آزاد خیالی اور روشن خیالی میں فرق

Article by Bint-e-Sajjad
آزاد خیالی نام ہے من مرضی کا اور من مرضی انسان کو بنیادی معاشرتی اصول و ضوابط اور حدود سے بغاوت پر اکساتی ہے جو کسی بھی مہذب انسانی معاشرے کو لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس کے تباہ کن اثرات ہمیں مغرب میں نظر آتے ہیں۔ آزاد خیالی کے نظریات دراصل 1848ء میں ہونے والے مغربی انقلاب کا نتیجہ ہیں، جن کا مرکز فرانس تھا جب درمیانی طبقہ نے بادشاہت کے نظام سے چھٹکارا پانے کیلئے جدوجہد کی۔ اس سب کا مقصد بادشاہت کی جگہ جمہوری نظام، آزاد تجارت و صنعت کا ارتقاء، سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل اور کسی مذہبی حدود کے بغیر آزاد زندگی گزارنا ہے۔ انقلاب امریکہ بھی انہیں تحریکوں کی مرہون منت ہے۔ جبکہ دوسری طرف روشن خیالی نام ہے نئی مثبت سوچ کا، انسانی زندگی میں وہ مثبت تبدیلی جو پرانی و بوسیدہ رسومات و روایات کی دیواریں گرا کر نئی حدود اور اصول ضوابط کا تعین کرتی ہے جن پر عمل پیرا ہوکر ہی انسانی معاشرہ اپنا وجود برقرا رکھ سکتا ہے۔ دینِ اسلام انسانی زندگی میں وہی حقیقی انقلاب اور جدت لے کر آیا۔
زمانہ جاہلیت کی وہ تمام تاریک اقدار مثلاً مرد و زن کا آزادنہ اختلاط، ہم جنس پرستی، شراب، سود، جوا، زنا، عریانی اور حلال و حرام کی بے امتیازی وغیرہ جنہیں اسلام نے قرآن و سنت کے رہنما اصول و قواعد کی روشنی میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، مغرب نے پھر سے نئے میک اپ کے ساتھ جدت، آزاد خیالی و ترقی کے نام سے پیش کر دیا۔ ہمارے ہاں بھی نام نہاد آزاد خیال لوگ جدید مغربی تہذیب و اقدار کو روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہیں اور انہیں معاشرے میں ترویج دینے کے خواہاں ہیں۔
مثلاً آج جن معاشرتی تعصبات کو آڑ بنا کر لبرل خواتین جدید مغربی اقدار کا حوالہ دیتی ہیں ان تمام تر تعصبات و نظریات کو دین اسلام 1400 سال پہلے ہی باطل قرار دے چکا۔ اسلام کے روشن خیال نظریات نے ہی تو عورت کو زمانہ جاہلیت کی قدامت پسندانہ روایات سے نجات بخشی۔
اسلام سے پہلے تک عورت کی معاشرے میں کوئی جداگانہ حیثیت تک نہ تھی بلکہ اسے محض مرد کے جی بہلانے کا سامان سمجھا جاتا رہا۔ اسلام نے عورت کے جداگانہ تشخص کو تسلیم کیا اور اسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقام فائز کیا۔ اسلام نے پردہ کا حکم دے کر عورت کو تحفظ فراہم کیا۔ حجاب اسلامی خواتین کے عظمت اور وقار کی علامت ہے۔ جبکہ جدت اور فیشن کے نام پر مغربی اقدار عورت کے وجود سے لباس چھین لینا چاہتی ہے اور زمانہ جاہلیت کی طرح اسے غیر مردوں کے لئے نمائش کی کوئی چیز اور رقاصہ بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔
تعلیمِ نسواں کی بات کی جائے تو اسلام کی تاریخ میں ہماری رہنمائی کے لئے کئی روشن کردارموجود ہیں۔ ہمارے پیغمبر اسلام خاتم النبیینﷺکی زوجہ سیدہ طاہرہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا، اسلام کی پہلی عظیم خاتون تاجرہ تھیں۔ نیو یارک یونیورسٹی میں قدیم مشرقِ وسطی کی تاریخ کے پروفیسر رابرٹ ہوۓ لینڈ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کے تجارتی قافلوں کی پوری عرب دنیا میں رسائی تھی۔
حضرت شفا بنت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تاریخ اسلام کی وہ پہلی خاتون صحابیہ ہیں جنہیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ کمشنر‘ مقرر کیا گیا۔
مغرب کا متعارف کردہ سرمایہ دارانہ نظام منافع خوری، سود اور غریب کے استحصال کو ترویج دیتا ہے۔ لیکن اسلام نے کاروبار اور تجارت کو سود جیسی لعنت سے پاک کر کے انصاف پر مبنی روشن اصولوں سے نظم و ضبط قائم کیا۔
