فیشن ہیں اختیاری، پردہ ہے نصاب لازم

Article by Bint e Hassan
آج کے جدید دور میں یہاں دنیا گلوبل ویلیج کی حیثت حاصل کر چکی ہے، ہر طرف ایک بیماری پھیل چکی ہے جس کا نام فیشن اور ماڈرن اِزم ہے۔ اِن ناموں کے استعمال سے حیا ختم ہو کر رہ گئی ہے، جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہ بنا ہی اسلام کے نام پر ہے، ایک بنیاد جس مقصد پر رکھی گئی ہو اگر وہ مقصد ہی بھول جاو تو کیا بنیاد کھڑی رہ سکے گی؟ ہم اسلام کی تمام تر روایات کو ترک کرتے جارہے ہیں۔ معاشرہ فریقین سے بنتا ہے، آج مرد و زن دونوں ہی بیہودگی کی مثال آپ ہیں۔
پردہ کی اسلام میں خصوصی اہمیت بیان کی گئی ہے اور مرد وزن کو ستر پوشی کے ساتھ شرم و حیا کو بھی مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا یہی وجہ ہے کہ مرد کے لئے کسی بھی عورت پر دوسری نگاہ ڈالنا جائز نہیں
پردہ مسلم عورت کے لیے وقار اور عظمت کی علامت ہے۔ آج کی مسلمان عورت بھی اسلام کے احکام ماننے سے انکاری ہے۔ جب کہ اسلام نے ہی عورت کو اِس کا رُتبہ و مقام بتایا۔ظلم اور جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں رحمت خداوندی نے جوش مارا اور اسلام کی شمع روشن ہوئی۔ جس نے عورت پر پڑی ظلم و ستم کی تاریکیوں کو عزت و عظمت کے نور سے منور کیا۔ عورت کو اس کے حقوق دلائے اور اس کی عصمت کی حفاظت کی۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے ذلت و رسوائی کے اندھیروں میں گری عورت کو اُٹھا کر اعلیٰ و ارفع مقام پر لا کھڑا کیا۔
آج جدید دور ہے اور اس جدید دور کی تہذیبی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے عورت کے اندر عریانی، فحاشی اور بے حیائی کا رجحان پیدا کر دیا ہے۔ ہر طرف سے مادر پدر آزادی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ ہر ناجائز چیز کو جائز ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بہت سے متفقہ مسائل کو بھی مختلف فیہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ عورت کے حجاب اور پردہ کا بھی ہے۔ مختلف اطراف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ پردہ کا حکم اسلام میں نہیں ہے۔
کوئی کہتا ہے پردہ صرف آنکھوں کا ہوتا ہے اور صرف اسی سوچ نے آدھی انسانیت کو برہنہ کر دیا ہے ، کوئی ماحول کی بات کرتا ہے تو کوئی مردوں پر انگلی اٹھاتا ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو تو دوسری طرف مرد حضرات کہہ رہے ہوتے ہیں کہ عورت خود کو ڈھانپ کر نکلے۔
کہیں قرآن پاک کی آیات کا غلط ترجمہ کیا جا رہا ہے، کہیں اس کے احکام میں تاویلیں کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کہیں احادیث مبارکہ کا انکار کیا جا رہا ہے حتٰی کہ آج کا جدید دور حجاب اور پردہ کو کسی مُلّا کی ایجاد تصور کرتا ہے۔ جب کہ پردہ کیا ہے کیوں لازم ہے کس کا حکم ہے؟ اس طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا۔
حجاب (عربی) اور پردہ (فارسی) زبان کا لفظ ہے۔ یہ دونوں الفاظ تقریباً ہم معنی ہیں۔ عورت کا غیر مرد، نامحرم اور اجنبی سے ستر چھپانا، اپنے آپ کو پوشیدہ (ڈھکا، لپٹا) رکھنا ”حجاب یا پردہ“ کہلاتا ہے۔ ویسے بھی عورت کا مطلب ہی ڈھکی، چھپی ہوئی چیز ہے۔ حجاب کا لفظ قرآن کریم میں سات مرتبہ آیا ہے اور یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
حجاب (پردے) کا اولین حکم قرآن کریم یہ آیت کریمہ قرار پائی جس میں رب ذوالجلال نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔ یہ ان کے لئے موجب شناخت ہو گا تو ان کو کوئی ایذا نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ عزوجل بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہے کہ مسلمان عورتیں اس آیت کے نزول سے قبل بھی چادر اوڑھا کرتی تھیں لیکن کسی اور طریق پر۔ آیت کریمہ نے چادر اوڑھنے کا ڈھنگ بتا کر اسے شرعی پردہ قرار دیا بلکہ ان کے لئے چادر اوڑھنا لازمی قرار دے دیا۔
آسان طریقے سے سمجھنے کے لیے چند مثالیں غور سے پڑھیے ۔
اللہ تبارک و تعالی نے پردہ دار عورت کی جو صفات بیان کی ہیں انہیں تین تشبیہات یا استعاروں (الحجاب_ الجلباب_ الخمار) سے بیان فرمایا ہے جن کا مطلب بس ایک ہی بنتا ہے۔
پردہ دار عورتوں کی پہلی صفت
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ
اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔
باری تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو دوسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ
اے نبی ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے اوپر ڈالے رکھیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو تیسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَاسْاَلُوْهُنَّ مِنْ وَّّرَآءِ حِجَابٍ
اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔
