امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
Article by Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
کوفہ(عراق) وہ مبارک شہر ہے جسے ستّر اصحابِِ بدر و بیعتِ رضوان میں شریک تین سو صحابۂ کرام نے شرفِ قیام بخشا۔ (طبقات کبریٰ، 6/89) آسمانِ ہدایت کے ان چمکتے دمکتے ستاروں نے کوفہ کو علم وعرفان کا عظیم مرکز بنایا اور کوفہ جیسے برکت والے شہر میں امام صاحب تشریف لائے۔
نام و نسب
اسم گرامی: نعمان۔
لقب
امام اعظم، سراج الامۃ، کاشف الغمہ۔
سلسلہ نسب
حضرت امام اعظم نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان بن ثابت بن قیس بن یزد گرد بن شہر یار بن پرویز بن نوشیرواں عادل۔
(حدائق الحنفیہ:42/خزینۃ الاصفیاء:90)
ابوحنیفہ کنیت کی وجہ تسمیہ
ابوحنیفہ کا مطلب ہے صاحبِ ملتِ حنیفہ، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کے باطل سے اعراض کرکے دین حق کو اختیار کرنے والا۔ اس غرض سے یہ کنیت اختیار کی ورنہ “حنیفہ” نام کی آپ کوئی صاحبزادی نہیں تھی۔ آپ کا خاندان عجم کے معزز شرفاء سے تعلق رکھتا ہے۔ امام صاحب کے پوتے اسمعیل بن حماد کہتے ہیں:
“نحن من ابناء فارس الاحرار”
(تہذیب ،ج۱۰،ص ۴۰۱)
آپ کے دادا پہلے غیر مسلم تھے لیکن وہ مسلمان ہو گئے اور اس کا نام نعمان رکھا اور یہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دعا کروائی، اور اسی لیے امام صاحب کے پوتے اسماعیل بن حماد کہتے ہیں :
“نحن نرجو ان یکون اللہ تعالٰی قد استجاب ذٰلک لعلی فینا”
ہمیں امید ہے کہ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کی دعا کو قبول فرمایا۔
(وفیات الاعیان،ج۳،ص۲۰۱)
بشارت نبوی ﷺ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے، اس مجلس میں سورۂ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ نے اس سورۂ کی آیت “وآخرین منھم لما یلحقو ابھم” کی تلاوت فرمائی تو حاضرین میں سے کسی نے پوچھا حضور یہ دوسرے کون ہیں جو ابھی تک ہم سے نہیں ملے حضور نے جواب میں سکوت فرمایا۔ جب بار بار سوال کیا گیا تو حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر دست اقدس رکھ کر فرمایا:
“لوکان الا یمان عند الثریا لاتنالہ العرب لتناولہ رجل من ابناء فارس۔”
اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضروری تلاش کریں گے۔
(صحیح البخاری:4615/صحیح مسلم:2546)
تحصیل علم
آپ نے ابتداء میں قراٰن پاک حفظ کیا پھر 4000 علما و محدّثین کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام سے علمِ دین حاصل کیا، آپ علم حدیث کے گھر کوفہ میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔
جن صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی
اسماء گرامی یہ ہیں
حضرت انس بن مالک،حضرت عبداللہ بن انیس،حضرت عبداللہ بن حارث،حضرت عبداللہ بن اوفیٰ،حضرت عامر بن واثلہ،حضرت معقل بن یسار،جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن انس، علیہم الرحمۃ والرضوان۔ یوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو تابعی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
نمایاں شاگرد
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں
امام ابو یوسف
امام محمد بن حسن الشیبانی
امام حماد بن ابی حنیفہ
امام زفر بن ہذیل
امام عبد ﷲ بن مبارک
امام وکیع بن جراح
امام داؤد بن نصیر رحمتہ اللہ علیہم اجمعین
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم ﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
خصائص
امام اعظم نے جس ذوق شوق کے ساتھ علوم اسلامی کی تحصیل کی وہ اپنے وقت کے بے نظیر فقیہ، مجتہد، امام الحدیث اور عبقری عالم بن گئے۔ قدرت نے ان کی ذات میں بے شمار صوری و معنوی خوبیاں جمع کر دی تھیں اور وہ بلاریب رسول اللہ ﷺ کے سچے جانشین تھے۔آپ متقی، صاف و بے داغ کردار کے حامل،اور پرہیز گار عالم و فقیہ تھے۔ انہوں نے علم کو بصیرت، فہم و فراست اور تقویٰ کے ذریعہ اس طرح کھول کر بیان کیا جیسا کسی اور نے نہیں کیا۔
(عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان)
امام عبداللہ بن داؤد فرماتے ہیں: لا یتکلم فی ابی حنیفۃ الا احد رجلین اما حاسد لعلمہ واما جاھل بالعلم لایعرف قدر حملتہ’’
ابو حنیفہ پر ردوقدح کرنے والا یا تو ان کے علم سے حسد کرنے والا ہے یا علم کے مرتبہ سے جاہل ہے وہ علم کے حاملوں کی قدر سے بے خبر ہے۔
(اخبار ابی حنیفۃ،ص۵۴)
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرمایا کرتے تھے:
جو آدمی فقہ ماہر ہونا چاہیے وہ امام ابو حنیفہ کا محتاج ہوگا یہ بھی فرمایا کہ میں ابو حنیفہ سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں جانتا اور لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے عیال ہیں، جس نے امام ابوحنیفہ کی کتابیں نہیں دیکھیں وہ علم میں ماہر نہیں ہوسکتا اور نہ فقیہ ہو سکتا ہے۔
(عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ لنعمان)
روضۂ اقدس سے سلام کا جواب: جب امام صاحب رضی اللہ عنہ روضۂ رسول ﷺ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا: السلام علیک یا رسول اللہ