اس طرح مغرب جمہوری نظام کا قائل ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوری نظام حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین طاقت کی جنگ، باہمی نفرت، سیاسی دھڑوں میں تقسیم اور انتشار کا باعث بن رہا ہے۔ جبکہ خلافت اسلامیہ میں خلیفہ مطلق العنان نہیں ہوتا بلکہ شورٰی کے زیر سایہ رہ کے کام کرتا ہے اور شوری حزب اختلاف کی بجاۓ حزب معاون کی طرح خلیفہ کو ہمیشہ درست راہ پر لانے کا کردار ادا کرتی ہے۔ مغربی جمہوری نظام نے تو مسلمان قوت کو منتشر کر دیا یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی بیرونی دشمن کسی مسلمان ملک میں حملہ آور ہوں تو ایک دوسرے سے الگ مسلم ریاستیں فقط خاموش تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
ایک طرف تو یہ لبرلز خود کو انسانی حقوق کا علمبردار اور کسی بھی تعصب سے ماورا قرار دیتےہیں دوسری طرف خود یہ لوگ مذہبی اور دینی طبقات کے لئے گہرے تعصبات اور متشدد رویہ رکھتے ہیں۔ آزاد خیالوں کی ایک اکثریت ہے جو سامراجی حکومتوں کو دینی طبقات پر ظلم و جبر پر اکساتی رہی ہے ۔ انسانی حقوق کی اتنی ہی فکر ہے تو یہ آزاد خیال لوگ آج مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف کچھ کیوں نہیں کرتے۔ جدید یورپ کی قائم کردہ ناجائز اسرائیلی ریاست فلسطین میں جنگی جرائم کی ہر حد پار کر چکی لیکن ترقی یافتہ مغربی ریاستیں اسرائیل کو لگام ڈالنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ بلکہ دنیا کی بڑی جمہوری ریاست بھارت اور انسانی حقوق کا نام نہاد نمائندہ امریکہ خود اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی دین کا لبادہ اوڑھے آزاد خیالوں کی ایک خاص تعداد ہر دور میں پائی جاتی رہی ہے۔ جو دیندار لوگوں کو ترقی کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ تحفظ ختم نبوتﷺ اور تحفظ ناموس رسالتﷺ اور تقدسِ شعائر اسلام سے متعلق قوانین پر اٹھنے والی انکی آوازیں اور اعتراضات بخوبی واضح کرتا ہے کہ انکے تانے بانے دراصل اسلام دشمن اندرونی بیرونی قوتوں سے جا ملتے ہیں۔ کم از کم انکے رویے تو یہی ظاہر کرتے ہیں۔
مثلاً سیالکوٹ واقعہ سے لے کر سوات تک شعائر اسلام کے خلاف کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہو یہ لوگ فوراً سے پہلے اسے مذہب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے سوشل میڈیا تک قابل احترام علماء کرام کے خلاف باقاعدہ کمپین چلائی جاتی ہے۔ ہر طرف “ملا گردی بند کرو، ملاؤں کو پکڑو انہیں قتل کر دو انہیں مارو” وغیرہ جیسے نعروں کا طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ ان آزاد خیالوں نے آج تک نہیں کیا بلکہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے مذمت آتے ہی حکومتی ایوانوں سے لے کر میڈیا تک تمام تر توجہ مذہبی شدت پسندی کی طرف کر دی جاتی ہے۔
شریعت کی بات کرنے والے اسلام کے نام لیواؤں کو مذہبی شدت پسند اورانتہا پسند قرار دے کر جہاد کی نفی اور ایسی کسی بھی حق کی آواز کو مسلسل دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تو پھر یہ آزاد خیال لوگ کس ایجنڈے کے تحت پاکستان کو اسلامی ریاست سے لبرل سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں؟ دینِ اسلام اقلیتی حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اور پھر لبرلز کو اقلیتوں کا درد تو محسوس ہوتا ہے مگر کشمیر، شام و فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی آواز سنائی نہیں دیتی؟ عورت مارچ کرنے والوں نے آج تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ کیا وجہ ہے کہ مقدسات اسلام پر حملے ہوتے رہے مگر انکا دل یہاں پر کیوں نہیں دہلتا؟ مسلمان بچے کٹتے رہے بھوک پیاس سے مر جائیں شہر اجڑ جائیں لوگ زندہ جل جائیں انکو تکلیف محسوس نہیں ہوتی جہاں مسلمانوں کو تحفظ دلانے کی بات ہو، جہاد کی بات ہو تو انکے امن کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف یہ لوگ اسلام کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف جدید مغربی اقدار کا پرچار کرتے ہیں
ڈرو خدا سے ہوش کرو کچھ مکر و ریا سے کام نہ لو
یا اسلام پر چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو
تحریر: بنت سجاد



