بچوں کا جنسی استحصال اور انکا قتل عام
Article by Adnan Shoaib
یہ بات سچ ہے تمہیں ظلم میں مہارت ہے
یہ بات بھی تو حقیقت ہے میں نہیں ڈرتا
آئے روز بچوں پر ظلم جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے، کیا ہمارے معاشرے کی اقدار و روایات اتنی گر چکی ہیں کہ معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
پہلے لوگ بیٹیوں کے گھر سے باہر جانے پر ڈرتے تھے اب تو بیٹوں کا بھی وہی حال ہے،
کیا بیٹوں کو بھی گھروں میں قید کر دیا جائے؟
کیا ظلم کرنے والوں کے بچے نہیں ہیں؟
کیا ان کو انکے اہلخانہ سے بدلہ لیے جانے کا ڈر نہیں ہے؟
کیا ظالم ظلم کرنے کے بعد اسی معاشرے سے خیر کی امید کرتے ہیں؟
نہیں نہیں کیونکہ زنا کا بدلہ تو یہیں دے کر جانا ہے اور جب اس کا بدلہ لیا جائے گا تو تکلیف تھوڑی نہیں بہت زیادہ ہو گی۔
بچوں پر ہونے والے ریپ/مظالم پر میں پچھلے 5,6 سال سے چائلڈ ریپ پر کئی جگہ پر آواز اٹھا چکا ہوں لیکن کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا اور آئے روز معصوموں کو سولی پر چڑھایا جا رہا ہے اور اب تو یہ آگ میرے گاؤں میں بھی پہنچ گئی ہے, اب تو ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ کل دوسروں کے لئے آواز اٹھاتا تھا اب تو آگ میرے گھر میں ہی لگ گئی ہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
گزشتہ سالوں میں ہونے والے مظالم پر ایک رپورٹ پیش کر رہا ہوں ملاحظہ کریں کہ ہم نے ان واقعات کے بعد اور اتنے سنگین حالات کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ پیش قدمی نہیں کی۔
دی نیوز انٹرنیشنل کی رپورٹ کے 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دن میں 11 ریپ کیس درج ہوئے اور 2014ء سے 2020ء تک 22 ہزار کیس رپورٹ ہوئے اور پولیس حکام کے مطابق ریپ کیس کے صرف نصف مقدمات درج ہوتے ہیں اور پچھلے 5 سالوں میں عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد 60 ہزار تک ہو سکتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 6 سالوں کے دوران پنجاب میں 18,609 ریپ کے مقدمات درج کیے گئے، سندھ میں 1873, کے پی میں 1183, بلوچستان میں 129, اسلام آباد میں 210 واقعات ہوئے۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 31 مقدمات درج ہوئے جن میں کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی
ڈیٹا سٹوریز کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017ء میں پنجاب میں 10 سال سے کم عمر کی کم از کم 13 لڑکیوں کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا جبکہ اسی سال 9 لڑکوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ 2018ء کے اوائل میں پنجاب کے ضلع قصور میں 7 سالہ زینب سمیت کل 14 بچے جان کی بازی ہار گئے۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف جنوری سے اپریل تک چار بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام سالوں میں گوجرانوالہ ریجن میں 519 ریپ اور زنا بالجبر کے واقعات نے دیگر علاقوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ گوجرانوالہ کے بعد لاہور ریجن میں 388، شیخوپورہ میں 371، ڈیرہ غازی خان میں 338، بہاولپور میں 294، فیصل آباد میں 252، ملتان میں 244، ساہیوال میں 187، راولپنڈی میں 129 اور سرگودھا میں 119 کیسز سامنے آئے۔
اپریل 2017ء تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں شیخوپورہ ریجن جس میں ضلع قصور بھی شامل ہے، سب سے زیادہ زیادتی کے بعد قتل ریکارڈ کیے گئے، یعنی 10، لاہور 7، گوجرانوالہ 6، فیصل آباد 5، سرگودھا 4، ملتان 3، ساہیوال۔ 2، بہاولپور 2 اور راولپنڈی1۔
جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 41 فیصد ایسے کیس ہیں جو کہ سوشل پریشر کی وجہ سے درج ہوئے نہیں تو یہ کیسز نا درج ہوتے نا ان پر کوئی کاروائی۔
یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں جو کیس عزت کی خاطر، فوری انصاف نا ملنے کی وجہ سے دب جاتے ہیں ان کا کوئی حساب نہیں۔
معاشرے کو تباہ کرنے میں والدین کا بھی پورا کردار ہے جنہوں نے ڈراموں فلموں کی گھر میں جگہ بنا رکھی اور اولاد کی تربیت ہی نہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں ایسا عدم استحکام پیدا ہوچکا ہے کہ ہر گھر میں سے تیسرا گھر اس ظلم کا شکار ہے۔
کیا ہم نے کبھی لڑکوں کی تربیت پر دھیان دیا ہے؟ تو اس کا جواب بلکل نا کے برابر ہے کیونکہ ہم صرف سوچتے ہیں کہ لڑکے پڑھ لکھ لیں وہی کافی ہے اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں، شادی ہو گی تو ٹھیک ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس سب عمل کا اثر ہمارے معاشرے پر سیدھے طور پر پڑتا ہے جس میں سارے جرائم کی جڑ غیرتربیت یافتہ مرد ہیں جو اچھے برے کی پہچان تک بھول چکے ہیں، جن کے نزدیک سگریٹ، نشہ، لڑکیوں کو چھیڑنا، راستوں میں کھڑا ہونا، جرائم پر ابھارنے والے میوزک سننا، چھوٹے معصوم بچے بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانا عام سی باتیں ہیں اور اس کے بعد ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا گھر بھی محفوظ رہے گا تو بلکل بھی نہیں، کیونکہ جب آگ لگتی ہے تو وہ بلاتفریق سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
شاید آج آپ پر میرے الفاظ اتنے زیادہ اثر انداز نا ہوں گے جتنے کل، جب یہ معاشرے کے بنیادی مظالم کی آگ آپ کے گھر پر دستک دے گی۔ ان مظالم کے خلاف کھڑا ہونے کی اشد ضرورت ہے اور اسکے ساتھ ہم کو ان مظالم کے حقائق پر سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ کل کو ہمارے گھر کی کوئی زینب یا محمد اسماعیل ایسے ہی کسی کھیت میں مرے ہوئے نا ملیں۔
یہ سب پڑھنے کے بعد میں آپ سب سے ہماری آنے والی نسلوں کیلئے امید کرتا ہوں کہ کسی بھی ایسے زانی کا ساتھ کبھی نہیں دیں گے جو کل کو ہمارے پھولوں کو کچل ڈالے۔ ہم سب کو ایک آواز ہو کر نکلنا ہو گا، ایسے تمام کیسز کے فیصلے جلد از جلد کرنے ہوں گے، تمام مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کیلئے آواز اٹھانی ہو گی نہیں تو میں وہ دیکھ رہا ہوں کہ جو آگ محمد اسماعیل کے گھر لگی ہے اس میں ہم بھی جلیں گے وہ قوم نا بنیں کہ جو دو دن بعد سب بھول جاتے ہیں بلکہ وہ قوم بنیے جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
ان مظالم پر قلم رکنے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے قلم سے کچھ حق ادا کر دیا اب آپ کا فرض باقی ہے۔۔۔۔
تحریر: عدنان شعیب