئی ذی ہوش عورت ان نعروں، مطالبات کی تائید کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ان باتوں نے ایک طرف عورتوں کے سر شرم سے جُھکا دئیے ہیں، تو دوسری طرف حقوقِ نسواں کے لیے برسوں سے کی جانے والی تحریک کو سخت نقصان پہنچایا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی عورت کے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حق، وراثت سے محرومی، علاج معالجے کی عدم دستیابی، غیرت کےنام پر قتل، گھریلو تشدّد وغیرہ، مگر ان مسائل پر بات کرنے کے بجائے ہاتھوں میں چند واہیات پوسٹرز اٹھانے کا مقصد ایک عام عورت سے دشمنی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
ہم غیر مُلکی فنڈنگ یا مغرب کی مصنوعی چکا چَوند سے متاثر ان چند عورتوں کو ہر گز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ آزادیٔ نسواں کے نام پر تضحیکِ نسواں کا سامان پیدا کریں۔
اس بےحیا ٹولے نے اللہ کے شاہکار پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ انہوں نے اسلام کے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتائے اور دلوائے گے حقوق پر سوال اٹھا دیا ہے۔ حقوقِ نسواں کو تضیحکِ نسواں میں بدل کر رکھ دیا ہے، اس سلسلے کو ہمیں یہاں ہی روکنا ہو گا ۔
دوسرا اہم نکتہ جب یہ غلیظ مارچ عورت کے نام سے منسوب ہے تو پھر وہاں ہجڑوں سے بدتر نام نہاد مرد کس لیے جمع ہوتے ہیں؟ کیا یہ مرد اپنی ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو ساتھ لے کرآتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں آتے ہیں؟ جب کہ ان کے ہر پلے کارڈر اور بینرز پر انہی مردوں کے خلاف گندے فقرے درج ہوتے ہیں؟
یہ جو مرد غیلظ مارچ میں شامل ہوتے ہیں ۔ ان سے چند سوال ہیں جو ہر عام عورت کے ذہن میں اٹھتے ہیں خواتین کے حقوق اور مسائل کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے اس حقیقت سے انکار نہیں۔ لیکن یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ کیا اب تک عورت مارچ ریلیوں سے متاثرہ خواتین کو کوئی فائدہ پہنچا؟ کیا عورت مارچ سے جو بچیاں تعلیم سے محروم ہیں ان کے خاندان انہیں اسکول بھیجنا شروع ہو گئے؟ کیا اب بچیاں ونی، کاروکاری اور رسوا نہیں کی جا رہیں؟ کیا جن خواتین پر تشدد کیا جاتا تھا اب ان پر نہیں کیا جا رہا؟کیا ریپ کم ہو گے؟ کیا گلی چوارہوں پر بچیوں ،لڑکیوں کو ہراسا کرنا ختم ہو گیا؟ طلاق کی شرح کم ہوگئی؟کیا ان مردوں نے جو حقوق طلب کرنے آتے ہیں وہ تمام حقوق اپنے گھر کی عورتوں کو دے رکھے ہیں؟؟
یک لفظی جواب ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جب کہ یہ مارچ ان سب باتوں کے علاوہ، عورت کو طلاق لینے اور بینادی حقوق سے روگردانی کرنا سکھاتا ہے ۔
مسلمان خواتین کو تمام حقوق اسلام نے دے رکھے ہیں ۔اسلام وہ آفاقی دین ہے جس نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام دیا تمام معاملات میں مرد و عورت کے حقوق و ذمہ داریوں کا تعین کیا ۔ ایک نظر اس ضابطۂ حیات پر اگر ڈالی جائے جو 1400 سال پہلے عطا کیا گیا ہے تو یقیناً سمجھ آ جائے گا کہ اسلام نے عورت کو جو تحفظ، عزت اور مقام عطا کیا ہے وہ کہیں اور ہے ہی نہیں۔ جس چادر اور چار دیواری کو آج بوجھ سمجھا جا رہا ہے اس سے آزادی حاصل کرنے والی خواتین یہ نہیں جانتیں کہ آزادی کے نام پر کون کون سے طوق گلے میں ڈالے گھوم رہی ہیں۔ آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کے حقوق کے بارے میں جو کاوش اہل مغرب نے کی ہے اس سے عورت خود مظلومیت اور استحصال کا شکار ہو کررہ گئی ہے۔ مغربی معاشرہ میں آ ج مردوں اور عورتوں میں مساوات کا جو ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ محض کھوکھلا نعرہ ہے، نئی نسل پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔معاشرہ تقسیم ہورہا ہے حقوق نسواں کے نام پر جو سرگرمیاں یورپ اور امریکہ میں جاری ہیں وہ خواتین کے احترام میں اضافے کی بجائے ان کی مسلسل تحقیر کا باعث بن رہی ہیں۔