تو جواب ملا:
علیک السلام یا امام المسلمین۔
(خزینۃ الاصفیاء:91)
حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رضی ﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے: کہ میں نے پیغمبرِ خدا ﷺ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا: یارسول اللہﷺ !میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ فرمایا: علم ابوحنیفہ کے پاس۔
خواجہ محمد پارسا نے فصولِ ستہ میں لکھا ہے:
کہ امام اعظم کا وجود حضور ﷺ کے معجزات میں سے ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اس مذہب پر گامزن ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک اسی دین پر حکم چلایا کریں گے۔
قطب العالم حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب راحت القلوب میں لکھتے ہیں:
کہ جناب امام ابوحنیفہ جب آخری مرتبہ حج بیت اللہ کو تشریف لے گئے تو رات کے وقت کعبۃ اللہ کا دروازہ پکڑ کر ایک پاؤں پر کھڑے رہے اور نصف قرآن ختم کردیا، پھر دوسرے پاؤں پر کھڑے رہے اور نصف دوسرا ختم کیا۔ پھر کہا:
ما عرفناک حق معرفتک وما عبدناک حق عبادتک۔
غیب سے آواز آئی: ابوحنیفہ تم نے پہچان لیا، جیسے کہ پہچاننے کا حق ہے اور میری تم نے عبادت کردی جیسا کہ حق ہوتا ہے، ہم تمہیں اور تیرے مقلدین کو بخش دیں گے۔ (ایضاً:91)
حضرت امام عبدالعزیز بن ابی رواد فرماتے ہیں:
آپ سے محبت اہل سنت کی علامت، اور آپ سے بغض اہل بدعت کی علامت ہے۔
(سیر اعلام النبلاء:ج 6،ص 536)
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب ﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آ جائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیروکار ہے۔
عبادت و ریاضت
امام ِاعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم دن بھر علمِ دین کی اِشاعت، ساری رات عبادت ورِیاضت میں بَسر فرماتے۔ آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے، تیس سال تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے، چالیس سال تک عِشاء کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی، ہر دن اور رات میں قراٰن پاک ختم فرماتے، رمضان المبارک میں 62 قراٰن ختم فرماتے اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزار بار قراٰنِ پاک خَتْم کئے۔(الخیرات الحسان، ص50) آپ نے 1500 درہم خرچ کر کے ایک قیمتی لباس سلوا رکھا تھا جسے آپ روزانہ رات کے وقت زیبِ تن فرماتے اور اس کی حکمت یہ ارشاد فرماتے: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے زِینت اختیار کرنا، لوگوں کے لئے زِینت اختیار کرنے سے بہتر ہے۔ (تفسیرروح البیان ،3/154) رات میں ادا کی جانے والی اِن نمازوں میں خوب اشک باری فرماتے، اس گریہ و زاری کا اثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چہرۂ مبارکہ پر واضح نظر آتا۔
(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ،ص47،الخیرات الحسان،ص54)
ذریعۂ معاش
آپ نے حُصُولِ رزقِ حلَال کے لئے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور لوگوں سے بھلائی اور شَرعی اُصُولوں کی پاسداری کا عملی مظاہرہ کر کے قیامت تک کے تاجروں کے لئے ایک روشن مثال قائم فرمائی۔(تاریخ بغداد، 13/356) علمِ فقہ کی تدوین، ابوابِِ فقہ کی ترتیب اور دنیا بھر میں فقہ حنفی کی پذیرائی آپ کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے۔ (الخیرات الحسان،ص 43)
آپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں
الفقه الأکبر، الفقه الأبسط، العالم والمتعلم، رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتّی، وصية الامام أبي حنيفة.
وصال ومدفن
150 ہجری کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی پاداش میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ آپ کے جنازے میں تقریبا ًپچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔
لاکھوں شافعیوں کے امام حضرت سیّدنا امام شافِعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے بغداد میں قیام کےدوران ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا: میں امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے برکت حاصِل کرتا ہوں، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِ مبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دُعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔ آج بھی بغدادشریف میں آپ کا مزارِ فائضُ الاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے۔
مناقب الامام الاعظم، 2/216،سیراعلام النبلاء، 6/537،اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص 94،الخیرات الحسان ، ص 94
تحریر: “یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی“
ماشاء اللہ کیا خوب لکھا ہے اور سمجھ بھی آئی آج سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ آپکی بیٹی کا نام حنیفہ ہے اس لئے ابّو حنیفہ آپکو کہا جاتا ہے پر میں نے ایک واقعہ بھی سنا ہوا ہے وہ کوئی دودھ کے متعلق تھا جس کے جواب میں آپکو ابّو حنیفہ کا لقب ملا کیا وہ واقع صحیح ہے؟