علم دین کی اہمیت
Article by Abii Noor
اسلام میں علم دین کی بڑی اہمیت ہے، یہ جہل کے مقابلے میں ہے۔ علم دین سراپا نور و ہدایت ہے اور جہل سراپا ذلالت ہے۔ اسلام نے ہمیں علم دین کے حصول کا حکم دیا ہے، آج دنیا میں علم ایک لاوے کی طرح پھوٹ رہا ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے یہ لامحدود ہوتا جا رہا ہے مگر قابل تشویش بات یہ ہے کہ اس قدر علم و فکر کے باوجود ہماری نوجوان نسل علم کے ثمرات سے کیوں محروم ہے؟ نتیجتاً دو ہی باتیں سمجھ میں آتی ہیں یا تو وہ علم اپنے حقیقی معارف سے محروم ہے یا اس علم کے پہنچانے والے اس منصب کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
روئے زمین پر علماء ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ستارے غروب ہو جائیں تو مسافروں کے بھٹکنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔(مسند احمد بن حنبل، 3/157، الحدیث رقم، 12621)
جو آدمی طالب علمی میں کوئی راستہ طے کرے اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا اور بے شک فرشتے طالب علم کی رضا کے حصول کے لئے اس کے پاؤں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں، عالم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں، عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہے جیسے چودھویں رات کا چاند ستاروں سے افضل ہے، قرآن وحدیث میں علم دین کی بڑی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے اور ان میں علم کی فضیلت اور اہل علم کا بڑا درجہ و مقام اجاگر کیا گیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ (المجادلة:11)
ترجمہ: اور اللہ تعالی تم میں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جو علم دئیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا ۔
یہاں انفرادی طور پر اللہ نے بتلایا ہے کہ جو بھی ایمان والا اور علم والا ہے اس کے درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔ نبی ﷺ نے قرآن کو قوموں اور ملتوں کی بلندی کا سبب قرار دیا ہے :إنَّ اللهَ يرفعُ بهذا الكتابِ أقوامًا ويضعُ به آخرِينَ۔(صحيح مسلم:817)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعہ قوموں کو اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے قوموں کو نیچے بھی گراتا ہے ۔
یعنی جو قوم قرآن کو پڑھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے اللہ اسے بلند کرتا ہے اور جو قوم قرآن سے اعراض کرتی ہے اور اس کے مقتضیات پر عمل کرنے سے گریز کرتی ہے، اللہ اسے ذلیل و رسوا کرتا ہے اور نیچے گرا دیتا ہے۔ان قرآنی آیات و احادیث سے معلوم یہ ہوا کہ قرآن ہی انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ترقی کا زینہ ہے اسی لئے قرآن کو سیکھنے اور سکھانے والے کو سب سے بہتر کہا گیا ہے۔نبیﷺ کا فرمان ہے : خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمه(صحيح البخاري:5027)
ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
إنَّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ(صحيح أبي داود:3641)
ترجمہ: بلاشبہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کی سب ستاروں پر ہوتی ہے، بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
علم دین کے حصول سے جنت کے راستے آسان ہوتے ہیں، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
من سلكَ طريقًا يلتمسُ فيه علمًا ، سهَّل اللهُ له به طريقًا إلى الجنةِ(صحیح مسلم:2699)
ترجمہ: جو علم دین کی تلاش کے راستے میں نکلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کے راستے آسان کردیتا ہے ۔
ان چند نصوص سے نہ صرف علم دین کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کی اشد ضرورت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ علم دین کی ضرورت سدا سے رہی ہے، نبیﷺ کا فرمان ہے:طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم (حدیث)
ترجمہ: علم دین کا سیکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ علم دین کا سیکھنا ہمارے اوپر فرض ہے جو اسے نہیں سیکھتا وہ اسلامی فریضے سے غافل ہے، جس کے متعلق آخرت میں سوال کیا جائے گا اور دنیا میں جہل کے جو نقصانات سے واسطہ پڑے گا وہ اپنی جگہ۔دورحاضر میں علم دین کی اہمیت اور اس کی ضرورت شدید ترین حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس بات کا حالات حاضرہ اور موجودہ صورت حالات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔اس وقت اسلام کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے، یہ فتنے کا دور ہے، اپنی جگہ ہزاروں قسم کے فتنے بھی سر اٹھا چکے ہیں ۔ برائیوں کے عروج کا فتنہ، اولاد کی بے دینی و نافرمانی کا فتنہ، عورت کا فتنہ، مال و دولت کا فتنہ، کفر اور اہل کفر کا فتنہ، عیش پرستی کا فتنہ، الحاد کا فتنہ وغیرہ ۔علم دین کےحصول کے راستے میں عوام کے لئے بڑی رکاوٹ علمائے کرام سے بدظن کرنا ہے۔ علماء کو طرح طرح کے طعنے دینا، ان پر کفر کے فتوے لگانا، ان کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنا اس وقت سوشل میڈیا بلکہ پورے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر عام ہے۔ جاہل لوگ اور ٹی وی چینل والے دین اور علمائے دین پر ملحدانہ تبصرے کر رہے ہیں۔ وارثین انبیاء کے متعلق عوام میں شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کا مقصد انہیں اصل دین سے دور رکھنا اور دین اسلام کی شبیہ بگاڑ کر دنیا والوں کے سامنے خود ساختہ اسلام پیش کرنا ہے ۔کبھی آپ نے جاہل انجینئر، جاہل ڈاکٹر اور جاہل اسکالر نہیں سنا ہوگا مگر جاہل مولوی بہت سنا ہوگا۔ ہوں گے کچھ جاہل قسم کے ملا مگر اس کی وجہ سے سارے وارثین انبیاء کرام علیہم السلام کو جاہل کہنا یا ان کی تضحیک کرنا دراصل عام مسلمانوں کو علم و عالم سے دور کرنا اور عوام کے لئے اسلام میں دخل اندازی کا شوشہ چھوڑنا ہے۔ حصول علم کے لئے راسخ فی العلم علماء کی ہمیشہ ضرورت ہے۔ ملحدوں کی طرف سے علماء کے متعلق یہ بہت ہی خطرناک مہم ہے، اس کا ہمیں حکمت عملی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب کو ختم کرنے کے لئے مغربی تہذیب کو ہر طریقے سے مسلمانوں میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیم کو ختم کر کے اس کی جگہ الحادی تعلیم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام اشیاء کی ملاوٹ کر کے مسلمانوں کو کھلایا جا رہا ہے، آج کے دور میں ناچ گانا کو ادب اور عریانیت و فحاشی کو فیشن قرار دیا جاتا ہے، اس ادب و فیشن کے نام پر اچھے اچھے مسلمان مرد و عورت قربان ہوگئے ۔سوشل میڈیا پہ اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈے کئے جا رہے ہیں وہ تو بیان سے باہر ہیں۔ کوئی بھی لیپ ٹاپ لے کر، موبائل لے کر، کچھ بھی لکھ کر یا ریکارڈ کرکے سوشل نیٹ ورک پر ڈال دیتا ہے اور وہ لمحوں میں پوری دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے۔کوئی لکھ دیتا ہے قرآن دہشت کی تعلیم دیتا ہے اور جہاد کی آیات کو اس پر زبردستی فٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر چھا جاتا ہے۔ یہ سب ہی کو معلوم ہے کہ عام طور پر داڑھی والے مسلمان شریف النفس اور بلند کردار کے حامل ہوتے ہیں مگر میڈیا کی کرم فرمائی کہ ہر داڑھی والے کو دہشت گرد کہنے پر تلا ہے۔ نتیجتاً مسلم داڑھی رکھنے سے گھبراتا ہے بلکہ اچھے اچھے علم والے داڑھی رکھنے سے خوف کھاتے ہیں۔ غیر تو غیر اپنے کہے جانے والے جدید ذہن کے مسلمان اس پروپیگنڈا کو سچ مان لیتے ہیں پھر ایسے جدید ذہن والے مسلمانوں کی طرف سے اسلام سے متعلق قسم قسم کے شبہات سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں جدید ذہن کے شبہات کے موضوع پر مل جائیں گی۔الغرض اس وقت ہر جانب سے قرآن کے نام پر، حدیث کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، جھوٹی باتیں گھڑ گھڑ کر اسے نبیﷺ کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ ملحدوں اور اہل کفر نے سوشل میڈیا کو جھوٹ، شہوت، فریب، اور فسق و فجور کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ الحادی تعلیم کو گلے لگایا جانے لگا ہے، اسلامی تہذیب پر مغربی تہذیب کو ترجیح دی جانے لگی ہے، مسجدیں سنسان، مدرسے ویران ہونے لگے ہیں اور شباب و کباب کی محفلیں آباد ہونے لگی ہیں ۔ پھر مسجدیں مسمار ہونے لگیں، آذان پر پابندی عائد ہونے لگی، داڑھی کو دہشت گردوں کی علامت قرار دیا جانے لگا، حجاب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا نام دے کر ممنوع قرار دیا جانے لگا اورمسلم بچوں کو قرآن کی تلاوت سے دور کر کے اسکولوں میں طاغوتی ترانے اگلنے لگے بلکہ اسلام کا نام ونشان تک مٹانے کی کوشش کی گئی ۔ان صورت حال سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں علم دین سے آراستہ ہونا پڑے گا۔ الحمدللہ علم دین عمر کے کسی حصے میں بھی سیکھ سکتے ہیں ۔ مرد و عورت اور بچے سبھی عمر والے علماء کی رہنمائی میں علم دین بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارا دین نہایت ہی آسان ہے۔ اس بات کو رب العالمین نے قرآن مجید میں اور ہادی اعظم ﷺ نے حدیث پاک میں کئی مقامات پر واضح کیا ہے ۔اس وقت یقین کریں علم دین کی سخت سے سخت ضرورت ہے۔ قرآن کو فہم و تدبر سے جاننے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دین پر صحیح سے عمل کرسکیں، اسلام اور مسلمانوں کے سامنے جو چیلنجز ہیں ان کا دندان شکن جواب دے سکیں ، سوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام کی جس طرح غلط ترجمانیاں کی جارہی ہیں ان کا خاتمہ کر سکیں اور دنیا وآخرت میں زندگی کی اصل ترقی سے ہمکنار ہوسکیں۔ یاد رکھیں یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کا علم حاصل کریں گے۔ میں آپ کو عصری علوم سے نہیں روکتی، بلاشبہ ہمارے لئے عصری علوم کی بھی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ علم دین کی ضرروت ہے۔ اس لئے علم دین کا ہر حال میں حصول کریں جو کہ ہمارا اسلامی فریضہ ہے
تحریر: عابی نور