عالم کُفر کی سازشیں اور اُمتِ مُسلِمہ

Article by (انجنئیر محمد عاصم وڑائچ)
عالم کفر نے اُمت مُسلِمہ کے خلاف سازشوں کا ایک بڑا جال بنا ہوا ہے یہ جال اُمت مُسلِمہ میں فرقہ ورایت سے لے کر دہشتگردی تک پھیلا ہوا ہے ایسی صورت حال میں غلط اور صحیح میں فرق کرنا بہت مشکل ہے لیکن چونکہ اللّٰہ تعالٰی اور رسول اللّٰہﷺ کے احکامات سے ایک مسلمان کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مُسلِم بھائیوں کے لئے ہمیشہ حُسن ظن رکھے جب تک کوئی واضح ثبوت سامنے نہ ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو موردِ الزام نہ ٹھہرائےـ
اگر بات کی جائے افغان طالبان کی تو اگر ہم حقیقت کی آنکھ سے حقائق جاننے کی کوشش کریں تو موجودہ صورت حال میں افغان طالبان کو ملنے والی فتوحات کے بعد افغان طالبان کا وہاں موجود لوگوں کے ساتھ رویہ یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بے قصور کو قتل کرنے یا کسی عبادت گاہ پر حملہ کرنے کے حامی نہیں تھے، بلکہ اُنہوں نے پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی۔
چونکہ عالم کفر کی طرف سے سازشیں اس قدر زیادہ ہیں کہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ، کنوے کو مینار اور مینار کو کنواں بنا کر پیش کیاجاتا ہےاور پھر پوری دنیا کے میڈیا پر جو طاغوتی قوتوں کا غلبہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، اُس پر بیٹھ کر مظلوم کو ہی اس قدر ظالم بنا دیا جاتا ہے کہ ہر حقیقت جاننے والا کراہ اٹھتا ہے۔
جہاں تک بات ہے تحریک طالبان پاکستان اور دیگر نام نہاد جہادی تنظیموں کی تو اِنکی پیدائش کا سبب کسی سے مخفی نہیں ہے کہ وہ کس کی امداد، کس کے حکم پر اور کس کے خلاف تیار کی گئیں۔ جب تک اُنہوں نے افغانستان میں روس کا مقابلہ کیا اور امریکی جہاد کیا تو وہ مجاہدینِ اسلام ٹھہرے اور جب شاہ بہادر امریکہ کے خلاف آئے تو وہ دہشتگرد بن گئے۔
ہماری تمام تر ہمدردیاں صرف اُن مجاہدینِ اسلام کے لئے ہیں جنہوں نے اسلام کے نفاذ کے لئے ظالم قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قربانیاں دیں اور حق کا پرچم بلند رکھا اور یقیناً یہ ساری باتیں افغان طالبان کے قائد مُلا عمر کے نظریات سے واضح ہوتی ہیں جس پر کبھی کوئی مسلمان دورائے نہیں رکھ سکتا۔
باقی رہی بات امن پسندی کا درس دینے والے شاہ بہادر امریکہ کی تو اُس کی طرف سے اُمت مسلمہ پر ہونے والے ظلم ہم کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں جہاں بھی اُمتِ مسلمہ پر ظلم ہوا وہیں پر امن کا دعویدار امریکہ اُس ظلم میں برابر کا شریک پایا گیا۔ ہم کیسے گوانتاناموبے کے جیل خانہ اور بگرام ائیر بیس پر ہونے والے وحشیانہ ظلم ، افغانستان کے شہر قندوز میں مدارس پر حملہ اور سینکڑوں معصوم بچوں کا بہتا ہوا خون، کابل میں کھیلی جانے والی مسلمانوں کے خون کی ہولی ،عراق،شام ،فلسطین، کشمیر اور برما میں ہوتی ہوئی مسلمانوں کی نسل کشی کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟
یہ ظلم صرف مسلمانوں کی نسل کشی تک ہی محدود نہ رکھا گیا بلکہ قرآن پاک کے نسخوں کی بڑی تعداد کا افغانستان میں نذر آتش کرنا اور ظلم بالائے ظلم کہ پیغمبر اسلام ﷺ شان میں گُستاخیاں کرنے والوں کو بھی ہر لحاظ سے پروموٹ کرنے تک جاری رکھا گیا۔
اب کچھ سوالات ہیں جن کا جواب یقیناً قابل تشویش ہے کہ
جن طالبان کے پاس بنیادی زندگی کی سہولیات بھی میسر نہ تھیں وہ کس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے مختلف دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے تھے؟
ہم میں سے کوئی بھی آج کی جدید ٹیکنالوجی سے نا آشنا نہیں تو سوال یہ ہے کہ جن طالبان کو ٹریس کرنے کے لیے دنیا کی طاقتور ترین ایجنسیاں سرگرم رہیں تو جب وہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے تو اُنکو ٹریس کیوں نہ کیا جاتا؟
کیا کسی بھی زر خرید کو کسی کا ترجمان بتا کر اُس سے اعترافِ جرم کروا کر اُسی پر یقین کر لینا کہاں کی دانشمندی ہے؟
المختصر ہماری محبت اور نفرت کا معیار صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔
“الحَبُّ لِلّہ وَ ال٘بُغ٘ضُ لِلّہ” ہماری محبت بھی اللّٰہ کے لئے اور بغض یعنی نفرت بھی اللّٰہ کے لئے ہے لہذا
ہم ہر ظلم کے خلاف ہیں چاہے وہ مُسلِم پر ہو یا غیر مُسلِم پر ہو اور کرنے والا بھی چاہے مُسلِم ہو یا غیر مُسلِم
ظالم چاہے مسلمان ہو یا غیر مُسلِم دونوں کے خلاف ہی عَلمِ جہاد بلند کرنا ہماری روایات میں شامل ہے۔
اور رہی بات کہ افغانستان کے طالبان سے پوری دنیا کی نام نہاد جمہوری، سیکولر، لبرل اور اسلام دُشمن قوتوں کو آخر اتنا خوف کیوں لاحق ہے؟
تو اِسکا جواب علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تقریباً ایک سو سال پہلے “اِبلیس کی مجلسِ شوریٰ” کے عنوان سے ایک نظم کے شعر میں دیا ہے:
“عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر
حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں”
اسکا مفہوم یہ ہے کہ ابلیس اپنے مشیروں سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے کہ اُسے موجودہ دور میں ہر طرف پھیلے ہوئےظلم و ستم کے اِن حلات سے یہ خوف ہے کہ وہ نظام جو پیغمبر اسلامﷺ لے کر آئے اُس سے مسلمان کہیں آشنا نہ ہو جائیں کیونکہ اّس نظام میں وہ برکتیں ہیں کہ جس کے سامنے پوری دنیا کے تمام دجالی نظام بے کار ہو جائیں گے اِس لیے ابلیس اپنے چیلوں کے ساتھ مل کر کہتا ہے کہ سو بار توبہ اُس نظام سے جو عورتوں کی عزت کا محافظ اور مردوں کو غیرت مند مجاہد بناتا ہے۔
اس کا تھوڑا سا تصور ہم پچھلے دِنوں افغانستان میں ایک ریپ کیس پر دو مجرموں کو ملنے والی سزا سے کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں یقیناً اب کئی سالوں تک وہاں عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی جیسی لعنت کا خاتمہ ہو جائے گا اور یہی اسلامی نظام کی برکتیں ہیں جس سے نام نہاد قوتوں، این جی اوز اور انڈسٹریلسٹس کو خطرہ لاحق ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اِس ساری صورتحال میں افغان طالبان کی سب سے بڑی غلطی میڈیا کا بائیکاٹ تھا جس کا خُمیازہ اُنہیں پوری دنیا میں بدنامی کی شکل میں بُھگتنا پڑا،
لیکن اُس غلطی سے اُنہوں نے بہت کچھ سیکھااور اُسکا سدباب کیا جس کے نتیجہ میں پورے عالمِ کُفر کی چیخیں نکل رہی ہیں اگر آج افغان طالبان کی فتوحات کے بعد کئے جانے والے افغانستان میں اقدامات کو افغان طالبان کی طرف سے سوشل میڈیا پر نشر نہ کیا جاتا تو یقیناً طاغوتی قوتوں کی طرف سے پوری دُنیا میں یہی شور مچایا جاتا کہ افغان طالبان نے پورے افغانستان کو آگ لگا دی ہے جیسا کہ ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے حال پر رحم فرمائے ۔ ہمیں آپس میں اتفاق و اتحاد نصیب فرمائےـ ایک جسد واحد بن کر اُمتِ مُسلمہ پر ہونے والے ظلم و ستم کا سدباب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں مغرب کے آلہ کار حکمرانوں ،نام نہاد غیروں کے ایجنٹوں، لبرل اور سیکولر ذہنیت اور ملحدانہ سوچ رکھنے والے ناسوروں اور دجالی نظام کے حامیوں سے نجات عطا فرمائے۔
اے اُمتِ مُسلِمہ۔۔۔۔
کابل سے لیکر قندھار تک ، تورا بورا سے تکریت، فلسطین سے شام، چیچنیا سے بوسنیا، دریائے دجلہ سے دریائے نیل، بغداد سے یمن، کشمیر سے برما، ایران سے عراق، مصر سے افغانستان تک بہتا ہوا اُمت مسلمہ کا لہو اور اُمت کا بِکھرا ہوا شِیرازہ اور پہ در پہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں اہل مغرب کی طرف سے کئے جانے والے حملے اور ستاون سے زائد نام نہاد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے حِسی ہم کو یہی پیغام دے رہی ہے کہ:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے جہاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
والسلام!
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا