پاکستان بچاؤ مارچ

Article by Abroo Rajpoot
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہمہ وقت ایک تماشے کی سی صورتحال اختیار کیے رہتا ہے، کوئی قانون پاس کروانا ہو تو اسمبلی مچھلی منڈی کی شکل اختیار کر لیتی ہے، الیکٹرانک میڈیا پہ مخالف سیاسی جماعتوں پہ گالم گلوچ کا سلسلہ طوالت پکڑ چکا ہے، 2022 میں رجیم چینج کے بعد مہنگائی کی ایک نئی لہر نے عوام پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، میں ماہر معاشیات تو نہیں مگر 2018 میں ملک کے ساتھ ایک اور تجربہ کیا گیا اور اس سے پہلے ماہر تجربہ کاروں کی تجربہ کاریوں نے بھی ملک کو اندرونی طور پہ کھوکھلا کر دیا تھا، پھر رجیم چینج میں نااہل ہٹا کر بدطنیت اور نااہل مسلط کر دیے گئے تو مہنگائی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی جس نے مڈل کلاس طبقے کی کمر توڑ کے رکھ دی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی اضافہ ہوا، اشیائے خوردونوش پہنچ سے دور ہوتی گئیں، خودکشی و بے روزگاری کی شرح بڑھنے لگی، مڈل کلاس اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے تھکنے لگا مگر کسی کو عوام کا خیال تک نہیں آیا۔
پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ 15 فروری سے عوام پاکستان پر پٹرولیم کی قیمتوں میں نئے اضافے کا بوجھ ڈالا گیا، اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے قوم کے زخموں پہ مرہم رکھنے کے لیے ایک لیڈر اٹھا، جسے دنیا امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی کے نام سے جانتی ہے۔ سعد حسین رضوی نے پہلے حکومت کو 72 گھنٹوں کا الٹیمیٹم دیا کہ 14 فروری کی پٹرول کی قیمت کو دوبارہ بحال کیا جائے مگر حکومت پاکستان کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ پھر حافظ سعد حسین رضوی نے 27 فروری کو شٹر ڈاؤن ہڑتال کرنے کا اعلان کیا، جو کہ ایک کامیاب ہڑتال تھی، عوام پاکستان اور بالخصوص تاجروں نے حافظ سعد حسین رضوی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، پھر اگلا لائحہ عمل پریس کلب کے سامنے احتجاج کا تھا وہ بھی ایک کامیاب احتجاج تھا، پھر رمضان المبارک کی آمد آمد ہوئی تو تمام کام چھوڑ کر امیر تحریک لبیک پاکستان نے رمضان المبارک کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے مسجد رحمة للعالمين میں گزارا اور کارکنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ عید کے بعد حافظ سعد حسین رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے 11 مئی کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور حالیہ گستاخیوں کے خلاف لانگ مارچ بنام “پاکستان بچاؤ مارچ” کا اعلان کیا
تو ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا کہ لبیک والے 14 مئی کا الیکشن رکوانے آرہے ہیں، لبیک اسٹیبلشمنٹ کی بی پارٹی ہے، بلا بلا، جتنے منہ اتنی باتیں!
پھر مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرتے ہوئے تھوڑی سی ترمیم کی اور 22 مئی سے لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا جو کہ کراچی تا لاہور اور لاہور تا اسلام آباد تھا۔
منافق ٹولہ پھر متحرک ہوا کہ سعد رضوی نے یوٹرن لے لیا، سعد رضوی نے یہ کردیا، سعد رضوی نے وہ کر دیا۔ خیر منافقوں کا کام ہی منافقت ہے اور منافق تو کسی حال میں خوش نہیں ہوتا ہم ان منافقوں اور حاسدوں کو انکی اپنی حسد کی آگ میں جلتا چھوڑ کر آگے چلتے ہیں۔
22 مئی کو کراچی مزار قائد سے اس لانگ مارچ کا آغاز ہوا جو کہ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین لانگ مارچ تھا، یہ مارچ کراچی، حیدرآباد، میر پور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ، اندرون سندھ، سکھر سے ہوتا ہوا پنجاب کی حدود میں داخل ہوا اور پھر بہاولپور، ملتان اور ساہیوال کے علاقے سے ہوتا ہوا قبلہ بابا جی امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کے مزار مبارک تک جا پہنچا، اہل سندھ اور اہل پنجاب نے محبتوں کی انتہا کر دی، مارچ کا کم و بیش 100 جگہوں پر پرتپاک استقبال ہوا، سعد حسین رضوی اور شرکائے لانگ مارچ پر پھولوں کی بارش ہوتی رہی، سعد حسین رضوی کو مختلف جگہوں پر اونٹ، گھوڑا، بگھی، کرین، ٹریکٹر، بائیک، سائیکل، فارچونر غرض مختلف قسم کی سواریاں سوار ہونے کے لیے پیش کی جاتیں رہیں، سعد حسین رضوی نے ہر سواری کو قبول فرمایا اور سوار ہو گئے اور کمال یہ کہ ہر سواری کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھی جو کہ ایک حیران کن بات تھی۔ کبھی سعد حسین رضوی کارکنان کی دلجوئی کے لیے اور جوش جذبات میں کارکنان کے درمیان تشریف لے آتے، کبھی پیدل سفر جاری رکھتے اور کبھی دوڑتے ہوئے جانب منزل گامزن رہے۔ سعد حسین رضوی اور دیگر قائدین کے خطابات ساتھ ساتھ جاری رہے اور لبیک یارسول اللہ ﷺ کے نعرے شرکائے مارچ کا لہو گرماتے رہے۔ لاہور پہنچ کر ایک دن آرام کے بعد جمعہ کی نماز پڑھ کر قافلہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوا اور کوٹ عبدالمالک، مریدکے سے ہوتا ہوا گجرانوالہ اور وزیر آباد کی فضاؤں میں پہنچا تو حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ہونا شروع ہو گئی مگر قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں رہا، پھر آخرکار گجرات کی حدود سے نکلتے ہوئے کھاریاں کے قریب سعد حسین رضوی نے حکومت کی مذکرات کی پیشکش کو قبول کیا اور علامہ ڈاکٹر شفیق امینی صاحب کی سربراہی میں پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ مذاکراتی ٹیم کی حکومت کے ساتھ طویل نشستیں منعقد ہوئیں
اور آخرکار 12 نکاتی معاہدے پر تحریک لبیک پاکستان کی قیادت اور حکومت کا اتفاق ہوگیا جن میں گستاخوں کا سپیڈی اور غیر جانبدارانہ ٹرائل، کاؤنٹر بلاسفیمی ونگ کا قیام، عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی حکومت کو خط اور اقدامات، گستاخوں پر ATA7 کا اطلاق، اردو زبان کی ترویج و اشاعت، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج کمی، تحریک لبیک کے خلاف تمام نوٹیفکیشنز کو پیمرا اور پی ٹی اے سے ڈی نوٹیفائی کروانا اور دیگر مطالبات شامل ہیں۔
بلاشبہ یہ معاہدہ تحریک لبیک پاکستان کی ایک عظیم الشان فتح ہے اور اللہ و اسکے رسول ﷺ کی مدد کے ذریعے ممکن ہوا کیونکہ جن مالکوں کا ہم کام کرتے ہیں وہ مالک ہمیں تنہا نہیں چھوڑتے۔ اس لانگ مارچ کی کامیابی کے پیچھے بابا جی قبلہ امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کا اخلاص اور خصوصی نظر کرم بھی شامل حال رہی، آج بھی ہمارے سڑکوں پہ نکلنے کا سن کرہی اگر حکومت کی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں تو اسکی وجہ فقط امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کی فیض آباد میں دکھائی گئی بے مثال استقامت ہے۔ امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی اور دیگر شوریٰ اراکین خصوصی داد و تحسین کے مستحق ہیں جن کی بے مثال قیادت میں تحریک لبیک پاکستان کو ایک اور دفعہ کامیابی دیکھنا نصیب ہوئی، پھر یہ کامیابی کا سہرا تمام کارکنان کے نام جو مسلسل 27 دن سفر میں رہے اور اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔
معاہدے کے ساتھ ہی کچھ حاسدین اینکرز اور خود کو غیر جانبدار کہنے والا ٹولہ متحرک ہوا اور اپنی اندرونی جلن کا الفاظ کی صورت میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اظہار کرتے نظر آئے، یہ وہ لوگ ہیں جن کو مولویوں سے خاص قسم کا بیر ہے، خیر جس کا جو کام ہے وہ کام تو وہ کرے گا۔
مزید برآں میں خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گی ان تمام اینکرز، سوشل میڈیا انفلوئینسرز اور یوٹیوبرز کو اور بالخصوص مسعود چوہدری صاحب کو
(مسعود چوہدری صاحب کراچی سے سرائے عالمگیر تک پاکستان بچاؤ مارچ کے ساتھ رہے)
جنہوں نے بدترین میڈیا بلیک آؤٹ میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور ہمہ وقت عوام پاکستان کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرتے رہے،
اور آخر میں بطور عام پاکستانی اور بطور تحریک لبیک پاکستان کی ادنیٰ کارکن حکومت وقت کو یہ تنبیہ کرنا چاہوں گی کہ معاہدے پر فی الفور عمل کیا جائے اور کسی لیت و لعل سے کام نہ لیا جائے کہ یہی حکومت کے لڑکھڑاتے اقتدار کے لیے بہتر ہوگا۔
اللہ وطن پاکستان پہ رحم فرمائے، عوام پاکستان کو اسلام جیسی نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہاں اسلام کا بول بالا ہو۔ آمین
تحریر: آبرو راجپوت



