گمراہ

Article by Ali Abbas Rizvi
اے نبی(ﷺْ)اپنی بیبیوں، اور صاحبزادیوں،اور مسلمانوں، کی عورتوں، سے ٫فرمادو” کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
پہچان لی جائیں گی اور پھر ستائی نہ جائیں گی یہ الفاظ بجلی کی طرح ذہن پر گرے, سنک” پر ہاتھ دھوتی وہ سیدھی ہو کر ٹیرس سے باہر دیکھنے لگی یہ آواز کس کی ہے اور کدھر سے آ رہی ہے.
یار رافعہ پتہ کرو ابھی تک انہیں آجانا چاہیے تھا میں نے پلے کارڈز اور بینرز تیار کر دئیے ہیں لڑکیاں زیادہ دیر انتظار نہیں کریں گی پہلے ہی مایوس ہیں٬ مارکر سے پلے کارڈ پر نعرے لکھتی ثمینہ ساتھ اپنی کلاس فیلو رافعہ کو ہدایات دے رہی تھی . شام ڈھلتے ہی اس کا دل بھی سورج کے ساتھ ہی ڈوب گیا تھا آج دو ہفتے ہونے کو تھے لیکن اس کی یونیورسٹی میں عورتوں کی عصمت دری کے خلاف ان کا ساتھ دینے کوئی نہیں آیا تھا-آج سول سوسائٹی والی عورتوں نے آنے کا وعدہ کیا تو اس نے بڑی تندہی سے تیاری کی تھی مگر کسی “مصلحت” کے تحت وہ نہیں آئیں اور شام کے بعد تو اکثر نے فون بھی بند کر دیے تھے.
رات بستر پر لیٹتے ہی ثمینہ کو اپنے یونیورسٹی میں گزرے پانچ سال کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگے تھے. وہ جب نئی نئی آئی تھی تو طلبہ یونین والی لڑکیوں نے اسے کامریڈ بنانے کیلئے کتنے جتن کئے تھے پھر اسے عورتوں کے حقوق کیلئے سرگرم راہنماؤں سے بھی ملوایا گیا تھا. وہ اپنی یونیورسٹی کی سب سے آزاد خیال اور حقوق نسواں کی علمبردار بن گئی.
سول سوسائٹی کی راہنماؤں سے بھی اس کے کافی مراسم قائم ہو چکے تھے اور اکثر شہر میں حقوقِ نسواں کے ہونے والے بڑے بڑے پروگرامز میں وہ خصوصی دعوت پر شرکت کر چکی تھی. لیٹے لیٹے اسے یاد آیا دو سال قبل کیسے اس نے دورانِ لیکچر پردہ کرنے کا کہنے پر اردو کے لیکچرار فہیم بیگ کے خلاف سول سوسائٹی کی عورتوں کے ساتھ ملکر زبردست مظاہرہ کیا تھا اور اس سال عورت مارچ میں تو این جی او چلانی والی یورپ ریٹرن ڈولی میڈم نے تو وہ مصالحہ کانٹیک دیا تھا جسے اس نے بینرز اور پلے کارڈز پر منتقل کرکے پورے شہر کے دقیانوسیوں کو آگ لگا دی تھی . یہ سب کتنے سہانے دن تھے لیکن آج جب اس کی اپنی یونیورسٹی میں عورتوں کو جنسی حراسگی اور عصمت دری کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے ساتھ کوئی بھی تو نہیں کھڑا ہو رہا تھا اکثر نے اس کی کال اٹھانا گوارہ نہیں کی کچھ “بیرون ملک ” دورے کا بہانہ بنا کر چھپ گئے اور کچھ نے حالات نامناسب ہونے کا کہہ کر جان چھڑا لی. ایک دو میڈیا رپورٹرز اور کالم نویسوں سے بھی رابطہ کیا جو اکثر ان کے عورت مارچ کو کوریج دیتے تھے خصوصی فیچرز لکھتے تھے انہوں نے بھی اس پر لکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن نتیجہ صفر تھا.
اچانک اسے مشہور سیاسی پارٹی کی رہنما کا خیال آیا جس نے ایک سیمنار میں اسے اپنا نمبر دیا تھا .ثمینہ نے پرجوش انداز میں نمبر ملایا اور دل ہی دل میں رابطہ ہو جانے کی دعا کرنے لگی. کال اٹھالی گئی سیکرٹری کو تعارف کرنے کے بعد بھی اسے پانچ منٹ انتظار کرنا پڑا. جی میڈم میں کامریڈ ثمینہ بات کر رہی ہوں. جی… جی اچھا…. جی میں سمجھ گئی یہ کہہ کر اس نے فون رکھا تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر گالوں پر بہہ رہے تھے وہ آنسو صاف کیے بنا لیٹ کر ناجانے کتنی دیر چھت کو گھورتی رہی اسے کب نیند آئی پتہ نہیں چلا.