ان تین تشبیہات کے بارے میں عربی گرائمر کیا کہتی ہے؟ عربی گرائمر میں “الخمار” اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے، تاہم یہ اتنا بڑا ہو جو سینے کو ڈھانپتا ہوا گھٹنوں تک جاتا ہو اور “الجلباب” ایسی کھلی قمیض کو کہتے ہیں جس پر سر ڈھاپنے والا حصہ مُڑا ہوا اور اس کے بازو بھی بنے ہوئے ہوں۔ فی زمانہ اس کی بہترین مثال مراکشی عورتوں کی قمیض ہے جس پر ھُڈ بھی بنا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم “حجاب” کا مطلب تو ویسے ہی پردہ بنتا ہے۔
دین اسلام کی ایک اہم ضرورت کا نام پردہ ہے۔ پردہ قلعہ ہے قید نہیں، عفت و پاکدامنی ہے پابندی نہیں، عزو شرف اور متانت ہے پسماندگی اور ذلت نہیں، خداوندعالم کا حکم اور فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھا کی سیرت ہے۔ مسلمان خاتون کے لئے تو پردہ باعث عزوافتخار ہے کیوں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیٹی فاطمۃ الزہرا صلوات اللہ علیہا کو حجاب اور پردہ سے محبت تھی۔ اگر مسلمان خاتون صدیقہ کبریٰ رضی اللہ عنھا کی سیرت کا بغور مطالعہ کریں تو وہ مغربی تبلیغ سے متاثر ہوکر پردہ کو پابندی اور ذلت کا سبب نہیں سمجھے گی، بلکہ حجاب کو اپنے لئے طرۂ امتیاز سمجھتے ہوئے دیگر خواتین کو بھی باحجاب رہنے کی تلقین کرے گی اور ان کو باوقار زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائے گی۔
بطورِ مسلم عورت ہمیں اپنی اقدار پر فخر ہونا چاہیے نہ کہ مغربی اور خوارجی پروپگنڈا کا حصہ بننا چاہیے اور نہ ہی ہمیں کسی کی رائے شماری کی ضرورت ہونی چاہیے ۔ حجاب (پردہ) ضروری ہے یا نہیں؟ پردہ چہرے کا ، نگاہوں کا یا دل کا ہونا چاہیے؟ اِن تمام باتوں پر بحث و مباحثہ سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں پردے کا حکم کس نے دیا؟ کیا اللہ اور اُس کے آخری رسولﷺ کے حکم پر سوال اُٹھانا ہمارے لیے باعثِ فخر ہونا چاہیے یا ہمیں اس پر بنا چُوں چراں کیے عمل کرنا چاہیے؟ یہ سوال تمام امہ مسلمہ کی بیٹیوں کے لیے چھوڑ رہی ہوں، فیصلہ آپ کو کرنا ہو گا نہ کہ کسی اور کو کیوں کہ
میں ایک اللہ اور اُس کے آخری رسول ﷺ پر ایمان رکھتی ہوں، پردے کا حکم اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا ہے تو کیا مسلم عورت اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکام سے انکاری ہیں؟
پردہ ہماری تہذیب کی بنیاد ہے۔
پردہ سرسرا خیر ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حجاب ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک نظام حیات ہے جو اللہ تعالی نے عورتوں کے لئے وضع کیا ہے ۔ یہ ایک نظام حیا داری ہے ۔ جو برائی کو معاشرے میں پھیلنے سے روکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ حکم خداوندی ہے۔
طلوعِ اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں حقیر اور کمزور سمجھا جاتا تھا ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ میں تہذیب کی نئی بنیاد رکھی جہاں ہر انسان محترم تھا کمزوروں کو ان کے حقوق دلائے ،طاقتور کو ذمہ دار بنایا ۔ عورت کو ماں کی حیثیت سے بلند مرتبہ دیا، ماں کی خدمت کو جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا ۔ سلام نے عورتوں کو محترم ٹھہرایا اور حجاب کا حکم دیا تاکہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں اسلام کا یہی اقدام اس پاکیزہ تہذیب کی بنیاد بنا جس میں حیا داری اور ایمانداری کی صفات کو پنپنے کا موقع ملا، اسی تہذیب نے وہ پاکیزہ اور مضبوط کردار انسان پیدا کیے جنہوں نے دنیا بھر میں حق کا آوازہ بلند کیا اور اسلام کا پرچم لہرا کر دنیا کو انسانیت کی بلند اقدار سے آشنا کیا۔
آواز اٹھاو اور بتا دو دنیا کو کہ
میرا حجاب میرے اللہ کی مرضی ہے اور اُس کی مرضی کے سامنے میری مرضی نہیں چل سکتی۔
“حجاب لازم و ملزوم ہے جو ہمیں معاشرے میں الگ وقار ، قوت، پہچان اور مقام دلاتا ہے۔ پردہ عورت کو شیطان اور شیطان کے چیلوں سے بچانے اور تحفظ کا مکمل حصار فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت پردے میں رہ کر تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے ۔کاروبار بھی کر رہی ہیں اور قوم کی خدمت احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔اس وقت جب اسلام فوبیا اور فیمنزم کی اصطلاحات کے غبار میں حجاب کو بھی گرد آلودکیا جارہا ہے، دنیا بھر میں مسلمان عورت کو امتیازی سلوک کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ہمیں دنیا کو حجاب اور پردے کے حقیقی معنی و مفہوم سے آشنا کروانے کی ازحد ضرورت ہے۔ نبی کر یم ﷺ کے فرمان کے مطابق ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اور اسلام کا ا متیازی وصف’’حیا‘‘ ہے”
حکمِ خدا کے آگے بے کار حیل و حجت
اندر سنگھار لازم ، باہر نقاب لازم
فیشن ہیں اختیاری ، پردہ نصابِ لازم
اللہ پاک تمام امہ مسلمہ کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو پردہ کرنے کی توفیق دے
آمین یارب العالمین
تحریر : بنتِ حسن رضویہ