زندہ لاشوں سے سوال کیسے؟
Article by Abrish Noor
وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جو لکھوں تو درد کم ہو جائے، وہ تسلی کہاں سے لاؤں جو میرے دل کو سکون دے۔ یہ تحریر صرف ایک تحریر نہیں ایک دکھ ہے، ایک درد جو الفاظ کی چادر اوڑھے بیان کر رہی ہوں یہ میری تحریر ان بہنوں کے نام جنہیں ان جرائم کی سزا دی گئی جو کبھی کیے ہی نہیں۔
بڑے معزز بن کر آتے ہیں ایک بیٹی کو لینے کے لیے اور گھر سے عزت کے ساتھ لے جاتے ہیں ہر روز ذلیل کرنے کے لیے، میں نے ایسی بیٹیوں کو دیکھا ہے جو باپ کی شہزادی، ماں کی لاڈلی، بہنوں کی جان، بھائیوں کا فخر ہوتی ہے اور شادی کے بعد گھر میں فالتو چیز کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی اور ماں باپ کے سامنے بڑے فخر بتاتی ہے کہ اس گھر کی ملکہ ہے۔
جب ایک لڑکی کی شادی طے ہوتی ہے نا اسکی ماں اپنے لیے کپڑے بنانا چھوڑ دیتی ہے چاہے گرمی ہو یا سردی کہ بیٹی کو جہیز دینا ہے، اسکا باپ اپنی ڈیوٹی کو ڈبل کردیتا ہے کہ شادی پر کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے۔ جو چیز کبھی انکے اپنے گھر میں نہیں تھی وہ بھی بیٹی کو دی جاتی ہے جو مہنگے کپڑے ماں نے اتنے سالوں میں کبھی نہیں پہنے وہ بھی اسکو دیے جاتے ہیں کہ بیٹی اپنے گھر میں کسی سے منہ نہ چھپائے کہ ماں باپ نے ہلکی چیزیں دی ہیں اور بعد میں اسی بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ لائی کیا ہو؟
یہاں پر یہ ختم نہں ہوتا بلکہ جب بیٹی کو رخصت کروا کر لے جاتے ہیں جانتے ہو اسکے بعد اسکے گھر والے کس کرب سے گزرتے ہیں۔ اسکی بہنیں پوری رات اسکی ہر چیز کو دیکھ دیکھ کر روتی ہیں، اسکی ماں اسکی پیدائش سے لے کر اسکی جوانی کا ہر دن یاد کر کر کے روتی ہے، اسکے بھائی اسکی تمام تر لڑائی، جھگڑے، روٹھنا، منانا، ناز، نخرے اٹھانا یاد کر کے روتے ہیں اسکا باپ جائے نماز پر رو رو کر اسکے اچھے نصیبوں کی دعا مانگتا ہے۔
میں نے اس معاشرے میں اس بیٹی کو ایک ناکارہ مرد کے ساتھ پوری زندگی گزارتے دیکھا ہے کہ میری پہلے بہن ایک طلاق یافتہ ہے۔ میں نے ظلم وستم کی انتہا ہوتے ہوئے اس بیٹی کو بھی دیکھا ہے جو اپنے ماں باپ کے گھر نہیں جاسکتی میری پہلے ایک طلاق یافتہ بہن موجود ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس بہن کو اجڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے جس چار مہینے بعد یہ کہہ کر طلاق دے دی جاتی ہے کہ تم میری بہن کی پسند تھی، میری نہیں۔ میں نے اس بیٹی کا بھی گھر اجڑتا دیکھا ہے جس کی شادی کو ایک مہینہ ہوا تھا اور گھر نہ بس پایا کہ نشے کے عادی شوہر نے زیور نہ ملنے پر طلاق دے دی۔
اور تمام تر کوششوں کے باوجود اگر اس بیٹی کا گھر نہ بس پایا تو اسکی بہنوں کے لیے زندگی سزا بن جاتی ہے اور وہ ساری زندگی روتے بلکتے ہوئے گزار دیتی ہیں کہ کہیں انکے ماں باپ کو کچھ نہ ہو جائے۔
میں یہ نہیں کہتی کہ طلاق میں صرف مرد قصور وار ہے لیکن ہر طلاق میں عورت کی زبان کا قصور نہیں ہوتا۔ ہر طلاق میں ماں باپ قصور وار نہیں ہوتے، کہیں پر ظالم شوہر بھی قصور وار ہوتا ہے کہیں پر بے حس سسرال والے بھی قصور وار ہوتے ہیں، جن ماں باپ کو قصور وار تم ٹھہراتے ہو کبھی انکا دکھ سمجھا ہے جنہوں نے ایک ایک روپیہ جوڑ کر بیٹی کو رخصت کیا قرض لے کر بیٹی کو رخصت کیا ابھی قرض اترا ہی نہیں تھا کہ بیٹی کا گھر اجڑ گیا۔
