ھُو القَادِر – سانسُوں کی نماز

Article by Umar Shahzad Niazi
سینے وِچ مَقام ہے کَیندا سَانوں مُرشد گَل سَمجھائی ھو
اِیہو سَاہ جو آوے جاوے ہور نہیں شئے کائی ھو
اِس نوں اِسمُ الاعظَم آکھن ایہو سرِّ اِلٰہی ھو
اِیہو موت حَیاتی باھوؒ ایہو بھَیت الٰہی ھو
دائمی نماز انفس (سانسُوں کی نماز) کیا ہے؟
ذکر و فکر اور تفکر و تصور اسمِ اللّٰہ ذات کو دائمی نمازِ انفس یعنی “سانسوں کی نماز فرمایا گیا ہے۔تصوف میں اصول معرفت کے مطابق ذکر و فکر اور تصور و تفکر اسمِ ﷲ ذات سے تَر دمِ انسانی “بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا “ اللّٰہ کی رسی ہے ۔
حضرت بابا بلھے شاہؒ فرماتے ہیں
چوبیس ہزار نماز فقر دی
تو پنج کیہڑیاں پڑھدا ایں
سید بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانا یہ ہے کہ ایک دن میں نعمتِ عظمیٰ فقر کی نمازیں تو ۲۴ ہزار ہیں تو (بغیر پہچان ”هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ” و خشوع خضوع کے) صرف پانچ کونسی پڑھتا ہے۔ یعنی اک دن میں تقریباً انسان کم و بیش 24000 مرتبہ سانس لیتا ہے اور ان سانسوں کی روانی میں پنچگانہ فرض نماز ادا کرتے ہوئے اپنے دم کی اپنے سانس کی نگہبانی کرنا اور انہی سانسوں کے ذریعے صاحبِ فقر ہستی کی اجازت کے ساتھ تصور و تفکر اور ذکرِ اسم اللّٰہ ذات قائم کرنا اور اس پر صبح شام استقامت اختیار کرنا “نماز انفس” یعنی سانسوں کی نماز ہے۔ شریعت مطہرہ و ارکانِ اسلام پر پابندی کے ساتھ اس معراجی عملِ دائم کو ”اُدخُلُوْفِی السِلْمِ کَآفَۃًٓ ” فرما کر اسکی اہمیت و باریکی پر انتہائی زور دیا گیا ہے کہ اگر بندہ اس سے غافل ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنا تقویٰ اور نعمت ایمان کا وہ اعلی معیار کھو بیٹھے ۔
آدم میں جب تک دَم نہ تھا
خاک تھا آدم نہ تھا
پھر خاک میں آ کے دَم ہوا
خاک سے آدم ہوا
بھید سارا دَم کا ہے
یہ دَم اسی ہم دم کا ہے
ﷲ رحمٰن سورہ الاعراف آیت 205 میں فرماتا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِىْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغَافِلِيْنَ
اور اپنے رب کے ( اسمِ ذات اللّٰہُ ) نام کا ذکر کرو، اپنے دل میں عاجزی و انکساری کرتے ہوئے( سانسوں کے ذریعے) خفیہ طریقے سے ڈرتے ہوئے، صبح و شام ( بغیر آواز نکالے) ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو.
یہ ہے نمازِ دائم، نمازِ انفس (سانسوں کی نماز) جسکو دراصل “الصلوة معراج المؤمن” نماز مومن کی معراج ہے کہا گیا ہے…
جیسے سلطان العارفین علیہ الرحمہ کتاب “عین الفقر” میں فرماتے ہیں کہ حضور رسالت مآبﷺ نے فرمایا :
اَلْاَنْفَاسُ مَعْدُوْدَۃٌ وَکُلُّ نَفْسٍ یَخْرُجُ بِغَیْرِذِکْرِاللّٰہِ تَعَالٰی فَھُوَ مَیِّتٌ
:”سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس اللّٰہ کے ذکر کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔”
سلطان العارفین سُلطان باھُوؓ اسی ”دمِ انسانی“ کے متعلق آگاہ فرماتے ہیں :
نگہدار دم را کہ عالم دمیست
دمی پیش دانا بہ از عالمیست
’’دم کی نگہبانی کر کہ دم ایک پورا جہان ہے، داناؤں کے نزدیک (تصورِ اسم اللّٰہ میں گزرا ہوا) ایک دم جہان بھر سے افضل ہے‘‘-
مکن عمر ضائع بافسوس و حیف
کہ فرصت عزیزست و الوقت سیف
: ’’حیف وافسوس میں اپنی عمر برباد نہ کر، فرصت ِدم کو عزیز رکھ کہ وقت کی تلوار اُسے کاٹ رہی ہے‘‘ –
