بیداری کی پرکھ
Article by Bint e Aslam
پرانے وقتوں کی بات ہے جب جدید طرز کے تالے ایجاد نہیں ہوئے تھے جب دروازوں میں حفاظت کے پیش نظر سینسرز نہیں ہوتے تھے حتیٰ کہ دروازوں نے بھی رواج نہیں پایا تھا اور حفاظتی تالوں کا وجود نہ تھا تب حفاظت کی ذمہ داری گھر کے افراد پر ہوا کرتی تھی سب سےبہادر اور ذمےدار شخص چاق وچوبندی کے ساتھ پہرا دیا کرتے تھے تاکہ کوئی ڈاکو چور لٹیرا نقب زنی نہ کرسکے اور مال ومتاع نہ لوٹ سکے۔ جس قدر رکھوالے ذمہ دار تھے لٹیرے بھی شاطر تھےجب لٹیروں کو کہیں واردات کرنی ہوتی تو پہلے وہ بیداری کی پرکھ کیا کرتے تھے اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار تھا جس سے نہ صرف رکھوالوں کی بیداری کا اندازہ ہوتا بلکہ ان کی چستی اور مقابلے کی ہمت اور جرأت کا بھی پتہ چل جاتا۔ طریقہ کار یوں تھا کہ جس مقام پر واردات مطلوب ہوتی وہاں لٹیرے جانے سے قبل ایک پتھر پھینکتے اگر وہ پتھر فوری واپس آجاتا اور ردعمل بھی شدید ہوتا تو اندازہ ہوجاتا کہ رکھوالے نہ صرف بیدار ہیں بلکہ سخت مقابلے کی ہمت بھی رکھتے ہیں کسی بھی عمل کی صورت میں شدید ردعمل کا سامنا ہوسکتا ہے ایسے مقام سے لٹیرے دم دبا کہ بھاگ نکلتے اور اگر پتھر تو واپس آجاتا مگر ردعمل میں سختی نا ہوتی تو اس مقام کو مستقبل میں نقب زنی کےلیے مخصوص کرلیا جاتا اور اگر کوئی بھی ردعمل نہ آتا نہ جواب تو اس مقام پہ خوب لوٹ مار مچائی جاتی۔
وقت بدل گیا مگر لٹیروں کا یہ سنہری اصول نہ بدلا، تقاضے بدل گئے، مگر مطلب نہ بدلا، آج بھی لٹیرے اسی سنہری اصول کو تھامے اس پر عمل پیرا ہیں، آج بھی واردات سے قبل پتھر پھینکا جاتا ہے اور ردعمل کے حساب منصوبہ بندی کی جاتی ہے،
جی ہاں! ایمان کے لٹیرے اور اللہ کے دشمن اب بھی کچھ کچھ دن بعد پتھر پھینک کر ایمان کی حمیت کے رکھوالوں کی بیداری کی پرکھ کرتے ہیں کہ یہ رکھوالے کتنے بیدار اور کتنے پرعزم ہیں، اسی پرکھ کے بعد ہی اصل لوٹ مار مچائی جائے گی۔
رکیے رکیے رکیے۔۔
نہیں سمجھ لگی؟
تو بتاتی چلوں یہ جو ہر چند دن بعد بلند ذکر والے رسولﷺ کی ناموس پر نقب لگانے کی رزیل ناکام کوشش کی جاتی ہے، یہ جو ہر چند دن بعد اس کلام کو جلانے کی کوشش کی جاتی ہے جسے جِلا بخشی گئی ہے، یہ سب اتفاق اور ذہنی امراض نہیں بلکہ ان لٹیروں کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے ذریعے وہ اسلام کی حمیت کے رکھوالوں کی بیداری کی پرکھ کرتے ہیں اور یہ قیافے لگاتے ہیں کہ اصل لوٹ کب مچانی ہے؟
اب یہ ایمان والوں پہ ہے کہ وہ کس انداز میں ان کا پتھر واپس پھینکتے ہیں اور اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جس سے ان لٹیروں کے دلوں پہ ہیبت بیٹھ جائے۔
ہم اہل ایمان،اسلام کی حمیت کے رکھوالے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ان معلونوں کے پھینکے گئے پتھروں سے ان کا سر کچل ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پہ جان لے بھی لیں اور دے بھی دیں گے ان شاءاللہ
تحریر: بنت اسلم