نظامِ انصاف اور ہم
Article by Bint E Hassan
ہزاروں موضوعات ذہن کے دریچوں میں جنگ چھیڑے رکھتے ہیں، لاکھوں لفظ قلم کی نوک پر جھکے صحفہ قرطاس پر بکھرنے کے لیے مچلتے رہتے ہیں لیکن اتنی وجوہات میں ایک وجہ کسی پلیٹ فارم کا موجود نہ ہونا ہے، لوگ کی عدم دلچپسی ہے۔ آج جس موضوع پر ناچیز کا لکھنے کو دل کر رہا ہے وہ ارد گرد کے واقعات پر نظر دوڑانے کے بعد ذہن میں آیا۔ قانون کسی بھی قوم کو مستحکم کرنے اور عوام کے درمیان ایک ایسی کڑی ہے جس کی وجہ سے ظالم کو اس کے ظلم کے بدلے میں سزا اور مظلوم کو انصاف فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی تباہی کی ایک اہم کڑی انصاف کی فی الفور نہ فراہمی ہونا ہے، امیر غریب کے الگ الگ قانون کا ہونا ہے، مجرم کو بروقت سزائیں نہ دینا ہے۔ ثابت شدہ مجرم کو راہ فرار دینا ہے۔ ان گنت واقعات ذہن میں اودھم مچا چکے ہیں لیکن ایک واقعہ قلمبند کرتی ہوں۔
چینی فلسفی ’’کنفیوشس‘‘ سے کسی نے پوچھا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہوں اور کسی مجبوری کی وجہ سے کسی چیز کو ترک کرنا پڑے تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟
کنفیوشس نے جواب دیا: دفاع کو ترک کردو۔
سوال کرنے والے نے پھر پوچھا: اگر باقی ماندہ چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟
کنفیوشس نے جواب دیا: معیشت کو چھوڑ دو۔
اس پر سوال کرنے والے نے بڑے تعجب سے کہا: معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوک سے مر جائے گی اور دشمن حملہ کردینگے؟
تب کنفیوشس نے بڑے تحمل سے جواب دیا: ’’نہیں! ایسا نہیں ہوگابلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے
بھئی ایسی مثال اس لیے دی کہ آپ کو آج کی باتیں سمجھ آتی ہیں اور بات گھما کر چینی وہی لے آیا جو بات اسلام کرتا ہے۔
اسلام میں عدل وانصاف، انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام پہلووں پر مشتمل ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں جیسے کہ
معاشرتی انصاف: اس سے مراد معاشرے کے ہر شعبے، ہر طبقے اور ہر فرد کو عدل و انصاف فراہم کرنا ہے۔ رنگ ونسل، علاقائیت، لسانی تعصب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔
قانونی انصاف: اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مظلوم کسی حاکم، قاضی یا جج کے سامنے کوئی فریاد لے کر جائے تو بغیر سفارش کے اور بغیر رشوت کے اسے انصاف مل سکے۔ کسی شخص کی غربت یا معاشرے میں اس کی کمزور حیثیت حصول انصاف کے لیے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ یہ ہوکہ کوئی شخص اپنے منصب یا دولت کی وجہ سے انصاف پر اثر انداز ہوسکے۔
قانون کی نظر میں سب کے حقوق میں برابری ہونی چاہیے۔جب کسی قوم میں یہ بات آجائے کہ عام آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو اور کوئی بڑا آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو۔ پھر اس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سیاسی انصاف: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ امورِ مملکت میں توازن و اعتدال قائم کیا جائے۔ معاشرے کے مختلف عناصر، طبقات، قبائل اور گروہوں کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، انہیں فرائض کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا۔
معاشی انصاف: اس کا مطلب یہ ہے کہ مال خرچ کرنے میں افراط و تفریط یا اسراف و بخل سے کام نہ لیا جائے بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے۔
مذہبی انصاف: اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ کے احکامات پر امرونہی کے مطابق پورا عمل کیا جائے۔ اسی طرح عدل و انصاف کے بہت سے مظاہر ہیں جن میں ایک حقیقی مسلمان نمایاں ہوتا ہے۔
نظامِ انصاف پہ لکھتے ہوئے میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ جو ظلم و جبر میرے ملک کے غریب پر کوئی معمولی سا جرم بھی کرنے پر ڈھایا جاتا ہے وہ امیروں پر غیر معمولی جرم کرکے بھی کیوں نہیں ڈھایا جاتا۔ اس بات پر میرے ملک کی عوام کو بھی بھرپور آواز اٹھانی چاہیے
خواب سے جاگو ذرا آنکھ تو کھولو لوگو
زبانوں پہ ہیں جو تالے انھیں توڑو لوگو
منصفی چاہو تو کانپ اٹھے عدالت ساری
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹا دو لوگو
میرے ذہن کے دریچوں پر لاتعداد واقعات ابھر چکے ہیں لیکن وہ موضوع بدل جائے گا، بہت جلد اگلے آرٹیکل میں لکھتے ہیں دوہرا انصاف معیار کیوں؟
تحریر: بنت حسن