عورت آزادی مارچ کا پوسٹ مارٹم

Article by Abroo Rajpoot
صنف نازک یعنی عورت معاشرے کا ایک انتہائی اہم جزو ہے، معاشرے کی تکمیل عورت کے بغیر ممکن نہیں، ایک اچھا معاشرہ یا ایک برا معاشرہ تشکیل دینے میں عورت کا اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے کسی فلسفی کا کہیں پڑھا ہوا جملہ ذہن کے پردے پہ لہرا رہا ہے کہ “تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھا معاشرہ دوں گا”۔ عہد قدیم میں عورت کی حالت انتہائی ابتر تھی، پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دیا جاتا، زمین میں زندہ دفن کر دیا جاتا یا اگر زندہ رہ ہی گئی تو ایسی بری زندگی کہ اللہ کی پناہ۔ یہ عورت شوہر کی وفات کے بعد وراثت کی طرح بیٹوں میں تقسیم ہوتی یہ تو حالت تھی زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی، لیکن دیگر نام نہاد مہذب معاشروں میں بھی عورت عزت و احترام کے بنیادی حق سے محروم تھی۔
بیبیلونیئن سولائزیشن میں اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرتا تو بدلہ اس سے نہ لیا جاتا، اسکی زوجہ سے لیا جاتا یعنی قتل کرنے والے شخص کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اپنی جگہ اپنی بیوی کو اپنے جرم کی سزا دلوائے۔
اسی طرح یونانی سولائزیشن کو دیکھیں تو عورت کو ہر برائی کی جڑ تصور کیا جاتا، یعنی عورت کو”منحوس” ترین سمجھا جاتا۔
اسی طرح رومن سولائزیشن کو دیکھیں تو وہاں خاوند کو اپنی زوجہ کا قتل کرنے اختیار حاصل تھا، وہ چاہتا تو قتل کرسکتا تھا اسکا یہ جرم، جرم تصور نہ کیا جاتا۔
اسی طرح مصری سولائزیشن کو پڑھیں تو وہاں عورت کو شیطان کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔
پھر اسلام اپنی وسیع برکتیں لیے ہوئے آ گیا، وہ عورت جو در بدر اور رسوا تھی، اسکے سر پہ عزت و تکریم کی چادر آ گئی، کل تک بیٹوں کی وراثت بننے والی عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی تھی، زندہ دفن ہونے والی بیٹیوں کو رحمت کہہ دیا گیا۔ بیوی کو خوف خدا کے بعد سب سے بہتر نعمت قرار دے دیا گیا، بہنوں کو وراثتی حقوق عطا کر دیے گئے۔
جب اسلام نے عزت کی چادر دے دی تو میں بطور ایک مسلمان لڑکی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسے کون سے حقوق ہیں جن کو منوانے کے لیے ۲۰۱۸ سے نمودار ہوا عورتوں کا ایک مخصوص ٹولہ ہر ۸ مارچ کو سڑکوں پہ بے حیائی کا مظاہرہ کرتا اور ہلڑ بازی مچاتا نظر آتا ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ریاست پاکستان میں عورتوں کے سماجی و بنیادی مسائل تعلیم سے محرومی، غربت، جبری شادی، غیرت کے نام پر قتل، تشدد، اور ہراسگی ہیں لیکن عورت مارچ میں ان کا تذکرہ کہاں ہے؟ میں نے جب عورت مارچ کے مطالبات کو سمجھنے کی کوشش کی تو میری روح تک کانپ گئی یہ کیسے مطالبات تھے؟ یہ کیسی آزادی کی بات کی جا رہی تھی، یہ عورت کو نوچنے کی آزادی عورت ہی مانگ رہی تھی، یہ آزادی کے نام پر نکاح کا خاتمہ چاہنے والا طبقہ پاکستان کی باحیا عورتوں کا نمائندہ ہرگز نہیں۔
