عظمتِ قرآن اور کردارِمسلم

Article by Bint-e-Arif
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ اُو لایزال است و قدیم
لفظ قرآن “قرء” سے مصدر ہے جسکے معنی ہیں مطالعہ کرنا،پڑھنا،جمع کرنا
قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جس میں اللہ عزوجل نے قیامت تک کے تمام علوم کو جمع کردیاہے۔ یہ آفاقی، عالمگیر، ہمہ جہت اور سماوی کتب میں کلام الٰہی کا آخری ایڈیشن، قرآن مجید سابقہ صحائف وکتب کی تصدیق کرتے ہوئے قیامت تک آنے والی تمام نوع انسانی کے لیے سرمایۂ رشد وہدایت ہے یہ کتاب زندگی کے تمام معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، عائلی، خاندانی اور حکومتی پہلوٶں کا احاطہ کرتی ہے۔ قرآن، قلب مصطفٰیﷺ پہ نازل ہوا، یہ صاحب قرآنﷺ کا اعجاز ہے کہ انہیں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یا دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح بنا تعینِ کون و مکان جدھر مصطفٰیﷺ کا رخ مبارک ہوتا قرآن نازل ہوتا رہتا۔
قرآن کے بارے کلام الہی میں تین الفاظ مذکور ہیں
١- کلام
٢- قرآن
٣- کتاب
اللہ تعالٰی سورة البقرة کی اوائل آیات میں فرماتا ہے
ذلک الکتاب لا ریب فیہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رب نے کتاب کیوں فرمایا؟
یہ کتاب کلام بھی تو ہے اور قرآن بھی ہے۔
تو قارئین حضرات
یہاں میں یہ اس حقیقت کا پردہ فاش کر کے دنیا کو محافظین قرآن کی عظمت، رفعت اور مقام کی اک جھلک دکھانا چاہتی ہوں کہ جب جبرائیل علیہ السلام آیات لائیں تو وہ کلام کہلاتا ہے اس میں شک کی گنجائش نہیں اور جب مصطفٰی کریم حضور جانِ جاناںﷺ تلاوت فرمائیں تو وہ قرآن بنتا ہے۔
ہاں ہاں سنو، اے دنیا کے بد طینت،عبد الطاغوت بد خصلتو سنو
تدوین قرآن کا شرف پانے والے
قرآن کو سینوں میں سجانے والے
قرآن کو کھالوں،پتوں،چھالوں اور پتھروں پہ لکھ محفوظ بنانے والے
جب حفاظت قرآن کے واسطے جامع القرآن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اس قرآن کی حفاظت کا اہتمام فرما کر اک کتابی شکل دی تو رب فرماتا ہے،
اس کتاب میں بھی کوئی شک نہیں جو میرے محبوب کے غلاموں نے جمع کی۔ قرآن کے بارے اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن پہاڑوں پہ نازل کرتے تو وہ اس کلام الٰہی کی تاب نہ لا سکتے، مگر قربان جائیں اس سینہ الم نشرح، اس قلب اطہر پہ جس نے یہ کلام الہی اپنے سینہ میں سمویا اور نوع انسانی کو نہ صرف انسانی حقوق کا چارٹر عطا کیا بلکہ سیاست و معیشت و اقتصادیات و معاشرت کا اک انسائیکلوپیڈیا عطا کیا۔
قرآن کلام الٰہی جو چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی ایک لفظ کی تحریف سے بھی پاک ہے کیونکہ رب تعالٰی نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا قرآن پاک کے سورہ الحجر میں کچھ یوں ارشاد ہوتا ہے کہ
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ
ترجمہ: “بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں”
یہ اسی حفاظت کی برکت کا نتیجہ ہے کہ مقدس کتاب کروڑہا مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے، تاریخ کے ہر دور میں مخالفین اسلام کی کوشش رہی ہے کہ وہ اس کلام میں ردوبدل کرسکیں لیکن وہ اپنے ناپاک عزاٸم میں کبھی کامیاب نہ ہوئے۔ کیونکہ رب العالمین قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلاَّ الظَّالِمُونَ
ترجمہ:”حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قرآن ایسی نشانیوں کا مجموعہ ہے جو اُن لوگوں کے سینوں میں بالکل واضح ہیں جنہیں علم عطا کیا گیا ہے، اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم ہیں”
بقول شاعر
کیوں نہ ہو اسلام غالب دنیا بھر کے دینوں میں
وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں
قرآن کی حفاظت شمس و قمر کی روشنی کی طرح واضح ہے جسے غیر مسلم بھی جھٹلا نہیں سکتے غیر مسلم مفکرین سر ولیم میور، آرنلڈ، آرتھر کیتھ وغیرہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہیں کہ کلام الہی اپنے زمانہ نزول سے تاحال ہر قسم کی تحریف سےمحفوظ ہے۔
ولیم میور اپنی کتاب
“Life of Muhammad”
