اتحاد اہلسنت وقت کی ضرورت
Article by Umm-e-Abeer
اسمیں کوئی دو رائے نہیں کہ اہل سنت ہی سواد اعظم ہیں اور حق پر بھی کیونکہ حدیث مبارکہ کے مطابق آقا کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی امت کا بڑا گروہ کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگا۔ مگر ایک طویل عرصہ سےاس بڑے گروہ کو ہر محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے۔ جب وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو سب سے بڑی وجہ اتحاد کی کمی نظر آتی ہے۔
دور حاضر میں جب کفار، ملحدین، لبرلز، سیکیولرز اور شکم کے اسیر مسلمان ملکر اسلام پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں تو سب سے بڑی ضرورت اتحاد اہلسنت ہی نظر آتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اقبال کی کشت ویراں کبھی زرخیز ہی نہ ہوئی بلکہ کئی بار ایسے اتحاد وجود میں آئے پھر بھی اہل سنت کی حالت دگرگوں ہی رہی۔ نہ وہ اپنے حقوق کی بات ڈٹ کر کرسکے نہ ہی شعائر اسلام کا کماحقہ تحفظ کرپائے۔ اس ناکامی کی متعدد وجوہات میں شاید انا، ذاتی مفادات، کم ہمتی اور عدم استقلال بھی شامل ہیں۔
ہر شخص کو رب کریم نے مختلف خصوصیات عطا کی ہیں۔ بعض یقینا علمی اعتبار سے کمال درجہ کو پہنچے ہوتے ہیں مگر انکو وہ انداز بیاں نہیں عطا ہوتا کہ وہ دلوں کو مسخر کرسکیں اسی لئے شاید انکو عوامی سطح پر وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی جو کسی اور کو ہوتی ہے۔
حضور امیر المجاہدین کو ہی لے لیں۔ قاری، حافظ، خطیب، مبلغ، عالم اور استاذ العلماء تو تھے ہی مگر اللہ نے ایسا زور بیاں دیا تھا کہ ہر سامع کے دل کو جکڑ لیتے تھے۔ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے دین کو ایک نئی حیات بخشی ۔ انہوں نے ہی اس قوم کے نوجواں کو اس آسماں کے بارے میں تدبر کرنا سکھایا جس سے تعلق رکھنے والا وہ ایک تارا تھا ، انہوں نے ہی اسے اسکی اساس سے جوڑا، روشن تاریخ سے روشناس کرواتے ہوئے اسے غیرت و حمیت کا درس دیتے ہوئے بس حضور سید دو عالم صل اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا۔
اگرچہ علمی اعتبار سے آپ سے زیادہ قابل علماء یہاں تک کہ آپ کے اساتذہ بھی موجود تھے مگر جس جواں مردی سے آپ اپنے موقف پر قائم رہتے اور پھر اسکے لئے جسطرح مصائب کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے اسکی نظیر نہیں ملتی۔ کیا مشرف دور میں غیر شرعی قوانین کا نفاذ ہو تو کیا زورداری دور میں غازی صاحب کی رہائی کی تحریک۔ کیا ن لیگی دور میں حلف نامہ سے ختم نبوت کی شق کے ختم کیئے جانے کا معاملہ ہو تو کیا نیازی کے نازی دور میں گستاخہ ملعونہ کو عدالتی تحفظ دے کر ملک سے فرار کروانے کا معاملہ یا گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ ہر بار اپنا جاندار موقف بھی پیش کیا اور اس پر قائم بھی رہے۔
سفر کی ابتداء میں کئی ساتھی بھی شریک تھے مگر انکے سخت موقف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ چونکہ رضوی صاحب دین میں ” چونکہ اور چنانچہ” کے قائل نہ تھے اسلئے کئی ہمنوا علیحدہ ہوئے اور کئی نئے ساتھی جڑ گئے ۔بہرحال تحریکوں میں اس طرح کی تطہیر کوئی نئی بات نہیں۔ مگر کمال بات یہ ہے کہ جہاں انہوں نے قوم کو جگانے کا احسان کیا وہاں ایک احسان یہ بھی تھا کہ اپنے لخت جگر کی ایسی تربیت کرگئے کہ ان کے وصال کے بعد تحریک کا سربراہ ہونے کا صحیح معنوں میں حقدار ہونے کو اپنے عمل سے ثابت کیا۔
بابا جی علیہ الرحمہ کے آخری ایام میں نیازی کی حکومت سے کیئے گئے معاہدہ پر من و عن عملدرآمد کے لئے جو موقف اختیار کیا اور پھر اسی حکومت کی طرف سے 7 ماہ سے زائد کا عرصہ قید تنہائی کو جس ثابت قدمی سے برداشت کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پھر رہائی کے وقت بھی اپنے کارکنان کی رہائی کو یقینی بنانا بھی قابل تحسین امر تھا۔ سیلاب متاثرین کی امداد کا معاملہ ہو یا کمر توڑتی مہنگائی کے خلاف مہنگائی مارچ کی قیادت اپنے عوامی انداز سے امیر محترم نے عوام کے دل جیت لیئے۔
اتحاد کی برکتوں اور منفعتوں سے کوئی انکاری نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر سنی تنظیمات اور جماعتوں کے سربراہ و قائدین اس شیر دلیر جوان کی اقامت میں نماز عشق ادا کرنے پر راضی ہوجائیں گے یا اتحاد کے نام پر اہلسنت کو ایک اور تجربہ سے گزارا جائے گا؟
تحریر: اُم عَبیر