“امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ”
Article by Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
امام بخاری اپنے پیش رو آئمہ کی آرزو، اساتذہ کا فخر اور معاصرین کے لیے سراپا رشک تھے۔ ان کے زمانہ میں احمد بن حنبل، یحیٰی بن معین اور علی بن مدینی کا فنِ حدیث میں چرچا تھا۔ لیکن جب آسمان علمِ حدیث پر امام بخاری کا سورج طلوع ہوا تو تمام محدثین ستاروں کی طرح چھپتے چلے گئے۔ صحیح مجرد میں سب سے پہلے انہوں نے مجموعہ حدیث پیش کیا اور پھر کتب صحاح کی تصنیف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
نام: محمدکنیت: ابو عبداللہسلسلہ نسب: آپؒ کا نسب نامہ یہ ہے۔ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ بن بذذبہ الجعفی البخاری۔ بردزبہ آتش پرست تھے لیکن ان کے بیٹے مغیرہ نے بخارا کے حاکم یمان الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد بخارا شہر کو ہی جائے سکونت بنا لیا تھا۔ اس لیے امام بخاری کو الجعفی البخاری کہا جاتا ہے۔آپ کے والد مولانا اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کا شما ر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردوں میں ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے محدث تھے۔ ان کی کنیت ابو الحسن ہے۔
پیدائش:امام بخاری علیہ الرحمہ 13 شوال 194ھ (20 جولائی 810َء) کو بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری ؒ ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کا ہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے اٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری علیہ الرحمہ کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں آہ و زاری کی، عجز و نیاز کا دامن پھیلا کر اپنے لاثانی بیٹے کی بینائی کیلئے دعائیں مانگیں۔ ایک مضطرب، بےقرار اور بے سہارا ماں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ انہوں نے ایک رات حضرت ابراہیم خلیل ﷲ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا فرما رہےتھے: ’’جا اے نیک خو تیری دعائیں قبول ہوئیں۔ تمہارے نورِ نظر اور لختِ جگر کو ﷲ تعالیٰ نے پھر نورِ چشم سے نواز دیا ہے ‘‘ صبح اٹھ کر دیکھتی ہیں کہ بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا ہے ۔
تعلیم:ابتدائی اور ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب امام بخاری علیہ الرحمہ کی عمر دس سال کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں علمِ حدیث کا شوق پیدا کیا اور آپ نے بخارا کے درسِ حدیث میں داخلہ لے لیا۔ علمِ حدیث کو آپ نے انتہائی کاوش اور محنت سے حاصل کیا۔ متن کو محفوظ رکھا اور سند کے ایک ایک راوی کو ضبط کیا حتیٰ کہ ایک سال بعد متنِ حدیث اور اس کی سند پر آپ کے عبور کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات اساتذہ بھی آپ سے اپنی تصیح کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے استاذ داخلی نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا “حدثنا سفیان عن ابی الزبیر عن ابراھیم “۔ آپ نے فرمایا، ابی الزبیر نہیں زبیر بن عدی ہے۔ استاذ حیران رہ گئے اور انہوں نے بھری مجلس میں امام بخاری علیہ الرحمہ کی تحسین کی۔ امام بخاری یونہی تیزی اور مہارت سے علوم دینیہ حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ سولہ سال کی عمر میں امام بخاری نے عبداللہ بن مبارک، وکیع اور دیگر اصحاب ابی حنیفہ کی کتابوں کہ ازبر کر لیا تھا۔اس کے علاوہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے مرو، بلخ، ہرات، نیشا پور، رے اور بہت سے دوردراز شہروں کا سفر کیا۔ امام بخاری علیہ الرحمہ خود فرماتے ہیں کہ انہوں نےایک ہزار سے زیادہ اساتذہ سے احادیث سماعت کی ہیں اور تمام احادیث کی سندیں اور راویوں کے حالات انہیں یاد ہیں۔
