ناموسِ رسالتﷺ اور ہماری ذمہ داری
Article by Bint E Hassan
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرےﷺ نام پہ مردانِ عرب
خاتم النبیّینﷺ کی محبت اور تکریم ہر مسلمان کے لیے سرمایہ حیات ہے اور اس کے بغیر کوئی مسلمان ایمان کا تصور ہی نہیں کرسکتا اور یہی چیز اہلِ اسلام کو دنیا کی دیگر مذہبی روایات سے ممتاز کرتی ہے -اہلِ اسلام کا یہ تہذیبی سرمایہ ہمیں اندھیروں میں روشنی دکھاتا ہے اور مایوسیوں سے نجات دلاتا ہے، جب تک مسلمان کا دل اس جذبہ سے سر شار اور آباد رہتا ہے وہ کبھی اغیار سے مغلوب نہیں ہوتا۔
عالمِ کفر نے اسی بات کو مسلمانوں کی کمزوری بنانا چاہا ہے اور پچھلے 200 سال میں ایسے ایسے فتنے اور فرقے عالمِ اسلام میں پھیلا دیئے جن کی کاوشوں کا مقصد اولین یہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے قلوب و اذہان سے عشق و ادبِ رسولﷺ کے والہانہ جذبوں کو کم کیاجائے- حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ان کی اس بدنیتی کو یوں بے نقاب کیا
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد(ﷺ) اس کے بدن سے نکال دو
اسی روح کو نکالنے کے لیے عالم کفر اس حد تک گر چکا ہے مسلمانوں کو ذہنی و قلوب کی حرارت کو کم کرنے کے لیے آقا و مولا رسولﷺ کی ناموس مبارک پر حملے کرنے لگے۔
جب جب ایسا ہوا کسی شاتم نے سر اٹھایا وہیں سے کوئی عاشق رسولﷺ اٹھا اور اس گستاخ کو جہنم واصل کر کے سکون لیا۔
لوگ آج ہمیں کہتے ہیں کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے، نعوذ باللہ کچھ بااثر لوگوں نے ناموسِ رسالتﷺ کے قانون کو ختم کرنے کے لیے ہر حد تک کوشش کی لیکن عاشقانِ مصطفیﷺ نے ان تمام گستاخوں کے سر قلم کر کے بتا دیا کہ
من سب نبیا فاقتلوہ قیامت تک جو کوئی رسولﷺ کی ذاتِ اقدس پر حرف بھی کہے گا اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا جائے گا۔
میں یہاں پر ایک حدیث کا حوالہ دینا چاہوں گی
عن أنس وأبي هريرة رضي الله عنهما مرفوعاً: لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين۔ (صحيح حديث أنس رضي الله عنه : متفق عليه. حديث أبي هريرة رضي الله عنه: رواه البخاري)
ترجمہ
حضرت انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“
اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب تک محبت کی انتہا نہ کر دی جائے تب تک بندہ مکمل مسلمان ہی نہیں ہو سکتا. آج کل مسلمانوں کو امن کا اتنا درس دیا جا رہا کہ دنیا کچھ بھی کرتی چلی جائے مسلمان سوئے رہیں۔
فرانس نے سلطان عبدالحمید ثانی علیہ الرحمہ کے دور میں گستاخانہ ڈرامہ بنایا تو سلطان عبدالحمید نے دلیرانہ للکار سے فرانس کو روکا اور کہا کہ اگر فرانس باز نہ آیا تو عالم اسلام میں جہاد کا اعلان کر دوں گا. صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بھی گستاخوں کے سر قلم کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود گستاخ کو قتل کرنےکا حکم دیا تھا۔
مسلمان گستاخوں کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے جذبات کا مسئلہ ہے، یہ ہماری محبت کا مسئلہ ہے اور یہ ہماری غیرت کا مسئلہ ہے.