حقوق نسواں کا اصل مقصد حاصل کرنا ہے تو پورے اسلامی طریقے سے کشمیر، فلسطین، شام، بھارت کی ان مظلوم عورتوں کیلئے آزادی مارچ کرو جو ظلم و جبر کا شکار ہیں۔مقبوضہ کشمیر اور دہلی میں وہ مسلمان لڑکیاں جو ریپ کر کے ماری جا رہی ہیں ان کے لئے آواز بلند کرو۔ وہ تمام مرد جو عورتوں کو بدنام کرنے والی خواتین مارچ کا سہارا لے کر عزت دار خواتین کو بھی ایک ہی لکڑی سے ہانک کر عورت کی تذلیل کرتے ہیں وہ اس فساد سے باہر آئیں اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ عورت کی عزت اور حقوق کیلئے سچ اور حق کی آواز بلند کریں۔ مرد ہیں تو مردوں والے کام کریں نہ کہ ہیجڑوں کے لیے بھی شرمندگی کا باعث بنیں ۔
عورت نام پر غلیظ مارچ کرنے والے مرد و زن اور فساد منانے والے تمام جاہلوں کو واضح پیغام دیں کہ اب اور نہیں ، اسلام اور ملک دشمن شازشوں کو اب اور نہیں ابھارا جائے گا ۔ عورت کو صرف اسلام نے تحفظ، عزت، منفرد مقام و درجہ دیا اور اسلامی معاشرت نے اسے ثابت کیا۔ لہذا جو مرد جو عورت اس معاشرے کو قبول نہیں کر سکتی وہ وہاں چلی جائے جہاں ایسا ماحول اس کے لیے میسر ہے ۔ ہم اپنے ملکِ پاکستان میں اپنے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے یہ گندا ماحول یہ غلیظ مارچ کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
اِن بیکن ہاؤس اور LGS کی تعلیم یافتہ پورا دِن اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھنے والی خواتین کو کون سمجھائے کہ اسلام طاقتور، آزاد اور مضبوط عورتوں کی کیا داستانیں رکھتا ہے۔
مختصر یہ بھی بیان کر دیتی ہوں,کیوں کہ ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے بیٹھوں تو صحفے سیاہ ہوتے جائیں ۔
تو سُنیں!!!!!!!
اسلام کی طاقتور عورتوں کی داستانیں، عرب کی سب سے بڑی مالدار اور کاروباری عورت کے مقام کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا لیں کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نےاپنی کیفیت کسی مرد کی بجائے اُسی مضبوط خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پہلو میں پناہ لی اور اُن ہی کو اپنا حال سنایا
بعثت سے پہلے جب ابوالعاص خود رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہا کہ میں آپ کی بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں تو حضور ﷺ اس کو کہتے ہیں کہ مجھے اجازت لے لینے دو زینب سے اور جب گھر آ کر بیٹی سے پوچھتے ہیں کہ تیرے خالہ زاد نے تیرا نام لیا ہے تجھے منظور ہے؟ تو زینب کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور وہ مسکرا دیتی ہے۔ زینب کی مرضی پتہ لگنے کے بعد ابوالعاص کو ہاں کرتے ہیں۔
consent کا اصل مطلب جاننا ہو تو اسلام کو حقیقی معنوں میں پڑھیے شاید بہتر لبرل بن پائیں اور سمجھ پائیں کہ عورت کو درپیش سب مسائل معاشرتی ہیں اور اسلامی تعلیمات ان کو ختم کرنے کی راہیں دکھاتی ہیں کہ اسلام تو اتنا لبرل ہے کہ عورت اگر اپنے بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ بھی مرد سے طلب کرے تو وہ بھی اس کو ادا کرنا ضروری ہے۔ اس لیے معاشرتی برائیوں کو اسلام سے مت ملائیں اس طرح کی بیہودہ فحش حرکات سے شریعت سے ٹکر مت لیں ۔ جو بیہودہ لباس پہن کر مارچ کیا جاتا ہے اولین وہی اس قابل نہیں، وہی اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا ہے تو کیسے یہ سب اسلامی جہموریہ پاکستان کی خواتین کے لیے کار آمد ہو سکتا ہے ۔
لہذا خواتین کے حقوق کو آڑ بنا کر خواتین کی توہین کرنا بند کیا جائے۔ عورت کی پیشانی پر شرم و حیا کا آنچل خوب جچتا ہے اس لیے اے بنتِ حوا اس آنچل کو اپنی کمزوری مت بناؤ اسے کسی کے ہاتھ میں مت دو بلکہ وقت کا تقاضہ ہے اس آنچل سے انقلاب کا پرچم بلند کرنے کا۔ اے اسلام کی خواتین!! اپنے حقوق کا پرچم بلند کر کے بتا دو کہ ” میری حیا میرا ایمان ہے۔” مجھے حقوق میرا مذہب دینِ اسلام نے دے دئیے ہیں۔”
عورت کی خوب صورتی حیا ہے اور تحفظ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنا ہے ۔
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
غازیائی دین کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر۔
ڈاکٹر محمد اقبال
تحریر: اقصیٰ حسن
haqeeqat 💯
بہت خوب ماشااللّہ
اللّہ تمام امت مسلمہ کی عورتوں کی خیر کرے