عمران خان ایک فتنے کا نام ہے
Article by Abrish Noor
مجھے عمران خان سے نفرت نہیں اسکے نظریات سے نفرت ہے۔ مجھے عمران خان کی سوچ سے نفرت ہے اور میری غیرت ایمانی مجھے یہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی میرے دین کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائے اس نفرت کرنا صحابہ کی سنت ہے کسی منافق کو ناپسند کرنا میرے زندہ ضمیر کی علامت ہے۔ عمران خان نے ایک ایسا گروہ تیار کردیا جو آئے روز دین کے خلاف بکواسات کرتے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ وہ گروہ اپنے علاہ کسی کو مسلمان اور محب وطن نہیں سمجھتا جو اس سے اختلاف رکھے اسے غداری کا سرٹیفیکیٹ باٹنتے پھرتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس کام میں نامور صحافی سرفہرست رہتے ہیں صحافی حضرات حق و باطل کی جنگ میں حق کا ساتھ دینے کے بجائے باطل کو حق بنانے پر تلے ہیں اور اسی دوران وہ بھول گئے ہیں کہ ہم ایک مسلمان بھی ہیں، کسی صحافی کا اپنے پسندیدہ لیڈر کی تعریف کرنا بلکل برا نہیں لیکن اپنے پسندیدہ لیڈر کی غلطیوں کو حسین شکل و صورت دکھا کر عوام کو گمراہ کرنا غلط ہے۔ قلم ایک ایسی طاقت ہے جس نے قوموں کے حالات بدل دئیے دنیا کی تمام اقوام جہنوں نے ترقی کی اسکی وجہ قلم تھا اور اسکی سچائی تھی۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ نقصان ان قلم فروشوں نے دیا جو حق جانتے ہیں مگر لکھتے نہیں، جو شعور رکھتے حق پہچاننے کا، لیکن پہچاننے سے انکار کردیا۔ آخر کیوں ؟
کیا وجہ ہے کہ انہیں اپنے دین سے بھی کوئی سروکار نہ رہا؟
اب میں بحثیت مسلمان تمام مسلمانوں سے سوال کرتی ہوں کہ پی ٹی آئی کا سپورٹر کہتا ہے کہ اگر خان کی سپورٹ نہ کی تو ساری عبادتیں ضائع ہو جائیں گی
ایک کہتا ہے اگر عمران نے نمرود کو بھی کھڑا کیا میں نمرود کو ووٹ دوں گا۔
ایک کہتی ہے میری امی خان سےشادی کرنا چاہتی ہے اور میرے ابو کو کوئی اعتراض نہیں
ایک کہتی ہے خان میرے ساتھ شادی کرلے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا
ایک کہتی ہے مجھے حج عمرہ کی فکر نہیں عمران کا دیدار ہو گیا کافی ہے۔
ایک کہتی ہے عمران کی خاطر طلاق لے لوں گی
اور وہ فتنہ گر خود کہتا ہے
جیسے نبیوں نے اللّٰہ کی تبلیغ ایسے ہی آپ لوگوں نے گھر گھر جا کر میری تبلیغ کرنی ہے ( نعوذ باللہ, پیغمبری سے بھی آگے نکل کر خدائی دعوی بھی ہو گیا)
:جنہوں نے مجھ سے بغاوت کی انہوں نے شرک کیا ( اللہ کے علاوہ کسی بھی اور کو خدا ماننے, سجدہ کرنے کو شرک کہتے ہیں
مدینہ کی بات کرتے کرتے ہمارا پہلا دین بھی تباہ کر دیا۔ جب بھی کوئی گستاخی عمران خان سرزد کرتا ہے تو مولانا طارق جمیل صاحب بتاتے کہ ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے،
خان صاحب کیا کہہ رہے ہیں عمران خان کے جواب دینے سے پہلے ہی مولانا نورالحق صاحب کہتے ہیں ریاست مدینہ کی تو بات کرتا ہے
اللّٰہ نے مجھے غلطی سے انسان بنا دیا۔ لوگوں نے کہا یہ کیا کہہ رہے ہیں تو جلیل احمد شرقپوری نے کہا ریاست مدینہ کی تو بات کرتا ہے
عمران خان نے کہا صحابہ ڈر گئے تھے۔ صحابہ پر بہتان لگایا۔
صحابہ نے لوٹ مار شروع کر دی۔
صحابہ کی گستاخی کی ۔
تاریخ میں حضرت عیسیٰ کا کوئی ذکر نہیں۔
پیغمبر کی گستاخی کی۔
عمرہ کرنے سے بہتر ہے میرا ساتھ دو۔
الله کے حکم کو رد کرنے کی گستاخی۔
اپنی ذات کو الله کے حکم اور اسلام کے اہم رکن سے بھی اوپر سمجھنے کا گناہ کیا۔
قرآن میں اللّٰہ نے میرے جیسے کیلئے بتایا ہے
“کہ یہ حق پر ہے اسکا ساتھ دو” الله کی کتاب کا غلط حوالہ دیا.