یہ عورت کی آزادی کے نام پہ قبحہ خانے آباد کرنے کی اجازت مانگی جا رہی ہے، کیا ایک مسلمان عورت ایسا کچھ سوچ سکتی ہے؟ پھر جب ان عورتوں میں سے کچھ کو جاننے کی کوشش کی تو یہ عقدہ کھلا کہ ان میں سے اکثر سیکولرازم اور لبرل ازم کی پیداوار ہیں جن کو دین اسلام سے کوئی غرض، کوئی واسطہ نہیں اور وہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے پاکستان کی بنیادوں سے کھلواڑ کر رہی ہیں۔
مجھے کوئی بتائے کہ عورت کے حقوق کا غیر اخلاقی حرکات سے کیا لینا دینا؟ کھانا گرم کرنے کا عورت کے حقوق سے کیا تعلق؟ عورت کے حقوق کا بیٹھنے کے انداز سے کیا تعلق؟ عورت کے حقوق کا موزے ڈھونڈنے سے کیا تعلق؟ یہ کونسی غلاظت ہے؟ یہ کونسا کیچڑ ہے؟ یہ کیسے حقوق ہیں؟ کچھ گھٹیا قسم کے جملوں پہ بات کرنے سے تو میرا قلم قاصر ہے لیکن یہ عورتیں ان جملوں کو پلے کارڈز پہ لکھ کر سرعام گھومتی ہوئی کونسا حق حاصل کرنا چاہ رہی ہیں؟ واللہ یہ عورتوں کے مسائل نہیں، عافیہ صدیقی بھی تو ایک عورت ہے اور اس پہ تو انسانی تاریخ کا بدترین تشدد نام نہاد مہذب مغرب نے کیا جو ابھی تک جاری و ساری ہے، یہ عورتیں عافیہ صدیقی کے حق کے لیے کیوں آواز نہیں اٹھاتیں؟
یہ چاہتی ہیں کہ یہ اس پاک سرزمین پہ بوائے فرینڈ، گرل فرینڈز کلچر کو عام کرتے ہوئے نکاح کا خاتمہ کریں، یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنایا جائے، یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کو مادر پدر آزاد ملک بنایا جائے۔
یہ صرف چند خواتین کا خواتین مارچ ( انہیں خواتین کہنا بھی ویسے خواتین کی توہین ہے، لیکن ابھی تک کوئی متبادل لفظ موجود نہیں لہذا اسی سے کام چلانا پڑے گا) غیرملکی فنڈنگ اور این جی اوز کے ذریعے پورے ملک کی خواتین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، ایک مسلمان عورت کبھی ان چیزوں کا تصور بھی نہیں کر سکتی جو کہ عورت آزادی مارچ کے نام پر منوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو آزادیٕ اظہار کا حق عطا کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۱۶ شہریوں کو پرامن اجتماع کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح اپنے افکار و نظریات کی ترویج کے لیے آرٹیکل ۱۷ میں انجمن سازی کی آزادی دی گئی ہے اور آرٹیکل ۱۹ کے تحت ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق بھی دیا گیا ہے لیکن آرٹیکل ۱۹ میں ہی یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ آزادیٕ اظہار کے نام پر اسلام کی عظمت، امن عامہ یا تہذیب و اخلاق کو پامال نہیں کیا جا سکتا اور یہ حالیہ عورت مارچ سراسر اسلام و پاکستان کی بنیادوں سے ٹکراتا ہے، اس عورت مارچ پر فی الفور پابندی عائد کی جانی چاہئیے اور عورتوں کو جو حقوق اسلام نے عطا کیے ہیں اور پاکستان کا آئین جو حقوق عورتوں کو فراہم کرتا ہے ان کی فراہمی ہنگامی بنیادوں پر یقینی بنائی جائے تاکہ کوئی بھی مسلمان عورت ان کے گھٹیا ایجنڈے کا شکار نہ ہو، مغرب کے زیرِ اثر ہونے والے اس “عورت آزادی مارچ” کو ہر غیور و باحیا پاکستانی عورت مسترد کرتی ہے۔
تحریر: آبرو راجپوت
Appreciated 👍