“ماہتابِ پاکستان سعد حسین رضوی”

Article by Haseeb Hussain Qadri
چاند، جیسے سورج کی آب وتاب سے ٹھنڈی چاندنی بکھیرتا ہے ایسے ہی سعد حسین رضوی جب قبلہ امیرالمجاہدین رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے جلال و جمال کی تابندگی سے منور ہوتا ہوا چاند کے قالب میں ڈھل رہا تھا تو 12 اپریل 2021 نے اس ابھرتے چاند کو اماوس کی راتوں کی گہری گھنگور تاریکیوں نے اپنے اندر سمونے کا عمل شروع کر دیا۔
دنیا کو سعد حسین رضوی کے ان گنت جرائم سنائے گئے لیکن درحقیقت افسانہ جو بھی سنایا گیا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔
سعد حسین رضوی نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی مذہبی سیاسی جماعت کو عوامی امنگوں کے مطابق شفاف سیاسی جماعت بنانے کے لیے جو اقدامات اٹھانے شروع کیے تھے وہ طاغوت کے پیروکاروں کی ڈکٹیٹر جمہوریت کو ہضم نہیں ہو رہے تھے۔
سعد حسین رضوی کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ حکمران جماعت کو جنرل الیکشن سے دو سال قبل ہی نتائج کا ادراک ہو گیا تھا۔
سعد حسین رضوی کے وہ پختہ سیاسی اقدامات جن کے بارے میں انتہائی قریبی ذرائع بھی معلومات نہیں رکھتے تھے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے اژدہوں کے لیے زہر باد کی حیثیت رکھتے تھے۔
بالآخر مملکت خداداد پاکستان کے چند سیاسی مالکان نے سر جوڑے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس نوجوان کی پیش قدمی کو انتہائی سختی سے کچل دیا جائے، سونے پر سہاگا یہ کہ سعد حسین رضوی کے والد محترم علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے بغض میں جلتے ہوئے چند غیر ملکی عناصر نے اپنی حکومتوں کے ذریعے پاکستان کے ان سیاسی مالکان سے رجوع کیا اور اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔
لیکن جس کے خلاف یہ اقدامات اٹھانے کی ٹھان لی گئی تھی وہ جبل استقامت حضرت علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا شیر جوان صاحبزادہ تھا جس کی تربیت ہر لمحہ اپنے والد گرامی کی خلوتوں سے تراشی ہوئی تھی۔
اس چمکتے چاند نے اپنی آزادی پر دھبے برداشت کر لیے لیکن مسحورکن چاندنی پھیلانے کا عمل جاری و ساری رہا۔
بالآخر چودہویں کے چاند نے ان تاریک راتوں پر غلبہ پا لیا لیکن مخالفین نے خود پر عجب ستم ڈھایا کہ جس چاند کو اماوس کی رات کی تاریکیوں میں چھپانا مقصود تھا اس کی آب و تاب اور چمک پاکستان کے ان مفاد پرست سیاسی مالکان کی ہوس اقتدار کی وجہ سے اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سورج کا گمان ہو رہا ہے۔
لیکن طاغوت کے پیروکاروں نے ہار نہیں مانی اور اپنا پرانا ابلیسی حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا لیکن سعد حسین رضوی کے بڑھتے قدم اس بات کا پیش خیمہ ہیں کہ طاغوت کی تمام سازشیں اپنی موت آپ مر جائیں گی اور کوئی بھی طاغوتی حربہ کامیاب نہیں ہوگا۔
عمر رسیدہ سیاسی بونوں کے مستقبل کا تو کوئی ادراک نہیں لیکن یہ 27 سالہ نوجوان “سعد حسین رضوی” اُس پاکستان میں واضح حیثیت رکھتا ہے جو غزوہ ہند کی بساط بچھانے میں پیش پیش ہوگا۔
ملک پاکستان کی روحانیت کے تمام علمبردار اس وقت سعد حسین رضوی کی پشت پر ہیں۔
وہ شخصیت جس نے اپنے صبر اور استقامت سے نوجوانان پاکستان نامی سیم زدہ زمین کی آبیاری کر کے روشن مستقبل کے بیج بوئے دنیا اس کو آج “سعد حسین رضوی” کے نام سے جانتی ہے۔
اک ہمیں لطف مسیحائی کے مارے تو نہیں
اچھے اچھے ترے بیمار نظر آتے ہیں
خیر ہو ساقی نوخیز کہ محفل میں تری
آج کچھ صاحب دستار نظر آتے ہیں
سعد حسین رضوی کے انقلابی اقدامات کا احاطہ اگلے کالم میں کیا جائے گا۔
تحریر: محمد حسیب حسین قادری