کے دیباچہ میں لکھتا ہے
” قرآن کے الفاظ اور حروف وہی ہیں جو آج سے تیرہ سو سال قبل محمد کی زبان سے نکلے”
ایک اور برطانوی عیساٸی پروفیسر جانسن لکھتا ہے کہ “قرآن شاعری نہیں ہے، وہ تاریخ نہیں ہے اور نہ وہ سوانح عمری ہے وہ انجیل کے پہاڑی کے وعظ کی طرح مجموعہ امثال نہیں ہے، وہ مابعد الطبیعاتی مکالمہ نہیں ہے، جیسا کہ بدھا کے سوتر میں پایا جاتاہے وہ موعظت بھی نہیں ہے جیساکہ افلاطون کے یہاں عاقل اور نادان کی مجلسوں میں پایاجاتاہے۔
وہ ایک پیغمبر کی پکار ہے اس میں ایسی معنویت ہے جو انتہاٸی آفاقی ہے اور وہ اتنامطابق وقت ہے کہ ہر زمانے کی آوازیں اس کو ماننے پر مجبور ہیں خواہ وہ اس کو چاہیں یا نہ چاہیں”
اب جب باطل قوتیں اسے جھٹلا نہیں سکتی تو اسے نعوذ باللہ جلا کے مسلم اُمہ کے سینوں کو چھلنی کرتی ہیں، وہ اپنی گندی باتوں کو نہیں جلاتے اور ہماری کل کاٸنات کی فریڈم آف سپیچ کے نام پہ توہین کرتے ہیں اگر وہ واقعی مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو آیت کے مقابل لاٸیں اپنا کلام، قرآن خود انہیں چیلنچ کر رہا کہ
قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا
ترجمہ: تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
پھر دوسری جگہ کچھ یوں چیلنج کیا کہ
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
ترجمہ: اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے سب مددگاروں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
سورج مغرب سے تو طلوع ہو سکتا ہے،اس کائنات آب و گل کی بساط تو لپیٹی جا سکتی ہے مگر کوئی بھی قرآن کے جیسا کوئی کلام نہیں لا سکتا یہ بات اظہر من الشمس ہے اور حق ہے، حق ہے، حق ہے۔
ان نازک ترین حالات میں اجتماعی طور اُمت مسلمہ پہ بالخصوص اور انفرادی طور پہ ہم سب پہ لازم ہے کہ
اول: ہمارا قول و فعل اور ہماری زندگی اس قرآن کی آئینہ دار ہو اور اس نور علی نور قرآن، کتاب رحمت اور کتاب ہدایت کا سویرا ہر جگہ ہو تو ان دشمنان دین پہ ہیبت طاری ہو۔ اس سے ان کے دل دہل جائیں گے اور وہ ان قبیح حرکات سے باز رہیں۔
دوم: مسلم ممالک کو چاہئیے کہ وہ اُمت کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پہ عالم اقوام کے سامنے اپنے اسلامی تشخص کا احترام بحال کروائے اور ممکنہ تمام تر اقدامات اٹھائیں۔
سوم: ایسے ممالک کا ہر لحاظ سے بائیکاٹ کیا جائے۔
چار: اُمت میں جذبہ جہاد کو بیدار کیا جائے، اسلام جہاد سے تعبیر ہے اور اسی سے آج کے رسوا، کٹے پھٹے، تاراج، بےدیار و مددگار اسلام و مسلم ثریاِ اقبال اور آسمان کائنات پہ اپنی دھاک،اپنا ولولہ اور نظام رحمت قائم کر سکتے ہیں۔
اس بات سے چار دانگ عالم بخوبی واقف ہیں کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا راز اسی قرآن مجید میں ہے چنانچہ ایک مایہ ناز انگریز محقق آرتھر کیتھ اپنی کتاب
“A new theory of human evolution “
میں لکھتا ہے کہ
“The Egyptians were conquered not by the sword,but by the Quran”
اسی بابت اک اشارہ علامہ اقبال نے کیا کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نِگَراں خیز
کاشانۂ ما، رفت بتَاراجِ غماں، خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں خیز
از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفَساں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز از خوابِ گِراں خیز
اور اک اور مقام پہ علامہ اقبال فرماتے ہیں
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
اور مولانا حالی نے کچھ یوں اُمت کی بے بسی کی تصویر کشی کی ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اک مرد قلندر،مجدد دوراں،آسمان عشق کا درخشندہ ستارہ یہی کہتا ہوا اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا
کہ اٹھو بچو
یہ قرآن تمہارا ہے
یہ اسلام تمہارا ہے
یہ نبی تمہارے ہیں
اٹھو
اس قرآن کی حفاظت کی بات کرو، اس کے آئین کی بات کرو، اس دین کو غالب کرنے کی تدابیر کرو چاہے کفر کو یہ اک آنکھ نہ بھائے، کوئی تمہارے نبی، دین اور مقدسات کی توہین کرے تو ان کے خلاف عَلم جہاد بلند کرو۔
تحریر: بنتِ عارف