حصول علم کے لیے رحلت:امام بخاری نے طلبِ حدیث کے لیے پہلا سفر مکہ کی طرف سن 216ھ میں کیا تھا اور اگر وہ اس سے پہلے سفر کرتے تو اس کے زمانہ کے طبقہ عالیہ کے ان محدثین سے روایت حاصل کر لیتے جن سے ان کے معاصرین نے روایت کی ہے۔ اگرچہ انہوں نے طبقہ عالیہ کے مقارب رواۃً مثلاً یزید بن ہارون اور ابوداؤد طیاسی کا زمانہ پا لیا تھاجس زمانہ میں امام بخاری مکہ میں وارد ہوئے اس وقت یمن میں امام عبدالرزاق بقید حیات تھے۔ امام بخاری نے ان سے روایت حدیث کے لیے یمن جانے کا قصد کیا لیکن کسی نے ان کو غلط خبر دی کہ امام عبدالرزاق کا انتقال ہو گیا یہ سن کر انہوں نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور ایک واسطہ کے ساتھ امام عبدالرزاق سے روایت حدیث کرنے لگے۔امام بخاری نے روایت حدیث کے سلسلہ میں بارہا دور دراز شہروں کا سفر کیا اور برس ہا برس وطن سے دور بیٹھے اکتسابِ علم کرتے رہے۔ انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ میں طلبِ حدیث کے لیے مصر اور شام دو مرتبہ گیا۔ چار مرتبہ بصرہ گیا، چھ سال حجاز مقدس میں رہا اور اَن گنت مرتبہ محدثین کے ہمراہ کوفہ اور بغداد گیا۔
امام بخاری علیہ الرحمہ کا حافظہ:امام بخاری علیہ الرحمہ کو ﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپ علیہ الرحمہ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری علیہ الرحمہ حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری علیہ الرحمہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔امام بخاری علیہ الرحمہ پہلے شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پھر صحیح حدیث سنائی دوسری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث سنائی، مختصر یہ کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردّو بدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت، پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری ؒ کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے غلط احادیث کی تصحیح کی اس لیے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔ (فتح الباری ، شرح صحیح بخاری)
محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک دن ہم فریابی کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کے فریابی نے ایک حدیث کی سند بیان کرتے ہوئے کہا “حدثنا سفیان عن ابی عروۃ عن ابی الخطاب عن ابی الحمزۃ” اس سند میں سفیان کے علاوہ باقی تمام راویوں کی کنیت ذکر کی گئی تھی فریابی نے ان راویوں کے اصل نام پوچھے تمام مجالس پر سکتہ چھا گیا اور کسی کو بھی ان کے ناموں کا پتہ نہ چل سکا۔ بالآخر سب کی نظریں امام بخاری علیہ الرحمہ کی طرف اٹھیں اور انہوں نے کہنا شروع کیا، ابو عروہ کا نام معمر بن راشد ہے، اور ابو الخطاب کا نام قتادہ بن دعامہ ہے اور ابو حمزہ کا نام انس بن مالک ہے۔ جیسے ہی امام بخاری نے یہ اسماء بیان کیے تو حاضرینِ مجلس دم بخود رہ گئے
امام بخاری کی قوتِ حفظ بیان کرنے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ جس کتاب کو وہ ایک نظر دیکھ لیتے تھے وہ انہیں حفظ ہو جاتی تھی اور بعد میں جا کر یہ عدد تین لاکھ تک پہنچ گیا جن میں سے ایک لاکھ احادیث صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح تھیں۔ ایک مرتبہ بلخ گئے تو وہاں کے لوگوں نے فرمائش کی آپ اپنے شیوخ سے ایک ایک روایت بیان کریں تو آپ نے ایک ہزار شیوخ سے ایک ہزار احادیث زبانی بیان کردیں۔
سلیمان بن مجاہد کہتے ہیں کہ ایک دن میں محمد بن سلام بیکندی کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا محمد بن سلام نے کہا اگر تم کچھ دیر پہلے میرے پاس آتے تو میں تم کو وہ بچہ دکھلاتا جس کو ستر ہزار احادیث یاد ہیں۔ سلیمان نے اس مجلس سے اٹھ کر امام بخاری کی تلاش شروع کر دی بالاخر سلیمان نے امام بخاری کو ڈھونڈ نکالا اور پوچھا کیا تم ہی وہ شخص ہو جس کو ستر ہزار احادیث حفظ حفظ ہیں، امام بخاری نے کہا مجھے اس سے زیادہ احادیث یاد ہیں اور میں جن صحابہ سے احادیث روایت کرتا ہوں ان میں سے اکثر کی ولادت اور وفات کی تاریخ اور ان کی جائے سکونت پر اطلاع رکھتا ہوں۔ نیز میں کسی حدیث کو روایت نہیں کرتا مگر کتاب اور سنت سے اس کی اصل پر واقفیت رکھتا ہوں۔