مسلمان گناہگار تو ہو سکتا ہے لیکن ناموسِ رسالتﷺ کے معاملے پر غدار نہیں ہوسکتا. اگر ہم گستاخوں کے خلاف خاموش رہیں تو ہمارا ایمان کہاں ہو گا؟ اگر ہم گستاخوں کو جواب نہیں دیتے تو ہم قبر میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے؟
ہم کیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی طلب کریں گے؟ ہم کیسے باوفا امتی کہلائیں گے؟
ہم حوض کوثر پر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے جام پینے کیسے جائیں گے؟
کس منہ سے قبر میں پہچانیں گے؟
آج مسلمانوں نے ناموس رسالتﷺ کو انا اور ذاتیات کا مسئلہ بنا لیا ہوا ہے۔ اصل میں قصور عام مسلمانوں کا نہیں ان کا جنہوں نے برسوں امن والے سبق پر کام کیا ہے امت کے ذہن اور قلب میں یہ بات انڈیلی گئی ہے کہ بس اب اسلام امن کا درس دیتا ہے؛ ایسے درباری علمائے سوء کیسے رسول اللّٰہﷺ کے سامنے پیش ہوں گے؟ ایسے لوگ کیسے انبیاء کے وراث بن سکتے ہیں آہ، ایسے علماء جو حق بیان نہیں کرتے وہ کتنے لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر قبر میں اتریں گے؟
بحیثیت امت ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر محاذ پر ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کریں چاہے ہماری جان چلی یا ہمارے مال ختم ہو جائیں اور یا ہماری اولادیں قربان ہو جائیں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
جب فرانس نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی جس پر مسلمان بہت دکھی ہوئے لیکن افسوس ہم ان کو ویسا جواب نہ دے سکے۔ ہماری طرف سے انھیں ویسا ردِ عمل نہیں گیا، ساری امہ مسلمہ گونگی بن گئی تمام عرب ممالک سمیت ہمارے پاکستان میں بھی ہر طرف امن امن کا راگ چلنے لگا ؛ ان سب امن امن کے پجاریوں میں ایک مردِ قلندر کی آواز بلند ہوئی ؛ کہ نہیں نہیں جب بات رسول اللہ ﷺ کی ناموس مبارک پر آ جائے تو پھر اسلام امن کا درس نہیں دیتا پھر غیرتِ ایمانی کا حساب مانگتا ہے اور تاریخ کہتی ہے اس گستاخ کا سر کاٹ دو؛ ہمیں اس قدر سخت جواب دینا چاہیے تھا کہ ساری دنیا جان لیتی مسلمان اپنی جان تو قربان کر سکتا ہے، اپنا مال تو لٹا سکتا ہے لیکن گستاخی رسولﷺ کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔
لیکن افسوس ہمیں اپنی معیشت کا زیادہ احساس تھا، ہمارا اس وقت کا حکمران معیشت کا رونا روتا رہا لیکن ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہرہ نہ دے سکا۔ ہمارے ایمان کمزور ہو چکے ہیں ہم یہ کہتے رہے کہ اگر فرانس کو سخت جواب دیا تو سارے یورپی ممالک ہمارے ساتھ تجارت نہیں کریں گے ہماری معیشت تباہ ہو جائے گی. یورپ ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکالے گا. اسی خوف سے ہم ان کو جواب نہیں دے سکے. مسلمان کا ایمان تو بہت ہی مضبوط ہوتا ہے؛ افسوس اگر تب ہم نے فرانس کو اس کی اوقات دکھائی ہوتی تو آج انڈین گستاخ معلونہ کی جرأت نہ ہوتی بلکہ کوئی بھی گستاخی کرنے سے پہلے سوچتا۔افسوس صد افسوس ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے، منافقت ہی منافقت ہر طرف؛ تمام اسلامی ممالک کے سربراہ خاموش رہے، کسی نےفرانس کو دھمکی لگانا دور اسے کچھ کہا ہی نہیں، فرانس کو تمام اسلامی ممالک نے مل کر سرکاری سطح پر جواب دیا ہوتا تو اس کے ہوش ٹھکانے آ گئے ہوتے؛ افسوس سب سوتے رہے اور گستاخوں کو ڈھیل ملتی رہی۔
معیشت کا رونا رونے والوں بتاؤ اب رزق کون دے رہا ہے؟ معیشت کا حال کیسا ہے؟ اتنا کمزور ایمان ہو چکا ہے کہ جس رزق کا وعدہ خود اللہ پاک نے کیا ہے آج کا مسلمان اس کے لیے ایمان کا سودا کر رہا ہے۔
کیا دنیا کے سارے خزانے ہمارے رب کے نہیں ہیں؟
کیا ساری کائنات کا مالک ہمارا رب نہیں ہے؟
کیا یورپ کو رزق ہمارا رب نہیں دیتا؟
کیا ہمیں رزق ہمارا رب نہیں دیتا؟
سب کا جواب یہی ہو گا کہ یقیناً ساری کائنات کا مالک ہمارا رب ہے ہمیں رزق اللہ ہی دیتا ہے تو پھر ڈر کس بات کا جب رزق اللہ دیتا ہے۔ تو ناموس رسالتﷺ کے دفاع میں اگر معیشت بیٹھ بھی جائے تو پرواہ نہیں. سارے مر بھی جائیں تو پروا نہیں۔ یہ زندگی یہ پاکستان سب کچھ رسول پاکﷺ کی نعلین مبارک کے ساتھ لگی خاک کے صدقے ملا ہے۔
ناموسِ رسالت کا مسئلہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایمانی مسئلہ ہے اگر اس پر بھی آپ کا خون جوش نہیں مارتا تو پھر اپنا محاسبہ کریں کہیں ایمان کی چنگاری بجھ تو نہیں گئی اپنے ایمان کو حرارت دیں۔
سیدنا امام مالکؒ نے ارشادفرمایا:
’’حضور نبی کریمﷺ کوبسب وبشتم (گستاخی) کے بعد امتِ مسلمہ کی بقاء و زندہ رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟‘‘
اللہ عزوجل ہم سب کو اپنے فضل و کرم کے صدقے عزت و حرمتِ رسالت مآب ﷺ سمجھنے اور آپ ﷺ کے قدموں میں سب کچھ قربان کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
تحریر: بنت حسن