اور جب ہم نے سوال کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ایک ہی جواب ملا کہ مدینہ کی ریاست کی تو بات کرتا ہے
مسجد نبوی ﷺ واقعہ پیغمبروں کی شان میں گستاخی۔
صحابہ کی شان میں گستاخی۔
عمران خان کے مخالفین کی حمایت کرنا الله کے حکم کی نافرمانی قرار دینا اور شرک قرار دینا۔
ہر گستاخی پر، ہر غلط بیانی پر عوام نے علماء کی طرف دیکھا
تو مولانا طارق جمیل نے رو رو کہ یہ ہی کہا ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے
عمران خان ﺑﮭﯽ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﺲ نے کلمہ پڑھا ہوا ہے۔
جو بےادبی کرتا ہے۔ گستاخی کرتا ہے۔
جان بوجھ کر دین میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن ریاست مدینہ کی تو بات کرتا ہے
ﺍﺱ ﻧﮯ رسم ﺭﻭﺍﺝ ﺗﻮﮌﮮ،
ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﻮﮌﮮ،
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺁیا۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻗﻮﻡ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯽ ہے کہ ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ہے۔
قوم کی بیٹیاں آزادی کی جدوجہد ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﺮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﺎﭼﻨﮯ لگیں ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﯿﺮ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ.
بہن بیٹیوں کو دھرنوں کی زینت بنایا۔
ﻟﻮﮒ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ریاست مدینہ کی بات تو کرتا ﮨﮯ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﺮ ﺷﺮﮎ ﻭ ﮐﻔﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ،
ﮨﺮ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﯾﺎ،
ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ
ﮐﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ مدینہ کی ریاست کی بات تو کرتا ہے۔
ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ کہ دین کا استعمال اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، اگر وہ بولا تو اسے غداری سے منسلک کر دیا۔
قوم کی نوجوان نسل کو بدتمیز بدتہذیب بدلحاظ بنا دیا گیا ہے۔
جو ماں باپ کا حکم ماننے کی بجائے عمران خان کے جلسوں میں جانا پسند کرتے ہیں۔
جو اسلامی درسگاہوں اور مسجدوں میں جانے کی بجائے دھرنوں میں جانا پسند کرتے ہیں۔
ہماری بے راہ روی مدینہ کی ریاستﮐﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﻣﯿﮟ بہتﮐﭽﮫ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﯽ.
اب تمام صحافی حضرات مجھے ان تمام باتوں کا جواب دیں اگر میں غلط ہوں دین آپ نے بھی پڑھا ہے شاید مجھے سے زیادہ نالج رکھتے ہوں گے ان تمام باتوں کی تاویلیں کیا نکلتی ہیں ایک شخص جس اپنے دین کا ہی علم نہ ہو اسے آپ کیسے عاشق رسول ﷺْ کہہ سکتے ہیں؟؟ یہود و نصارٰی آج بھی اپنے دینی طبقہ کے الفاظ کو آخری بات سمجھتے ہیں، ہندو اپنے پنڈت کا عزت و احترام کرتے ہیں لیکن آپکو کیا ہوگیا اپنے ہی دین کے خلاف قلم اٹھانا شروع کردیا، اپنے ہی دینی لوگوں کے خلاف لکھنا شروع ہوگئے یاد رکھنا
اے قلم فروش زرا سوچ کر لکھنا
اپنی آخرت کا سوچ کر لکھنا
ہر لفظ کا جوابدہ ہوگا رب کے سامنے آخرت کی پکڑ کا سوچ کر لکھنا
مظلوم کا درد امانت ہے تیرے پاس
ظالم مٹ جاتا ہے یہ سوچ کر لکھنا
آؤ ابرش کیوں نا قلم خود تھامیں
صرف حق کو لفظوں کی چادر اوڑھا کر لکھنا
خدا کے لیے اس فتنے کو سمجھیں ورنہ اس ملک بہت نقصان ہوچکاہے مزید نقصان ہوگا جنرل حمید گُل نے کہا تھا اگر میرا دشمن ملک میری تعریف کرے تو سمجھ جانا میں غدار ہوں آج عمران نیازی کی انڈیا میڈیا تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے کیوں؟ اس لیے کہ اپنے ہی محافظوں کو اغیار سے سامنے مذاق بنایا دشمن جو کام عرصہ دراز سے کرنے میں ناکام رہے یہ عمرانی فتنہ اس ملک میں رہے کر بہت آسانی سے کررہا ہے
اللہ تعالیٰ اس فتنے سے میرے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنے دین ملت سے محبت اور اسکی حفاظت کرنے والا بنائے
تحریر : ابرش نور