صحیح البخاری:آپ علیہ الرحمہ کی سب سے بلند پایہ تصنیف صحیح بخاری ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے صحیح بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، زکاوت اور حفظ ہی کا زور خرچ نہیں کیا بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی آخری مرحلے ختم کر ڈالے اور اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز استخارہ پڑھتے بارگاہِ ربّ العزت میں سجدہ ریز ہوتے ا ور اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے۔ اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی تصنیف عالمِ وجود میں آگئی جس کا یہ لقب قرار پایا:’’ ا صح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ یعنی ﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے‘‘ اُمّت کے ہزاروں محدثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر کسا، پرکھا اور جانچا مگر جو لقب اس مقدس تصنیف کیلئے من جانب ﷲ مقدر ہو چکا تھا وہ پتھر کی کبھی نہ مٹنے والی لکیریں بن گیا۔
تدوینِ حدیث(احادیث کوجمع کرنا):تدوینِ حدیث کی ابتدا خلفائے راشدین ہی سے ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو دلیل اور گواہ طلب کر لیتے تھے۔ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ روایت میں انتہائی سختی برتتے تھے اور اگر کوئی شاگرد الفاظِ حدیث یاد کرنے میں کوتاہی کرتا تو ڈانٹتے تھے۔ تحقیق و تنقید کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ڈالی۔ تابعین علیہ الرحمہ نے اس کے اصول و ضوابط مرتب کئے اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم نے مستقل اور باضابطہ فن کی حیثیت دی ۔بخاری شریف کو اگر اسلامی علوم کا ’’ انسائیکلوپیڈیا ‘‘ کہا جائے تو بالکل صحیح ہو گا۔
مستجاب الدعوات:امام بخاری رحمتہ ﷲ علیہ مستجاب الدعوات تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے قاری کے لیے بھی دعا کی ہے اور صدہا مشائخ نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ ختم بخاری ہر نیک مطلب اور مقصد کیلئے مفید ہے۔’’اسلئے تکمیل بخاری کی مجالس میں شریک ہو کر ﷲ ربّ ا لعزّت سے دعائیں مانگنی چاہئیں‘‘
وفات:محمد بن ابی حاتم وراق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں نے غالب بن جبریل علیہ الرحمہ سے سنا کہ امام بخاری علیہ الرحمہ خرنتگ میں انہیں کے پاس تشریف فرما تھے۔ امام بخاری علیہ الرحمہ چند روز وہاں رہے پھر بیمار ہوگئے۔ اس وقت ایک ایلچی آیا اور کہنے لگا کہ سمرقند کے لوگوں نے آپ کو بلایا ہے۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے قبول فرمایا۔ موزے پہنے، عمامہ باندھا، بیس قدم گئے ہوں گے کہ انہوں نے کہا مجھ کو چھوڑ دو، مجھے ضعف ہو گیا ہے، ہم نے چھوڑ دیا۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے کئی دعائیں پڑھیں پھر لیٹ گئے۔ آپ علیہ الرحمہ کے بدن سے بہت پسینہ نکلا۔ یکم شوال 256ھ بعد نماز عشاء آپ علیہ الرحمہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اگلے روز جب آپ علیہ الرحمہ کے انتقال کی خبر سمرقند اور اطراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب قبر میں رکھا تو آپ علیہ الرحمہ کی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔ (ابن ابی حاتم علیہ الرحمہ)
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (۲:۱۵۶)
کل من علیھا فان ۔ و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت و عزت والی ہے باقی رہ جائے گی
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی
Thanks designed for sharing such a fastidious thinking, piece of writing is pleasant, thats
why i have read it entirely