انتخابی دنگل
Article by Abroo Rajpoot
عام انتخابات برائے 8 فروری 2024 سر پر ہیں، سیاسی جماعتیں اپنی کمپین کے لیے متحرک ہیں، پانچ سال نظر نہ آنے والے اب چوٹ لگنے پر بھی جا کر عیادتیں کر رہے ہیں، ہر سیاسی جماعت ان 75 سالوں میں آزمائی جا چکی ہے (سوائے کرین پارٹی کے) سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے دعوے کیے مگر عملی کام صفر رہا، کرپشن بھی ناقابل برداشت تھی مگر یہ جماعتیں دین دشمن نکلیں، کسی نے ختم نبوت ﷺ پر غداری کی تو کوئی آسیہ ملعونہ کو بھگاتا رہا، کسی نے 8 عاشقان مصطفٰی ﷺ کا خون بہایا تو کسی نے چوک یتیم خانہ کو ہمارے بھائیوں کے خون سے رنگین کیا، “ستم در ستم یہ کہ وہ بے وفا ہو کر بھی باوفا ٹھہرے”
دین کی بات کرنے والے مذہبی کارڈ کا استعمال کرنے والے لگے، مگر درحقیقت “مذہبی ٹچ” دینے والوں کو قوم امت کا لیڈر سمجھتی رہی۔ شعائر اسلام کا مذاق اڑانے والے، غلیظ میکرون سے گلے ملنے والے، آسیہ ملعونہ کو باہر بھگانے والے، سلمان تاثیر کو شہید انسانیت کہنے والے “ساڈی اتے گل ہوگئی اے” ان یقین دہانیوں کے باوجود مسلسل کمپین کر رہے ہیں، مگر ہم وہ ہیں جنہوں نے فیض آباد میں سر پر کفن باندھا، ہم پنجاب اسمبلی ہال کے باہر بے خوف و خطر بیٹھے رہے، چوک یتیم خانہ میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرنے والے، وزیر آباد کی سڑکوں پر اپنے عشق کی یادگاریں چھوڑنے والے
ہم لبیک والوں کو کیا ہوا؟ جب فصل کاٹنے کا موسم آیا ہم گھروں میں بیٹھ گئے، جب سعد السعود کا ساتھ دے کر وفا والوں کی فہرست میں نام لکھوانا تھا، تو ہم کمپین کرنے کی بجائے سوشل میڈیا سکرول کرتے رہے؟
سردی زیادہ ہے؟ فیض آباد کے مقام سے زیادہ تو نہیں ہے، جب یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے چاروں جانب سے برس رہے تھے اور حکومتی تشدد، ریاستی جبر ایک الگ کہانی ہے. تب ہم پیچھے نہیں ہٹے تو الیکشن کمپین کرتے ہوئے شرم کیوں آرہی ہے؟ اگر آپکے پسندیدہ امیدوار کو ٹکٹ نہیں مل سکا یا آپکی قربانیوں کی آپکی ضلعی باڈی کو قدر نہیں ہے، تو کیا ہوا؟ ہم نے تو کام رسول اللہ ﷺ کی ذات کے لیے کیا، ہم نے تو دین تخت پر لانے کے لیے قربانیاں دی ہیں آئندہ بھی دیں گے مگر فی الحال تحریک کو ہماری جان کی نہیں، وقت کی ضرورت ہے، مال کی ضرورت ہے۔
آپ نے حالیہ دنوں میں سعد السعود بھائی کو دیکھا ہے؟ اس چہرے کی طرف غور سے دیکھیں، نیند کی کمی، مسلسل سفر سے تھکان، مگر جذبہ پھر بھی کم نہیں ہوا۔ ایک دن بھی گھر بیٹھنے کو ترجیح نہیں دی۔ ایک ایک دن میں تین، تین چار، چار شہروں کے دورے کر کے قوم کو نظام مصطفیٰ ﷺ کی اہمیت سمجھا رہے ہیں، قوم کو بتا رہے ہیں کہ اے میری قوم! دین کی طرف واپس آؤ، دین تمہیں روٹی، کپڑا، مکان بھی دے گا، دین تمہاری عصمت کی حفاظت بھی کرے گا، دین تمہاری غیرت، عزت نفس، خودداری کی حفاظت کرے گا۔
آج دین کے محافظوں کو ووٹ دو۔
ووٹ؟
کیا ہے ووٹ؟
آکسفورڈ ڈکشنری میں ووٹ کے معنی یہ ہیں: “کسی منصب کے لیے ایک سے زیادہ امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا، خواہ بیلٹ کے ذریعے ہو یا ہاتھ اٹھا کر”
کیا آپ ووٹ کی اہمیت سے ناآشنا ہیں؟ ووٹ تین حرفی مختصر لفظ آپکی تقدیر بدل سکتا ہے، آپکے ووٹ کا غلط استعمال ایک غلط شخص کو پانچ سال کے لیے آپکا امیدوار منتخب کر کے آپکی غلط ترجمانی کروا سکتا ہے، آپ اس ووٹ کے ذریعے ختم نبوت ﷺ کے غداروں کو مسلط کر کے حضور ﷺ کو کیا جواب دیں گے؟
اس ایک ووٹ کے ذریعے آپ سیکولر، لبرلز، دین دشمنوں کو اقتدار دے کر اسلام کو اس سرزمین میں اجنبی بنانے کی سازش میں براہ راست شریک بھی ہو سکتے ہیں، کیا آپ شریک ہونا پسند کریں گے؟ کیا آپ چاہیں گے کل آپکی مذکر اولاد، مؤنث بن کر آپکے سامنے کھڑی ہو؟ آج اگر ہم نے مسئلے کی حساسیت کو نہ سمجھا تو عنقریب ہماری نسلیں ہمارے سامنے ملحدین کا نمائندہ بن کر کھڑی ہوں گی۔ آج ہم نے دین کو ترجیح نہ دی تو دین کسی کے پاؤں میں نہیں پڑتا، اللہ ہم سے بہتر قوم لے آئے گا(خدا نہ کرے)
دین کو ہماری ضرورت نہیں ہے، ہمیں دین کی ضرورت ہے، ہم دین کے محتاج ہیں، دین کے بغیر ہم جانوروں کی مانند ہیں، دین ہمیں زندگی گزارنے کا شعور دیتا ہے، دن ہمیں معاشرتی آداب تو سکھاتا ہی ہے اور ساتھ ساتھ ہماری قلبی و روحانی تربیت کا بھی اہتمام کرتا ہے تب ہی تو انسان، انسان کہلانے کا حقدار بنتا ہے۔
خدارا! آج بیدار ہو جائیے، آج سعد السعود کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کا وقت ہے، آج دین تخت پر لانے کے مشن کو عملی جامہ پہنانے کا وقت ہے، آج باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے، آج اگر آپ بیدار نہ ہوئے گھروں سے نہ نکلے تو خدا جانے اگلے الیکشن کے وقت ہم موجود ہوں گے یا نہیں؟ کیا ہم اس طرح بغیر کوئی دین کا کام کیے بابا جی کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کل بابا جی کے پیچھے پیچھے سوئے حشر شہ ابرار ﷺ کی قیادت میں چلنا ہے تو آج محنت کرنی ہوگی اور یہ محنت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
اٹھیے! دین کو تخت پر لانے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔
تحریر: آبرو راجپوت