رات دیر سے سونے کی وجہ سے اس کی آنکھ بھی دیر سے کھلی تھی اور رونے کی وجہ سے اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا , ہاسٹل میں چند لڑکیاں تھیں باقی سب اس اندوہناک واقعے کے بعد گھروں کو واپس چلی گئی تھیں ثمینہ بھی چلی جاتی مگر اس نے یونیورسٹی میں رک کر اپنی ساتھیوں کیلئے آواز بلند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اب ہر طرف سے مایوس ہو کر وہ بھی گھر واپس جانا چاہ رہی تھی. بوجھل سر کے ساتھ وہ سینک پر منہ دھو رہی تھی تو اچانک اس کے کانوں میں مترنم آواز پڑ رہی تھی کہ “اگر وہ پردہ کریں گی تو جلد پہچان لی جائیں گی اور پھر ستائی نہ جائیں گی ” اسے لگا یہ بات ابھی ابھی اسی کیلئے خاص طور پر کہی ہے کسی نے وہ آواز کا پیچھا کرتی ہاسٹل سے باہر نکل کر مین شاہراہ پر آگئی تھی جہاں سینکڑوں لوگ پلے کارڈز اٹھائے سٹیج پر کھڑے مولوی صاحب کو سن رہے تھے جو ریاستی اداروں کو یونیورسٹی کی ستم رسیدہ بچیوں کیلئے انصاف اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا کہہ رہے تھے. ثمینہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی یہ مولوی عورتوں کے حقوق کیلئے بات کر رہا ہے ؟
پلے کارڈز پر نظر پڑی تو لکھا تھا
“اسلام زمانے بھر کی بچیوں کو عزتیں دینے آیا اس کی بیٹیوں کی عزتیں پامال ہونے کا ذمہ دار کون”
“قوم اپنی بیٹیوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گی”
“سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا اسوہ اپناؤ, عزت محفوظ بناؤ “
“میرا برقعہ میری عزت کا محافظ “
“نامحرم نا محفوظ “
یہ سب اس کیلئے حیران کن تھا وہ ایک گاڑی کے ساتھ لگ کر سوچ رہی تھی اسے تو حقوقِ نسواں کی تنظیموں اور این جی اوز نے یہی بتایا تھا کہ پاکستان میں مولوی ان کے حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں. اسلام کسی کو بھی دوسروں کی عزت پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرے اسے قرار واقعی سزا دیتا ہے یوں سرعام دندناتے نہیں پھرتے یہ جنسی درندے مولوی صاحب کا بیان جاری تھا اور وہ مسلسل حیرانی میں گھرتی جا رہی تھی جن کیلئے پانچ سال وہ مولویوں کے خلاف تقاریر اور مظاہرے کرتی آئی وہ مشکل پڑنے پر سب غائب تھے اور جنہیں وہ اپنے حقوق کا مخالف سمجھتی تھی وہ بن بلائے ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کر رہے تھے. اسلام تو کافروں کی بیٹیوں کو بھی عزت دیتا ہے ان کے سروں پر چادر اوڑھاتا ہے اور جنگ میں دشمنوں کی بیٹیوں کی عزتوں کی بھی حفاظت کرتا ہے تقریر کا یہ حصہ اسے رلانے کیلئے کافی تھا. میرے اللہ میں تو اندھیرے میں تھی ہمارے حقوق تو یہ ہیں مولوی صاحب غصے میں کہہ رہے تھے کل تک کا وقت ہے اگر حکومت اور انتظامیہ نے ذمہ داروں کو گرفتار کرکے پیش نہ کیا تو ہم دھرنا دیں اپنی بیٹیوں کو انصاف دلانے کیلئے ثمینہ اپنے سابقہ رویے پر شرمندہ ہو رہی تھی.
آخر میں ان لڑکیوں سے کہتا ہوں اگر تم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پر عمل کیا ہوتا نامحرم مردوں سے دوری اختیار کی ہوتی اور رب العزت کا حکم مان کر پردہ کیا ہوتا تو یوں ستائی نہ جاتیں ٬ مقرر کے یہ الفاظ شاید گرتی ہوئی دیوار کیلئے آخری دھکا تھے وہ آس پاس موجود لوگوں سے بے خبر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور بار بار وہ الفاظ دہرا رہی تھی کہ اگر وہ پردہ کریں تو دور سے پہچان لی جائیں گی اور پھر ستائی نہ جائیں گی
میں آپ سب یونیورسٹی کے طلباء و طالبات سے گزارش کرتا ہوں ہم مخلوط نظام تعلیم کے خاتمے کیلئے عملی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے ہمیں آپ سب پڑھے لکھے نوجوانوں کا ساتھ چاہیے یہ مولوی صاحب کے آخری الفاظ تھے. ثمینہ نے آنکھیں صاف کیں اسے بہت سے لوگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے.
ثمینہ تقریباً بھاگتے ہوئے ہاسٹل میں داخل ہوئی رافعہ رافعہ جلدی کرو ہم مارکیٹ جا رہی ہیں .وہ کیوں رافعہ نے پوچھا تو ثمینہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی تم نے نہیں سنا کہ اگر وہ پردہ کرتیں تو ستائی نہ جاتیں
کون ستائی نہ جاتیں ثمینہ تم کیا کہہ رہی ہو اور کہاں سے آئی ہو اوپر سے پردے اور برقعے کی باتیں٬ کیا ہوا ہے تمہیں؟
رافعہ میں حقوق نسواں کیلئے آج سے جدوجہد کرنا چاہتی ہوں تو وہ جو پہلے کر رہی تھیں ہم وہ کیا تھا بھلا ؟
“گمراہ” ثمینہ نے رافعہ کے سوال پر برجستہ جواب دیا
تحریر:علی عباس رضوی



