معاویہ ہمارے سردار
Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
فرقِ مراتب بے شُمار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
نبیِّ کریمﷺ کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم امتِ مسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ پاک نے ان کو اپنے رسول اللہﷺ کی صحبت ، نصرت اور اِعانت کے لئے منتخب فرمایا، ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت ومدح میں قراٰنِ پاک میں جابجا آیاتِ مبارکہ وارد ہیں جن میں ان کے حسن عمل، حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت اور انعاماتِ اُخروی کا مُژدہ سنا دیا گیاہے۔ جن کے اوصافِ حمیدہ کی خود اللہ پاک تعریف فرمائے ان کی عظمت اور رفعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔
ان پاک ہستیوں کے بارے میں قراٰنِ پاک کی کچھ آیات درج ذیل ہيں
تَرجَمۂ کنز الایمان: یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
(پ۹،الانفال:۴)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے.
(پ۱۱، التوبہ:۱۰۰)
جس طرح انبیاء کرام علیہم السلام میں مراتب ہوتے ہیں اسی طرح صحابہ میں بھی مراتب ہوتے ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ: تم میں سے وہ لوگ جو فتح مکہ سے پہلے صدقہ اور جہاد کر چکے ہیں برابر نہیں یہ بڑے درجے والے ہیں ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد صدقات دیے اور جہاد کیے اور اللہ نے ان سب سے جنت کا وعدہ فرما لیا۔
(سورۃ الحدید،آیت۱۰)
انبیائے کرام علیہم السَّلام کے بعد تمام انسانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ تعظیم و توقیر کے لائق ہیں یہ وہ مقدّس ومبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اور تَن مَن دَھن سے اسلام کے آفاقی اور ابدی پیغام کو دنیا کے ایک ایک گوشے میں پہنچانے کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان مبارک ہستیوں نے قراٰن وحدیث کی تعلیمات کو عام کرنے اور پرچم اسلام کی سربلندی کے لئے ایسی بے مثال قربانیاں دی ہیں کہ آج کے دور میں جن کاتصوّر بھی مشکل ہے۔
آیاتِ قراٰنیہ کے علاوہ کتب احادیث بھی فضائل صحابہ کے ذکر سے مالا مال ہیں چنانچہ، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح ،۲/۴۱۳،حدیث: ۶۰۱۲)
ایک حدیثِ پاک میں ہے میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔
(مشکوٰۃ المصابیح ،۲/۴۱۴،حدیث: ۶۰۱۸)
ان سب آیات وروایات پر نظر کرتے ہوئے یہ جزم و یقین حاصل ہوتا ہے کہ ان حضرات کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے ، ان مقدّس ہستیوں پر اللہ پاک کا بے حد فضل وکرم ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہيے کہ ان پاکیزہ نفوس کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کے حالات و واقعات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور دونوں جہاں میں کامیابی کے ليے ان کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔
اب جس موضوع پر میں لکھنا چاہتا ہوں وہ امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان جو اختلاف ہیں اور کچھ لوگ کسی ایک طرف ہو کر چاہے وہ اہلبیت کے محبت ہو یا صحابہ اکرام کی جو ان دونوں مقدس ہستیوں کے خلاف الفاظ بولتے ہیں ان کو ان معاملات میں گریز کرنا چاہیے کیونکہ وہ ان بزرگ ہستیوں کے آپس کے معاملات ہیں دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی انصاف ہے۔ اس مسئلہ میں وہ لوگ بھی غلط ہیں جو امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور وہ بھی غلط ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان و عظمت میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک ﷲ تعالیٰ، رسول اللہﷺ ، صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، آئمہ کرام، اولیائے عظام اور علماء و اہل اسلام کا ادب واحترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں چند روایات درج ذیل ہیں
عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ
اے اللہ! اسے ہدایت یافتہ بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے
(سنن الترمذی۔٣٨٤٢ وقال؛ ھذا حدیث حسن غریب)
صحیح بخاری میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ
میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان کے لئے جنت واجب ہے
(صحیح بخاری ٢٩٢٤)
محدثین اس حدیث کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ہوا تھا، اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے۔
( صحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠، ٦٢٨٢۔٦٢٨٣)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی میں سے تھے۔
(صحیح مسلم:۲۶۰۴)
جناب جبریل علیہ السلام رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے محمدﷺ! معاویہ سے خیر خواہی کرو کیونکہ وہ اللہ کی کتاب پر امین ہیں اور وہ کیا ہی اچھے امین ہیں۔
(الطبراني,المعجم الأوسط ۴/۱۷۵حدیث۳۹۰۲)
(جامع الأحاديث،۱/۲۰۰حدیث۳۲۱)
امیر معاویہ کے خصوصی فضائل
امیر معاویہ نبی کریمﷺ کے کاتب وحی بھی اور کاتب خطوط بھی تھے یعنی جو نامہ وپیغام سلاطین وغیرہ سے حضورﷺ فرماتے تھے وہ امیر معاویہ سے لکھواتے تھے۔چناچہ مسلم شریف وغیرہ میں ہے کہ امیر معاویہ حضور کے سامنے لکھا کرتے تھے۔
امیر معاویہ کے فضائل میں بہت سی احادیث شریفہ ہے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند شریف میں عرباض ابن ساریہ رضی اللّٰه عنه سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ خدایا معاویہ کو کتاب یعنی قرآن اور حساب کا عطا فرما اور انہیں عذاب سے بچا۔
حافظ حدیث ابن اسامہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے ایک بہت لمبی حدیث روایت ہے جس میں خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کے فضائل میں ہیں اس میں یہ بھی ہے.!!
ترجمہ: معاویہ میری امت کے بڑے علم حلم اور سخاوت والے ہیں۔
(تطہیر الجنان)
حضرت علی رضی اللّٰه عنه کا حضرت معاویہ کی تعریف کرنا
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت سے مواقع پر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی تعریف فرمائی چنانچہ طبرانی نے بسند صحیح روایت فرمائی کہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جنگ صفین کے زمانے میں حضرت معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا
ہمارے اور معاویہ کے مقتولین سب جنتی ہیں۔
نیز حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا۔
یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں ہیں ہم پر بغاوت کر بیٹھے۔
امیر معاویہ کا حضرت علی رضی اللّٰه عنه سے محبت کا انداز
علی المرتضی اور امیر معاویہ میں عین جنگ کے زمانے میں حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ یعنی حضرت علی کے بھائی امیر معاویہ کے ہاں پہنچ گئے۔ امیر معاویہ نے ان کا بہت ادب و احترام کیا ایک لاکھ روپے نذرانہ پیش کیا اور ایک لاکھ روپے سالانہ ان کا وظیفہ مقرر کیا اس دوران حضرت عقیل فرماتے تھے کہ دین علی کی طرف ہے
(صواعق محرقہ)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے سامنے ایک شعر میں امیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تعریف میں قصیدہ پڑھا جس میں حضرت علی کی بے حد تعریف فرمائی۔ حضرت معاویہ رضیَ اللہُ عنہ ہر شعر پر جھوم جھوم کر فرماتے تھے کہ واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ واقعی ایسے ہی ہیں اور قصیدے کے ختم پر شاعر کو حضرت معاویہ نے سات ہزار اشرفیاں انعام دیا۔ کسی نے پوچھا کہ اے امیر جب آپ حضرت علی کے ایسے معتقد ہیں تو پھر ان سے جنگ کیوں کررہے ہیں جواب دیا یا الملک عقیم یعنی یہ مذہبی جنگ نہیں۔ ملکی معاملات کی جنگ ہے یعنی حضرت عثمان کے خون کی