طلاق یافتہ لڑکی کی زندگی کو بھیانک بنا دیا جاتا ہے۔ جس نے ابھی زندگی کو دیکھنا شروع کیا تھا اسکی زندگی چھین لی جاتی ہے، اسکی خوشیاں چھین لی جاتی ہیں۔
طلاق تو دے رہے ہو بڑے قہر کے ساتھ
میری جوانی بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ
بات بات پر طلاق کی دھمکی دینے والو۔۔!! کیا تم لوٹا سکتے ہو اسکے گزرے لمحات، اسکی بے داغ جوانی، اسکی وہ ہنسی جس پہ ماں تڑپ کر کہتی تھی تیری اس ہنسی سے خوف آتا ہے اسکی وہ شرارتیں جس سے گھر والے پریشان ہوجاتے تھے۔
ایک لمحے کے لیے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچو اس لڑکی کا جسے تم طلاق یافتہ کہتے ہو۔ واپس اس دہلیز پر مڑنا کیسا ہوتا ہے؟ جہاں اس نے اپنی مستقبل کی خوشگوار زندگی کے خواب دیکھے تھے، اس کمرے میں واپسی کا دکھ جانتے ہو، جہاں اس نے بیٹھ کر اپنی خوشیوں کے موتیوں کو پرویا تھا۔ اس دہلیز پر مڑنا بڑا درد ناک ہوتا ہے جہاں اماں غصے میں تنگ آ کر کہتی تھیں سب اپنے گھر جاکر کرنا آج وہ بے بسی اور دکھ کی چادر اوڑھے زندہ لاش بن کر وہاں بتائے ایک ایک لمحہ کو یاد کر کے رو رہی ہے۔ اب وہ پہلے والی بیٹی نہیں رہی اسکے قہقہے، اسکی شرارتیں، سب اسکے سسرال رہ گئی ہیں اب وہ ایک طلاق یافتہ بن گئی ہے، اب وہ اچھی بیٹی سے نکل کر بدزبان بیٹی بن گئی ہے اب وہ سمجھدار بیٹی سے نکل کر ایک نفسیاتی بیٹی بن گئی ہے۔ یہ کاغذ کے ٹکڑوں کا وزن اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اسکا پورا گھر اپنے کندھوں پر اسکا بوجھ برداشت رہا ہوتا ہے
اور باہر بیٹھی ایک عورت اسکی ماں سے کہہ رہی ہے بیٹی کو سمجھا کر بھیجا ہوتا تو شاید طلاق نہ ہوتی۔
یہ دہلیز پر لوٹنے والی بیٹیاں اب بیٹیاں نہیں رہیں، یہ زندہ لاشیں ہیں اور لاشوں سے مرنے کی وجوہات نہیں پوچھا کرتے۔ وجہ کوئی بھی ہو درد ایک سا ہوتا ہے ان بیٹیوں کا
میری ماں باپ سے گزارش ہے خدارا اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دینے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں اپنی بیٹی کسی انسان کے ہاتھ میں دے رہے ہیں یا شیطان کے ہاتھ میں۔ اچھی طرح تحقیق کر کے دیکھ کر پرکھ کر شادی کریں ورنہ یہ لاشوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ لڑکی چاہے کتنی بھی خوبصورت، پڑھی لکھی، خود اعتماد یا ہنر مند کیوں نہ ہو… اس کے نصیب کی وجہ سے بے قصور ہوتے ہوۓ بھی اس کی ذات اور ماتھے پر لگا ایک دھبہ اس کے لڑکی یا عورت ہونے کے احساس کو مٹا دیتا ہے پھر وہ صرف اور صرف ٹھکرائی ہوئی، منگنی کے بعد رد کی ہوئی، طلاق یافتہ یا بیوہ ہی کہلاتی ہے اور ان چاروں داغوں میں سے کوئی ایک داغ باقی سب کو بھی اپنے اندر سمو لیتا ہے… پھر وہ عورت یا لڑکی معاشرے کے اچھے لفظوں اور لہجوں کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہے جسے ہر کوئی اچھالتا پھرتا پے… تہمت اور طعنے ہی تاحیات اس کا مقدر ٹھہرتے ہیں… بھلے وہ لڑکی اٹھارہ، بیس یا پچیس سال کی ہی کیوں نہ ہو… وہ قسمت کے لگے کسی ایک داغ کی وجہ سے ہمیشہ بد نصیب ہی کہلاتی ہے..
اللّٰہ کی بارگاہ میں دعا ہے حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللّٰه عنہا کے وسیلے سے تمام بہنوں بیٹیوں کے نصیبوں کو اچھے کردے. آمین
تحریر: ابرش نور