بیت مبارک کے اگلے تین مصرعوں میں آپ علیہ الرحمہ نے سانس کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے کہ دراصل مرشد کامل اپنے طالب کو اس راز سے بھی آگاہی عطا فرماتا ہے کہ ﷲ رحمن نے تیرے سانسوں کی صورت میں تجھے لازوال خزانہ عطا فرمایا ہے۔ جس کی اہمیت سے آگاہ ہوکر اللّٰہ تعالیٰ کا قرب و وصال حاصل کر سکتا ہے۔ از بسکہ سُلطان باھُو کئی مقامات پہ سانسوں کی قدر و اہمیت بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ رات دن کے چوبیس گھنٹے ہیں اور آدمی ان چوبیس گھنٹوں میں چوبیس ہزار سانس لیتاہے- ہر سانس کی نگہبانی کر کہ ہر سانس میں چودہ تجلیات، چودہ الہامات اور چودہ علوم پائے جاتے ہیں‘‘-
مزید ارشاد فرماتے ہیں :
’’جو فقیر تصدیق ِدل اور اقرارِ زبان کے ساتھ شوق و محبت سے اسم اللّٰہ کا ذکر کرتا ہے اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ تصور ِ اسم اَللّٰہُ میں مشغول رہتا ہے وہ گویا ہر سانس کے ساتھ چار ہزار قرآن مجید ختم کرتا ہے‘‘-
یہ علمِ قال کے غازی اور علم و عملِ حال کے شہید صاحبانِ راز کی معرفت و اسرار و رموز کی باتیں ہیں جن کا تعلق علمِ لدنی و علمِ مکاشفہ و معرفت سے ہے ۔ انہی پُرتاثیر و روحانی باتوں کا بالمشاھدہ مطالعہ کرتے ہوئے حضرت حافظ شیرازی ؒ کے فارسی شعر پر غور کرنا چاہئے، کہتے ہیں :
“ چو بشنوی سخنِ اہلِ دل مگو کہ خطاست
سخن شناس نہ ای جانِ من خطا این جاست”
جب تُو اہلِ دل کی (معرفت اور سُلوک کے اسرار و رموز کی) باتیں سنے تو یہ مت کہہ کہ (یہ باتیں) غلط ہیں، اے میرے دلبر، اصل غلطی تو یہ ہے کہ تُو خود ہی سخن شناس (عارف) نہیں ہے۔
تحقیق! ’جس ذکر سے مشاہدۂ حضور کھلتا ہے وہ ذکر قربِ الٰہی کا راز ہے۔ الاصول درویشی کے لائق وہ شخص ہے جو ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا ہے- درویش وہ ہے جو دم بھر کے لیے بھی ذکر ِ خدا سے غافل نہ ہو کیونکہ یہی فرمایا گیا ہے : ’’ زندگی کے سانس گنے ہوئے ہیں اور جو سانس ذکر ﷲ کے بغیر گزرے وہ مردہ ہے ۔ اور اسی ذکر کے ساتھ تصور و تفکر لازم و ملزوم ہیں۔ تفکر کے بغیر ذکر نہیں فقیری (ذکر) جھلیاں مارن سُتّے لوک جگاون ھُو ہے۔ اک مقام پر تو آپ نے ذکر کو فکر و تفکر کے بغیر ” کَصَوۡتِ الۡکَلۡبِ “ فرمایا ہے۔
اس لفظ تفکّر کے چار حروف ہیں، (ت ف ک ر) غور کیا جائے تو حرف ”ت ”سے ترکِ ہوا و نفس، حرف ”ف”سے فنائے نفس و فتوح القلب، حرف”ک” سے کرامتِ روح اور حرف”ر” سے رازِ حق تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جس تفکّر سے ترکِ ہوا و فنائے نفس نہ ہوا اور کرامتِ روح و رازِحق واضح نہ ہوسکے فرمان معظم ہے اُسے تفکّر نہیں کہا جاسکتا ۔ لہذا ذکر و تصور کے ساتھ ایسا تفکر لازم و ملزوم ہے کہ اس کے بغیر معراج و وحدت سِرّ سبحانی حاصل نہیں ہو سکتی
تبھی طالبانِ حق ذاکرین و عارفین کو حکم ہے کہ اے طالب تو ذکر( اسمِ ﷲ ذات) اور تفکّر کیا کر کیونکہ جب ذکر اور تفکر آپس میں مل جاتے ہیں تو اِن کی تاثیر شمشیر سے بھی تیز ہوتی ہے۔ تفکّر سے ہی ﷲ رحمن کے اسرار و بھید سے آشنائی ہوتی ہے۔ اہلِ تفکّر جب اسرارِ الٰہیہ سے واقف ہوتے ہیں تو ان کے دِل سے پرُدرد اور پرُسوز آہیں نکلتی ہیں جو وساوس’ خناس اور خواہشاتِ دنیا کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں۔ اصل ذاکر تو وہ ہیں جو اسمِ ﷲ ذات کے تفکّر میں محو رہتے ہیں اور ایک لمحہ بھی فارغ و غافل نہیں ہوتے۔ تفکّر سے وہ اسرار اور بھید القاء ہوتے ہیں جو کسی اور ذریعہ سے ہو ہی نہیں سکتے۔ ﷲ رحمن سے اسکا فضل اور توفیق بالیقین عطا ہونے کی دعا و دلیل کرنی چاہئے اور ہمیشہ کلمۃ الحق کہتے رہنا چاہیے گمراہ کرنے والے فکر سے ﷲ رحمن کی ذات پاک ہمیشہ محفوظ و مامون رکھے آمین
ذکر کنوں کر فکر ہمیشاں، ایہہ لفظ تکھا تلواروں ھُو
کڈھن آہیں تے جان جلاون، فکر کرن اسراروں ھُو
ذاکر سوئی جیہڑے فکر کماون، ہک پلک ناں فارِغ یاروں ھُو
فکر دا پھٹیا کوئی نہ جیوے، پٹے مڈھ چا پاڑوں ھُو
حق دا کلمہ آکھیں باھوؒ ،ربّ رکھے فکر دِی ماروں ھُو
تحریر: عمر شہزاد نیازی – سالِکؔ
لا جواب بہت خوب