(کتاب الناہیہ)
امام حسن و حسین رضی اللّٰه عنھما کے نزدیک امیر معاویہ کا مقام
امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے ۷ ماہ خلافت فرما کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت سے دستبرداری فرمائی اور ان کا سالانہ وظیفہ اور نذرانے قبول فرمائے۔ اگر حضرت معاویہ میں معمولی فسق بھی ہوتا تو امام حسن سر دے دیتے مگر ان کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیتے۔ رسول اللہﷺ نے بھی امام حسن کے اس فعل شریف کی تعریف فرمائی تھی کہ میرا یہ بیٹا سید ہے۔ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔
امام حسین اس صلح کے وقت عاقل بالغ سمجھدار تھے مگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اس صلح پر اعتراض نہ فرمایا بلکہ اس میں خود بھی داخل ہوگئے۔ حضرت امیر معاویہ امام حسین کی نگاہ میں کچھ عیب رکھتے ہوتے تو یزید مردود کی طرح آپ اس وقت امیر معاویہ کے مقابلے میں آجاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نگاہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ وہ میں یزید فاسق فاجر ظالم وغیرہ تھا۔ امیرمعاویہ عادل، ثقہ، متقی لائق ہات امارت تھے۔ اب کسی کو کیا حق ہے کہ ان پر زبان طعن دراز کرے۔
اقوال صحابہ اکرام
ایک موقع پر رسول اللہﷺ حضرت معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے متعلق فرمایا تھا کہ معاویہ کبھی مغلوب نہیں ہوگا، حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو جب یہ روایت پہنچی تو پھر آپ یہ روایت فرمایا کرتے تھے اگر مجھے یہ حدیث یاد ہوتی تو میں کبھی معاویہ سے جنگ نا لڑتا۔
(الخصائص الکبری،ج۲،ص۱۹۹)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد فرمایا تھا: میری طرف سے قتل ہونے والے اور معاویہ کی طرف سے قتل ہونے والے سب جنتی ہیں۔
(طبرانی کبیر،ج۸،ص۲۸۶)
(مجمع الزوائد،ج۹،ص۵۹۶،حدیث۱۸۹۲۷)
(مقدمہ ابن خلدون،ص۳۸۵)
(مصنف ابنِ ابی شیبہ،ج۸،ص۷۲۹،کتاب الجمل باب ما ذکر فی صفین)
حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے سامنے سیدنا حضرت معاویہ کی برائی بیان کی، آپ نے فرمایا ہمارے سامنے اس قریشی جوان کا گلہ نہ کرو جو غصے میں ہنستا ہے رضا مندی کے ساتھ جو چاہو اس سے لے لو مگر اس سے چھیننا چاہو تو کبھی نہ چھین سکوں گے۔
(الاستیعاب،ص۶۷۷)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ اور انکے ساتھیوں کے متعلق فرمایا: یہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ اختلاف کیا ہے۔
(سنن کبریٰ، بیہقی،ج۸ص،۱۷۲،اشعتہ اللمعات،ج۴،ص۲۹۶)
محدث اسحاق بن راہویہ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سنا ایک آدمی جنگ جمل اور جنگ صفین میں شامل لوگوں کے خلاف سخت الفاظ بول رہا تھا تو آپ نے فرمایا
ان کے متعلق بھلائی کے کلمات کے علاؤہ کچھ نا کہو، وہ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے سمجھا کہ ہم ان کے ساتھ بغاوت کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے بغاوت کر رہے ہیں پس ہماری آپس میں لڑائی ہوگئی۔
(منہاج السنہ،ج۳،ص۶۱،از ابن تیمیہ)
سیدنا امیر معاویہ اور اقوال علماء
علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ مشہور محدث حضرت عبداللہ بن مبارک سے سوال ہوا کہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان اور حضرت عمر بن عبد العزیز میں سے افضل کون ہے.؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا، وہ بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کئی گنا بہتر ہے۔
(مرقات المفاتیح، شرح مقدمۃ المشکاۃ،۸۳/۱)
امام اعمش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اگر تم معاویہ کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ واقعی ہدایت یافتہ ہے۔
(المعجم الکبیر،باب المیم،من اسمہ معاویہ۶۹۱ ، ۳۰۸/۱۹)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اہلسنت یہ عقیدہ ہے تمام صحابہ کرام کو پاک صاف سمجھنا، انکی ایسی تعریف و توصیف کرنی چاہیئے جیسے اللہ اور اسکے رسول اللہﷺ نے بیان کی ہے، جو کچھ حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی المرتضیٰ کے درمیان ہوا، وہ سب اجتہادی خطاء پر مبنی تھا۔
(احیاء العلوم الدین،کتاب قواعد العقائد،فصل۳)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ
(فتاوی رضویہ، جلد۱۰، صفحہ ۲۰۱ قدیم ایڈیشن)
(فتاویٰ رضویہ، جلد۱۰، صفحہ۱۹۹، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان وعظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین۔
ایک اصول یادرکھیں
امام نووی فرماتے ہیں
خوب جان لو کہ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی ذوات میں برائی کا پہلو نکالنا نہایت قبیح حرام یعنی بہت بڑی بے حیائی کا کام ہے۔ ہمارا اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ جو ان صحابہ کرام کو برا قرار دے اس کو کوڑے مارے جائیں اور بعض مالکی علماء وفقہاء کا قول ہے کہ ایسے شخص کوقتل کر دیا جائے
(نوی برمسلم ج ۳۱۰۲ استریم سب اصحاب )
اور مزید فرماتے ہیں
علماء کا کہنا ہے کہ وہ احادیث جن میں بظاہر کسی صحابی کی شان کے خلاف کوئی بات نظر آتی ہو تو اس کی تاویل کرنا کوئی اچھا اور ان کی شایان شان پہلو نکالنا واجب ہے اور اہل علم نے کہا ہے کہ صحیح احادیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی تاویل نہ ہو سکے۔
(نووی پر مسلم ج ۲ص۳۷۸ باب فضائل علی بن ابی طالب )
پھر فرماتے ہیں
اگر چہ صرف نبی اکرم وغیرھم انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے قائل ہیں لیکن حضرات صحابہ کرام کے ساتھ حسن ظن (اچھا خیال) رکھنے اور ان تمام اوصاف رزیلہ (گھٹیا باتوں) کی نفی کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا اور جب اس حدیث کی تاویل کے سارے راستے بند ہو جائیں گے تو ہم اس کے راویوں کی طرف کذب کی نسبت کر دیں گے۔ یعنی راویوں کی طرف غلطی کی نسبت کرنا اس سے بہتر ہے کہ صحابہ کرام پرطعن و تنقید کی جائے، ان کی فضیلت وعظمت پرتو آیات قرآنی اور احادیث نبوی ناطق ہیں۔
(نووی پرمسلم ج۱۰۲ کتاب الجہاد والسیر باب حکم النہی)
قرآن مبارکہ، احادیث شریف اور علماء کے اقوال کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے اللہ و رسول نے تمام صحابہ کرام کو بڑی عزت اور بزرگی عطا فرمائی انہیں ساری امت سے برتر ٹھہرایا۔ ملت اسلامیہ کی عظمت اور اسلام کی شوکت انہیں کے ذریعے بلند و بالا ہوئی۔ صحابہ ہی وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کی صحبت اختیار کی اور فیوض و برکات حاصل کئے۔ حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ جو کاتب وحی ہیں ان کے بغض و عناد میں مبتلا کوئی شخص دیگر صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کی محبت کا دعویٰ کرے، تو اس دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کسی ایک صحابی سے دشمنی تمام صحابہ کرام سے دشمنی ہے، کسی ایک صحابہ کا انکار سارے صحابہ کا انکار ہے۔
(مصنف مفتی اسلم رضا تحسینی، کتاب مختصر سیرت امیر معاویہ، صفحہ۳۷۶)
اللہ پاک ہمیں رسول اللہﷺ، اہلبیت، صحابہ اکرام اور بزرگان دین کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(واللّٰه اعلم باالصواب)
نوٹ:اس تحریر کے لکھنے میں مجھ سےاگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو میری اصلاح فرمائیں اور معاف فرما دیجئیے گا
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی